قدرت کا شاہکار:دنیا کے سمندروں میں میٹھے پانی کے چشمے

54

پس منظراورقرآن کی حقانیت:
’’اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیذ و شیریں، دوسر اتلخ و شور اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔‘‘ (سورت الفرقان۔ آیت۔53)

یہ کیفیت ہر اُس جگہ رونما ہوتی ہے جہاں کوئی بڑا دریا سمندر میں آکر گرتا ہے۔ اس کے علاوہ خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں، جن کا پانی سمندرکے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے۔ (حتیٰ کہ مدوجزرکے دونوں میں جب سمندر اپنے جوبن پر ہوتا ہے‘ تب بھی یہ اپنا وجود برقرار رکھتا ہے اور سمندرکی طاقت ور طوفانی لہریں اس سے ٹکرا ٹکرا کر بس ہوجاتی ہیں۔)

ترکی امیرالبحر سیِدی علی رئیس (کاتبِ رومی) اپنی کتاب مراۃ الممالک میں، جو سولہویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے، خلیج فَارس کے اندر ایسے ہی مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہاں آبِ شورکے نیچے آبِ شیریں کے چشمے ہیں، جن سے میں خود اپنے (بحری) بیڑے کے لیے پانی حاصل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداً وہ بھی خلیجِ فارس کے انہی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنویں کھود ل یے گئے اوران سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہہ میں آبِ شیریں کے چشمے ہیں، جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ (تفہیم القرآن۔ جلد سوم۔ سورت الفرقان۔ حاشیہ 68) دنیا کے سمندروں میں میٹھے پانی کے چشمے غیر معمولی اور منفرد جغرافیائی مقامات پر پائے جاتے ہیں، جہاں زیر زمین میٹھا پانی سمندر میں بہتا ہے۔ یہ چشمے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی موجودگی عام طور پر زمین کی ساخت اور آبی سائنس (hydrogeology) پر منحصر ہوتی ہے۔ یہاں ان مقامات کا خلاصہ پیش ہے:

-1خلیج میکسیکو :
خلیج میکسیکو میں سمندر کے نیچے میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں۔ یہ چشمے ٹیکساس اور فلوریڈا کے ساحلی علاقوں کے قریب پائے گئے ہیں۔ زیرِ زمین چٹانوں کے ذریعے جمع ہونے والا پانی سمندر کے نیچے بہتا ہے۔

-2 بحیرہ عرب :
بھارت اور عمان کے ساحلی علاقوں کے قریب کچھ مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے رپورٹ کیے گئے ہیں۔ یہ چشمے زیر زمین پانی کے پریشر کی وجہ سے سمندر میں نکلتے ہیں۔

-3 بحر اوقیانوس:
امریکہ کے مشرقی ساحل (Florida Keys) کے قریب اور برازیل کے ساحلی علاقوں میں سمندر کے نیچے میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں۔ یہ چشمے زیرِ زمین پانی کے نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔

-4 بحیرہ کیریبین:
کیوبا اور بہاماس کے قریب سمندر کے نیچے میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں، جہاں زمین کی ساخت اور چٹانوں میں موجود دراڑوں کے ذریعے پانی سمندر تک پہنچتا ہے۔

-5بحر الکاہل:
فیجی، ساموا اور ہوائی کے قریب کچھ علاقوں میں زیر زمین میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں۔ یہ چشمے آتش فشانی سرگرمیوں کے باعث چٹانوں میں موجود دراڑوں کے ذریعے نکلتے ہیں۔

-6بحیرہ احمر:
سعودی عرب اور مصر کے قریب زیرِ سمندر کچھ مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے رپورٹ کیے گئے ہیں، جو زیر زمین پانی کے ذخائر کے ذریعے سمندر میں پہنچتے ہیں۔

میٹھے پانی کے چشمے کیسے بنتے ہیں؟
میٹھے پانی کے چشمے عام طور پر ان علاقوں میں پائے جاتے ہیں جہاں:
زیر زمین پانی کا پریشر: زمین کے نیچے پانی کے ذخائر اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ سمندر کی سطح سے نیچے دباؤ کے تحت خارج ہو جاتے ہیں۔
چٹانوں کی دراڑیں: زمین میں موجود دراڑیں اور شگاف پانی کو سمندر تک پہنچنے کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔
پانی کی تہہ بندی: کچھ ساحلی علاقوں میں میٹھا پانی سمندری پانی سے کم کثیف ہوتا ہے اور اوپر کی سطح پر تیرتا ہے۔

تحقیق اور دریافت:
میٹھے پانی کے ان چشموں کی دریافت جدید ٹیکنالوجیز جیسے:
٭سیسمک امیجنگ (Seismic Imaging)
٭آبی ڈرونز
٭ڈیپ سی ڈائیونگ
کے ذریعے ممکن ہوئی ہے۔ دنیا کے ان چشموں کی درست تعداد اور مقامات اب بھی تحقیق کا موضوع ہیں، کیونکہ کئی مقامات ابھی دریافت کیے جانے باقی ہیں۔

’’سب مرین گراؤنڈ واٹر ڈسچارج‘‘:
تازہ ترین تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سمندروں کے اندر میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں، جنہیں ’’سب مرین گراؤنڈ واٹر ڈسچارج‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ چشمے کئی علاقوں میں نہ صرف پانی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں بلکہ ماحولیاتی اور اقتصادی اہمیت بھی رکھتے ہیں۔

موجودہ دریافتیں اور تحقیق:
پریشین گلف: خلیج فارس میں، خاص طور پر بحرین میں، صدیوں سے میٹھے پانی کے چشموں کو پینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ چشمے تاریخی اور ثقافتی اہمیت رکھتے ہیں اور یہاں کے ساحلی ماحولیاتی نظام کو سہارا دیتے ہیں۔

بحیرہ مردار (Dead Sea):
حالیہ تحقیق میں بحیرہ مردار کے کنارے موجود زیر زمین میٹھے پانی کے چشمے دریافت کیے گئے ہیں۔ ان چشموں کا پتا جدید ٹیکنالوجی، جیسے خودکار آلات (USVs) کے ذریعے لگایا گیا۔ ان چشموں کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں اور زیر زمین پانی کے بہاؤ کے متعلق معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔

آسٹریلیا کےWonky Holes:
آسٹریلیا کے ساحل کے قریب پانی کے چشمے مچھلیوں کی بہتات کے مراکز ہیں اور ان کے ارد گرد مچھلی پکڑنے اور ڈائیونگ کی سرگرمیاں عام ہیں۔

امریکہ میں زیر زمین نظام:
امریکہ میں فلوریڈا جیسے مقامات پر زیر زمین چشموں کا بڑا نیٹ ورک دریافت کیا گیا ہے۔ یہ چشمے نہ صرف مقامی پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ ان کا ایکویفر سسٹم مزید دریافت کے لیے موضوعِ بحث ہے۔
ماحولیاتی اثرات: ان چشموں کا ماحولیاتی نظام پر بڑا اثر ہوتا ہے، خاص طور پر ساحلی علاقوں میں۔ تاہم، زمین کے اندرونی پانی کے زیادہ استعمال اور آلودگی سے ان چشموں کو خطرہ لاحق ہے۔

اہمیت اور مستقبل:
ان چشموں کی تحقیق سے پانی کے غیر روایتی ذرائع کو تلاش کرنے اور پانی کے بحران سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سائنسدان ماحولیاتی اور انسانی ضروریات کے توازن کے لیے ان چشموں پر مزید تحقیق کر رہے ہیں۔
میٹھے پانی کے زیر سمندر یہ چشمے نہ صرف ماحولیاتی اور اقتصادی پہلوؤں سے اہمیت رکھتے ہیں بلکہ مستقبل میں انسانی ضروریات اور عالمی وسائل کے تحفظ کے لیے بھی بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں۔

-1 دفاعی اہمیت:
سٹریٹجک وسائل: میٹھے پانی کے یہ ذخائر ساحلی ممالک کے لیے ایک سٹریٹجک اثاثہ ہیں، خاص طور پر ایسے خطوں میں جہاں میٹھے پانی کی قلت ہے، جیسے خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ۔آبی جنگوں سے تحفظ: بڑھتی ہوئی آبی قلت کے تناظر میں، زیر سمندر میٹھے پانی کے چشمے بین الاقوامی سطح پر تنازعات کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
فوجی اور بحری استعمال: یہ چشمے ساحلی علاقوں میں تعینات بحری افواج کے لیے پینے کے پانی کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جو جنگی حالات میں لاجسٹک سہولت فراہم کرے گا۔

-2اقتصادی اہمیت:
پانی کی قلت کا حل: ان چشموں سے پانی کے حصول کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، جیسا کہ سمندری ریورس اوسموسس (Reverse Osmosis)‘ اقتصادی طور پر فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

ماہی گیری کی صنعت: میٹھے پانی کے چشمے مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کے لیے اہم ہیں، جو ماہی گیری کے لیے بنیادی ذریعہ ہیں۔

سیاحت: ان چشموں کے ارد گرد ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، جیسے آسٹریلیا کے “Wonky Holes” میں ڈائیونگ۔

-3 انسانی ضروریات اور مستقبل میں اہمیت:
پانی کی عالمی قلت: اقوام متحدہ کے مطابق 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی قلت کا سامنا کر سکتی ہے۔ ایسے میں یہ چشمے متبادل ذرائع کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔

پائیدار ترقی: زیر سمندر پانی کے ذخائر کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کر کے عالمی سطح پر پانی کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

ٹیکنالوجی کا کردار: جدید تحقیقاتی ٹیکنالوجیز، جیسے آبدوز روبوٹس اور خودکار سطحی گاڑیاں (USVs)، ان چشموں کے بارے میں مزید معلومات فراہم کر رہی ہیں، جو پانی کے بہتر انتظام میں مددگار ہوں گی۔

چیلنجز اور مواقع:
آلودگی اور ماحولیاتی خطرات: انسانی سرگرمیاں، جیسے سمندری ڈرلنگ اور صنعتی فضلہ، ان چشموں کو آلودہ کر سکتی ہیں۔

ماحولیاتی توازن: ان چشموں کے زیادہ استعمال سے قریبی ماحولیاتی نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ تحقیق اور سرمایہ کاری: حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کو ان چشموں کی دریافت اور استعمال کے لیے سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔

خلاصہ:
دنیا بھر کے سمندروں میں موجود میٹھے پانی کے یہ چشمے عالمی پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے، اقتصادی ترقی کے فروغ، اور ماحولیاتی تحفظ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ان کا ذمہ داری سے استعمال کیا جائے، تو یہ انسانی بقا اور عالمی امن کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔

حصہ