مہک کا راز

113

جمال نے مزید کہا کہ فی الوقت میں ٹیم کو لیڈ کررہا ہوں۔ میرے بعد کمال ہیں اور آخر میں فاطمہ ہے۔ یہ سب اس لیے طے کر رکھا ہے کہ حالات کسی بھی وقت کوئی بھی رنگ اختیار کرسکتے ہیں، اس لیے ضروری ہے ہر کام نہایت نظم و ضبط کے ساتھ کیا جائے، ورنہ چودھری صاحب ہم میں کوئی چھوٹا، بڑا یا صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں۔
چودھری صاحب کے چہرے اور آنکھوں کے تاثرات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ انہیں جمال کی پلاننگ، نظم و ضبط کے اعتبار سے بہت ہی اچھی لگ رہی تھی۔
ابھی یہ آپس میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ کسی نے ٹھوکر مار کر دروازے کو زوردار طریقے سے کھولا۔ اس قسم کا انداز فرعون صفت لوگ دلوں میں دہشت بٹھانے کے لیے اپنایا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دو گن بردار اندر داخل ہوئے اور ان سے ہاتھ اٹھانے کے لیے کہا۔
جمال کو ہاتھ اٹھاتا دیکھ کر سب نے اپنے ہاتھ اوپر کی جانب بلند کرلیے۔ اسی کے ساتھ دو اور افراد اندر داخل ہوئے۔ ان کے داخل ہوتے ہی فاطمہ، جمال اور کمال کے کان وائرلیس سیٹ کے اینٹینا کی طرح کھڑے ہوگئے۔
ان دو افراد میں سے ایک فرد کے لباس یا سانسوں سے وہی مہک آ رہی تھی جیسے جیل میں قید قیدی کے بدن یا سانسوں سے آرہی تھی، اور ایسی ہی مہک انھوں نے جیل کے آفیسر مسٹر صفدر حسین کے لباس سے بھی آتی ہوئی محسوس کی تھی۔ یہ ایسی مہک تھی جس کو سونگھ لینے کی صلاحیت ان تینوں کے سوا شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ یہ خاص اللہ تعالیٰ کی دین تھی جس پر یہ تینوں اللہ کے شکر گزار تھے۔
’’ہوں…‘‘ جمال نے دل ہی دل میں ’ہوں‘ کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا۔ گویا ان کو اسی لیے زندہ رکھا ہوا تھا کہ وہ اب چودھری صاحب سمیت ان تینوں کو بھی دوا کے اثر میں لانے کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ان سے کام لے سکیں۔ یہاں یہ بات ثابت ہورہی تھی کہ جیل میں موجود جو شخص اقراری مجرم بنا ہوا تھا وہ جو بیان بھی دے رہا تھا اس میں خود اُس کی مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ جب جیلر نعمت خان نے فاطمہ، جمال اور کمال کے ساتھ جیل کے قیدیوں سے دوبارہ ملاقات اور سوال و جواب کا ارادہ ظاہر کیا تھا تو مسٹر صفدر حسین نے جیل میں قید قیدی نمبر 1103 کو جلدی میں ایک ڈوز جاکر ضرور دی ہوگی تاکہ کہیں وہ دوا کے اثر سے نکل کر کوئی سچی بات اپنے منہ سے نہ اگل دے۔ اس کے گمان میں بھی یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ پہلے وزٹ میں، جو ان تینوں نے مسٹر صفدر حسین کے ساتھ کیا تھا اُس وقت انھوں نے واضح محسوس کیا تھا کہ قیدی کے بدن سے مخصوص مہک تو ضرور آرہی ہے لیکن اس کی شدت بہت کم ہے، لیکن دوبارہ وزٹ میں وہی مہک شدت کے ساتھ آتی کیوں محسوس ہوئی تھی؟ اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ ویسی ہی خوشبو یا مہک مسٹر صفدر حسین کے لباس سے آرہی تھی۔ بہت حد تک تو جمال اور کمال ایک نتیجہ نکال لینے میں کامیاب ہوگئے تھے، لیکن جب تک ہر ہر معاملے کی پوری تصدیق نہ ہوجائے، حتمی رائے قائم کرنا مناسب بات نہیں ہوتی، بس یہی سوچ کر وہ اب تک اس پر تبصرہ کرنے سے رکے ہوئے تھے۔
تو گویا اب یہ بدمعاش ہمیں اپنا غلام بنانے کے لیے آئے ہیں۔ جمال کی ٹیم چاہتی تو ان سب کے اندر آتے ہی ان کو اس قابل نہ چھوڑتی کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے بھی رہ سکیں، لیکن جمال یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ جس کیمیکل یا دوا کی ان کو مہک آرہی ہے وہ کسی کے جسم میں داخل کس طرح کی جاتی ہے۔
وہ دو افراد جن میں سے مخصوص مہک آرہی تھی ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ تھا، جسے وہ کھول رہے تھے۔ اس میں ایک پائوچ تھا جس کو کھولا گیا تو اس میں سے ایک ایمپیول نکلا جس میں ہلکے نیلے رنگ کا ایک محلول تھا۔ یہ عام انجکشن کی شیشی سے سائز میں کچھ بڑا تھا۔
چودھری صاحب جمال کی جانب بار بار دیکھ رہے تھے۔ وہ جمال اور اس کی ٹیم کے چہروں پر حیرت انگیز اطمینان دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ کس قدر مضبوط اعصاب کے بچے ہیں جو اس ساری صورتِ حال کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے یہ سب تماشا ان ہی بچوں کو خوش کرنے کے لیے کیا جارہا ہو۔
پھر ایک اور بیگ سے سرنج نکال کر اس میں محلول بھرا گیا۔
تو گویا اس محلول کو سرنج کی مدد سے جسم میں انجکٹ کیا جاتا ہے۔
جب سرنج بھر لی گئی تو چودھری صاحب کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنا پیٹ کھولیں۔
’’ٹھیرو!‘ُ جمال نے نہایت پُرسکون لہجے میں آگے بڑھنے والے فرد کو روکا اور ہاتھ بلند کیے کیے کہا۔
’’او بھائی صاحب! چودھری صاحب کو کسی پاگل کتے نے تھوڑی کاٹا ہے جو ان کے پیٹ میں تم انجکشن لگانے چلے ہو۔‘‘
یہ سن کر تیز لہجے میں کہا گیا کہ ’’بکواس بند کرو‘‘۔
’’بکواس تو اب تمہیں بند کرنی پڑے گی‘‘۔ جمال نے بھی اسی طرح ڈپٹ کر کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ پھر تیز لہجے میں کہا گیا۔
’’سب اپنے ہاتھ نیچے گرا لیں‘‘۔ جمال نے فاطمہ، کمال اور چودھری صاحب کو مخصوص اشارہ کرتے ہوئے کہا، اور اس سے قبل کہ خود یہ کہنے والے کو کہ ’’کیا مطلب؟‘‘ مطلب سمجھ میں آتا، جمال کی پوری قمیص ایک بہت بڑا غبارہ بن کر ہلکے سے دھماکے کے ساتھ پھٹ چکی تھی اور اس میں سے خارج ہونے والی بے رنگ اور بے بو گیس پورے کمرے میں پھیل چکی تھی۔ قمیص کے پھولنے اور پھر پھٹ جانے میں شاید ایک سیکنڈ کا وقفہ بھی نہیں تھا۔ اسی دوران اشارہ سمجھتے ہی فاطمہ اور کمال حرکت میں آچکے تھے اور انھوں نے چودھری صاحب کے منہ اور ناک پر ایک رومال رکھ کر اُن کے کان میں زور سے کہا تھا کہ وہ اپنی سانس بند کرلیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ تینوں چودھری صاحب کا ہاتھ پکڑ کر تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل کر دروازے کو باہر سے بند کرچکے تھے۔
اندر سے صرف ایک بار دروازہ پیٹا گیا تھا لیکن دروازہ پیٹنے میں کسی قسم کی کوئی شدت نہیں پائی جاتی تھی، جس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ شرٹ سے نکلنے والی ان کی اپنی ایجاد کردہ زود اثر گیس اپنا کام کرچکی تھی اور اندر موجود لوگ کئی گھنٹوں کے لیے بے ہوش ہوچکے تھے۔
’’یہ سب کیا تھا؟‘‘ چودھری ایاز علی نے حیرانی و پریشانی کے عالم میں جمال کی ٹیم کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’چودھری صاحب اس پر بعد میں بات ہوگی۔ یہ زمین اور اس پر بنی ساری عمارتیں آپ کے علم میں تو ہوں گی۔ ہمارے خیال میں خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ اب ہمیں آپ کے کسی بھی ملازم پر کوئی اعتبار نہیں رہا، اور یقیناً آپ کو بھی کسی پر کوئی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ آپ شاید اس دوا کے متعلق نہیں جانتے ہوں گے۔ اگر وہ ہمارے بدن میں انجکٹ کردی جاتی تو ہم سب ان کی غلامی میں چلے جاتے۔ وہ فرد جو جیل میں اقراری مجرم بنا ہوا ہے وہ مسلسل اس دوا کے اثر میں رکھا جاتا ہے۔ اس پر بھی بعد میں تفصیل سے بات ہوگی۔ فی الحال آپ ایسی جگہ بتائیں جہاں آپ کے ملازمین نہ پائے جاتے ہوں، اور جہاں ہم چند گھنٹوں کے لیے کسی کی بھی نظروں میں نہ آسکیں۔
جن لوگوں نے ان کو یہاں بھیجا ہے وہ ان کے منتظر ہوں گے اور تاخیر کی صورت میں یا تو وہ خود آئیں گے یا کسی اور خطرناک ٹیم کو بھیجیں گے۔ اس وقت وہ بھیڑیے بنے ہوئے ہیں۔ ناکامی خود ان کے لیے موت کا پروانہ بن جائے گی۔ وہ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ان کا کھیل بگڑ چکا ہے، اس لیے اب وہ کسی بھی قسم کے انتہائی اقدامات کرسکتے ہیں، ہمیں لے جانے کے لیے ان کی گاڑی ہمارے کمرے کے سامنے ہی کھڑی ہے، لیکن ہم اس کو استعمال نہیں کریں گے کیونکہ کچھ نہیں معلوم کہ اس میں ٹریکر سمیت کتنی قسم کے اور آلات نصب ہوں۔ اس لیے اب جو بھی کرنا ہے وہ بھاگتے دوڑتے ہی کرنا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ