ترقی یافتہ ممالک میں کام کے اوقات اور ایام گھٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔پس ماندہ ممالک اُن کی اندھا دُھند تقلید کررہے ہیں جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ پس ماندہ دنیا کو زیادہ کام کرنا ہے تاکہ حقیقی ترقی یقینی بنائی جاسکے
جسے زندہ رہنا ہے اُسے کام کرنا ہے۔ کام یعنی معاشی سرگرمی۔ معاش یعنی گزربسر۔ اگر کوئی کام نہ کرنا چاہے تو؟ زندگی بسر تو ہوجاتی ہے مگر خاصی ذلت کے ساتھ، اور زندگی کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہوپاتا۔ اگر زندگی میں منعویت پیدا کرنا ہو تو کام کرنا لازم ہے۔ جو لوگ ہمہ وقت معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اُن کی زندگی میں اگرچہ عدمِ توازن پایا جاتا ہے، تاہم بہت سے معاملات میں وہ دوسروں سے بہت بہتر ہوتے ہیں۔ زندگی انتہاؤں سے بچنے اور معقولیت کے دائرے میں رہتے ہوئے جینے کا نام ہے۔ انسان کو بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اُس کے حقوق کم ہیں نہ فرائض۔ معاشی پہلو زندگی کے دیگر تمام پہلوؤں پر حاوی ہوجائے تو خاصا بگاڑ پیدا ہوتا ہے مگر پھر بھی یہ بگاڑ اُس بگاڑ سے کم ہوتا ہے جو کماحقہٗ معاشی جدوجہد نہ کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والے افلاس کا نتیجہ ہوتا ہے۔
جو لوگ دن رات کام کرتے ہیں اور آرام کو ترجیح دیتے ہیں نہ تعلقات کو، اُن کے لیے بھی مسائل کم نہیں ہوتے، مگر یہ مسائل کچھ نہ کرنے والوں یا مانگے تانگے کی زندگی بسر کرنے والوں کے مسائل سے کم پیچیدہ ہوتے ہیں۔ زیادہ معاشی جدوجہد کرنے والے رشتوں اور تعلقات کے معاملے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، مگر معاشی سرگرمیوں کا حق ادا نہ کرنے والے زیادہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور وہ بھی خاصی تحقیر اور تذلیل کی معیت میں۔
ہم خود بھی زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اور اپنے ماحول میں بھی لوگوں کو بہت کچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس قدر نارمل ہے کہ ہمیں اِس کا احساس بھی نہیں ہوپاتا۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ کسی کو بہت زیادہ دولت مند دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اُن کے پاس تو شاید کرنے کو اب کچھ رہا ہی نہیں، یعنی بہت زیادہ دولت کی صورت میں فرصت ہی فرصت ہوتی ہے اور مزے ہی مزے چل رہے ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
جن کے پاس بہت دولت ہوتی ہے وہ اُس دولت کو برقرار رکھنے کے لیے عام آدمی سے کہیں زیادہ محنت کرتے ہیں اور بہت سے معاملات کا خیال رکھتے رکھتے اُن کی زندگی سے آرام اور سُکون جاتا رہتا ہے۔ کسی بھی انتہائی مال دار آدمی کے ساتھ ایک دن گزاریے اور اُس کے معمولات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُس کے بکھیڑے بھی کم نہیں بلکہ عام آدمی سے کہیں زیادہ ہی ہیں۔
معاشی سرگرمی زندگی میں حقیقی معنویت پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ باپ دادا کی چھوڑی ہوئی کثیر دولت پر پلتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے اُن کی زندگی میں صرف اُلجھنیں رہ جاتی ہیں اور وہ بھرپور سُکون کو ترستے رہ جاتے ہیں۔ اگر کسی کو ترکے میں بہت کچھ ملا ہو اور وہ طے کرلے کہ اب بیٹھ کر کھائے گا تو یقین جانیے محض چند ماہ میں اُس کے اندر ایسی بیزاری پیدا ہوگی کہ زندگی کی ساری کشش اور رونق ہی جاتی رہے گی۔
اللہ نے معاشی جدوجہد میں ہمارے لیے نفسی اور روحانی تسکین کا سامان بھی رکھا ہے۔ جب انسان اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے پوری دیانت اور جاں فِشانی سے کچھ کرتا ہے تب زندگی میں ایسی معنویت پیدا ہوتی ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کا ہر انسان زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہتا ہے یعنی روحانی تسکین کا سامان زندگی بھر کے لیے ہے۔ جب انسان محنت اور دیانت کے ذریعے کچھ کماتا ہے تو اُس کی روح میں بالیدگی اور بلندی پیدا ہوتی ہے۔ یہ کیفیت اللہ کا عطیہ ہے۔
اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کو کتنا کام کرنا چاہیے؟ زندگی بھر تو کرنا ہے تاہم یومیہ بنیاد پر کتنا کرنا ہے؟ کیا متعلقین کو نظرانداز کرکے صرف کمانے پر متوجہ رہنا چاہیے؟ کیا زندگی صرف اور صرف معاشی جدوجہد کے لیے ہوتی ہے؟ کیا زندگی کے معاشرتی پہلو کو یکسر نظر انداز کردینا چاہیے؟
انسان کو کتنا کام کرنا چاہے، اِس حوالے سے دنیا بھر کے معاشروں میں غیر معمولی اختلافِ نظر پایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کام کے اوقات زیادہ نہیں، تاہم کام انتہائی سختی اور ڈسپلن کے تحت لیا جاتا ہے، اس لیے انسان کو بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ پس ماندہ معاشروں میں اوقاتِ کار زیادہ رکھنے پر توجہ دی جاتی ہے، کام پر نہیں۔ آجروں کا ذہن آج بھی یہی ہے کہ ملازمین کو آنکھوں کے سامنے ہونا چاہیے، پھر چاہے وہ کم ہی کام کریں۔
حال ہی میں امریکی ارب پتی ایلون مسک نے امریکا کے سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے سے متعلق محکمے کا چارج لینے کے بعد ایسے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کا اعلان کیا ہے جو ہفتے میں 80 تا 96 گھنٹے کام کرنے کے لیے تیار ہوں! ایلون مسک کا کہنا ہے کہ کسی بھی ادارے یا محکمے کو درست کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان بہت زیادہ کام کرے۔ امریکا کے سرکاری اداروں کے معاملات درست کرنے کے لیے اُن کی کارکردگی کا بھرپور جائزہ لینا لازم ہوچکا ہے۔ اِس کے لیے زیادہ کام کرنا بھی لازم ہے، یعنی زیادہ سے زیادہ وقت دینا ہوگا۔ جو لوگ آرام کی پروا کیے بغیر، تھکن کو اپنے حواس پر سوار کیے بغیر کام کرنے کے لیے تیار ہوں وہ آگے آئیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی نے بہت زیادہ کام کی بات کی ہو۔ بھارت کے ایک بڑے آجر کی بھی یہی رائے ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو زیادہ کام کرنا ہوگا اور وہ بھی درستی یقینی بناتے ہوئے۔ آئی ٹی کے معروف ادارے Infosys کے بانی سربراہ نارائن مُورتی کہتے ہیں کہ بھارت کو آگے بڑھنا ہے تو لازم ہے کہ ہفتے میں دو کے بجائے صرف ایک چھٹی کا نظام بنایا جائے اور ہوسکے تو اوقاتِ کار میں ایک یا دو گھنٹوں کا اضافہ بھی کیا جائے۔ آرام ضروری ہے مگر ترقی ممکن بنانے کے بعد۔ دنیا بھر کی ترقی یافتہ اقوام نے آرام کیے بغیر کام کرکے شاندار ترقی ممکن بنائی ہے۔
نارائن مُورتی کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ آرام کی بات اُنہیں زیبا ہے جو بہت کام کرچکے ہیں۔ برِصغیر کے کلچر میں کام کو اہمیت دینے کا چلن ہے ہی نہیں۔ ایسے میں زیادہ آرام کرنا عجیب لگتا ہے۔ یومیہ آٹھ گھنٹے اور ہفتے میں 40 گھنٹے کام کرنے کی صورت میں لوگ اپنی زندگی کو صرف خرابیوں کی نذر کرتے ہیں۔ ذرا سوچیے، ہفتے میں اللہ نے ہمیں جو وقت دے رکھا ہے اُس میں سے صرف 23.8 فیصد کو معاشی سرگرمیوں کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ یہ تو اچھی خاصی عیاشی ہے۔ بھارت جیسے ملک میں کہ جہاں لوگ معاشی الجھنوں سے نپٹنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے، ہفتے میں اس قدر کم کام کرنا قدرت کی فیاضی یعنی وقت کی فراوانی کی تضحیک کے مترادف ہے۔
نارائن مورتی کو زیادہ کام کرنے کی تحریک دینے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ وہ کہتے ہیں اب شاید میرا یہ تصور میرے ساتھ ہی قبر میں جائے گا یعنی قوم میرے مشورے پر عمل نہیں کرے گی اور اپنا وقت ضایع کرتی ہی رہے گی۔
سی این بی سی گلوبل لیڈرشپ سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے نارائن مورتی نے کہا کہ انتہائی پس ماندہ ممالک کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا کلچر اپنانا چاہیے تاکہ زندگی ڈھنگ سے گزرے اور زیادہ کمانے کی صورت میں بہتر حالاتِ زندگی کی راہ ہموار ہو۔ نارائن مورتی کہتے ہیں کہ پس ماندہ ممالک کے لوگ ترقی یافتہ ممالک کے حالات سے وہ نہیں
سیکھتے جو سیکھنا چاہیے۔ زیادہ کام کرنا ہر پس ماندہ ملک کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ زیادہ کام کرنے کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو یہ بات سکھائی جانی چاہیے کہ اگر وہ زیادہ کام کریں گے تو بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ یہ تو ہو نہیں رہا اور لوگ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح کم کام کرکے زیادہ سے زیادہ سہولتیں طلب کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں عام آدمی کو ورک پلیس میں جو سہولتیں میسر ہیں وہ بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں ممکن نہیں کیونکہ یہاں ترقی کا گراف زیادہ بلند بھی نہیں اور وسائل کی کمی کے باعث لوگوں کو بہت زیادہ نوازا بھی نہیں جاسکتا۔
زیادہ کام کرنے کی تحریک دینے والے ہر انسان کو گالیاں پڑتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، نیپال، افغانستان اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ افریقا کے پس ماندہ ممالک میں بھی لوگ کام سے بھاگتے ہیں۔ وہ کم کام کرکے زیادہ فوائد بٹورنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ یہ بات کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے کہ کم کام کرنے سے اُن کی زندگی میں عدمِ توازن پیدا ہوتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے شعبے کی ایک ابھرتی کمپنی کے بھارتی نژاد چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے بتایا ہے کہ اُنہیں یہ بتانے پر قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اُن کی کمپنی ہفتے میں 84 گھنٹے کام کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
دَکش گپتا گریپٹائل کے سی ای او ہیں۔ انہوں نے اپنی کمپنی کے انتہائی سخت ورک کلچر کی تفصیلات سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک پوسٹ میں پیش کی ہیں۔
دَکش گپتا کہتے ہیں کہ اُن کی کمپنی میں کام کے اوقات صبح نو بجے شروع ہوتے ہیں اور رات گیارہ بجے تک جاری رہتے ہیں۔ ہفتے کے دن بھی کام ہوتا ہے اور کبھی کبھی اتوار کو بھی۔
دَکش گپتا بتاتے ہیں کہ ملازمت کے خواہش مند افراد کو انٹرویو کے دوران ہی بتادیا جاتا ہے کہ ہماری کمپنی کام اور زندگی کے درمیان توازن کی زیادہ گنجائش نہیں دیتی۔ ہم واضح کردیتے ہیں کہ ہم نہ صرف یہ کہ ہفتے کو بھی کام کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو اتوار کو بھی کام جاری رہتا ہے۔ اور ہاں، یومیہ 12 تا 14 گھنٹے کام ہوتا ہے۔
دَکش گپتا کا کہنا ہے کہ معاملات ابتدا ہی سے شفاف رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ جو لوگ ہمارے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند ہیں اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کس ڈھنگ سے کام کرنا پسند کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر دَکش گپتا کی باتیں وائرل ہوتے ہی اُن پر شدید نکتہ چینی شروع ہوگئی۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ ایسے زہریلے ماحول میں کون کام کرنا چاہے گا! یہ تو بہت ہی خطرناک ذہنیت ہے۔ کچھ لوگوں نے دَکش گپتا کو سب کچھ صاف صاف بتانے پر سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ملازمین کو اچھا معاوضہ دیا جارہا ہے تو بہت اچھی بات ہے ورنہ یہ جدید دور کی غلامی کے سوا کچھ نہیں۔
دَکش گپتا کا کہنا ہے کہ پوسٹ وائرل ہونے کے بعد سے اُن کے اِن باکس میں موت کی دھمکیاں بھی پہنچی ہیں اور ملازمت کی درخواستیں بھی۔ اِن ای میلز میں 20 فیصد موت کی دھمکیوں سے متعلق ہیں اور 80 فیصد ملازمت کی درخواستوں پر مبنی ہیں۔
دَکش مہتا کا کہنا ہے کہ کوئی بھی انسان مسلسل بہت زیادہ کام نہیں کرسکتا۔ ہماری کمپنی چونکہ ابتدائی مرحلے میں ہے اس لیے اِسے زیادہ محنت اور توجہ کی ضرورت ہے۔ جب ادارہ بھرپور ترقی سے ہم کنار ہوجائے گا تب زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
چار ایامِ کار کا ہفتہ
جاپان کے ایک علاقے نے سرکاری ملازمین کے لیے چار دن کا ورک ویک متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیبا پریفیکچر میں ایک نیا مسودۂ قانون مقامی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے جس کے تحت سرکاری ملازمین ہفتے میں تین دن چھٹی کریں گے تاہم ہفتے بھر میں ان کے اوقاتِ کار وہی رہیں گے۔ علاقائی حکومت کا کہنا ہے کہ مہینے کے چار ہفتوں میں سرکاری ملازمین کو مجموعی طور پر 155 گھنٹے یعنی یومیہ ساڑھے نو گھنٹے کام کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ جاپان میں لوگ محنت کے محض شوقین نہیں بلکہ عادی ہیں۔ زیادہ کام کرنے سے زیادہ آمدنی کا حصول تو یقینی بنایا جاچکا ہے تاہم بیشتر افراد زندگی میں کچھ خلا سا محسوس کرتے ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ لوگ کام سے کچھ ہٹ کر اہلِ خانہ، دوستوں اور رشتے داروں کو بھی وقت دیں تاکہ زندگی متوازن انداز سے بسر ہو۔
کام کے اوقات گھٹانے یا ہفتے میں دو سے تین دن کی چھٹی دینے کا تصور نیا نہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اس حوالے سے بہت کچھ سوچا اور کیا جارہا ہے۔ یورپ بھر میں حکومتیں فلاحی ریاست کے تصور کے ساتھ کام کرتی ہیں اور ہر سطح پر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں یقینی بنانے کا سوچتی ہیں۔ یورپ اور امریکا میں بھی چار دن کا ورک ویک متعارف کرانے کی منصوبہ سازی کی جاتی رہی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے زیادہ وقت دینا ہے اور دوسری طرف حکومتی اخراجات بھی گھٹانا ہے۔