’’بلیو زون‘‘ کی زندگی حقیت یا مفروضہ؟

38

بلیو زونز وہ علاقے ہیں جہاں لوگ دنیا کے باقی حصوں کی نسبت طویل اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ تاہم کچھ افراد کا ماننا ہے کہ ان علاقوں کی زندگی بخش خصوصیات کے بارے میں کیے جانے والے دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور قریب سے جائزے پر درست نہیں لگتے

دنیا بھر کے بلیو زونز، جیسے اوکیناوا (جاپان)، سردینیا (اٹلی)، کوسٹا ریکا، نکوا (یونان) اور لوما لنڈا (کیلی فورنیا، امریکا) نے ماہرین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ آخر وہ کیا عوامل ہیں جو ان علاقوں میں رہنے والوں کی طویل عمر اور صحت مند زندگی کا سبب بنتے ہیں۔ کیونکہ ان علاقوں میں لوگوں کی زندگی کے معمولات میں کچھ خاص باتیں مشترک ہیں جو انہیں دنیا بھر کے دوسرے علاقوں کے لوگوں سے مختلف اور بہتر بناتی ہیں۔اس پر جہاں بہت کچھ لکھا گیا وہاں نیٹ فلیکس نے 2023ء میں ’لِو ٹو 100: سیکرٹس آف دا بلیو زونز‘ کے عنوان سے دستاویزی فلم سیریز بھی بنائی ہے۔

آج کے ڈیجیٹل اور مشینی دور میں انسانی زندگی مصنوعی سہولیات سے گھری ہوئی ہے، اور انسان میں ایک بار پھر فطرت کی طرف لوٹنے کی خواہش شدت اختیار کررہی ہے۔ اگرچہ یہ رجحان بڑے پیمانے پر نہیں، لیکن چھوٹے پیمانے پر ضرور دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف کمیونٹیز اور سماجی منصوبے بنانے کی ضرورت ہے بلکہ این جی اوز بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ کچھ افراد نے انفرادی طور پر بھی آرگینک اور قدرتی ماحول میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے، جیسا کہ ہمارے دوست لندن سے پلٹے قاسم صدیقی، جنہوں نے بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کی ایک تحصیل ’’بیلا‘‘کے قریب زمین خرید کر اپنی فیملی کو وہاں آباد کیا ہے، اسی طرح مشہور موٹیویشنل اسپیکر سلمان صدیقی، جو اسلام آباد کے قریب ایک فطری زندگی کی تلاش میں سکونت پذیر ہیں۔

اس پس منظر میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ’’بلیو زونز‘‘ کا نام کہاں سے آیا اور اس کی ابتدا کہاں ہوئی؟

بلیو زونز کا نام سب سے پہلے ڈین بٹنر نے 2004ء میں ان علاقوں کا مطالعہ کرنے کے دوران دیا۔ بٹنر اور ان کی ٹیم نے جب طویل عمر پانے والی ان کمیونٹیز کی تحقیق کی، تو انہوں نے سب سے پہلے ان علاقوں کی نقشہ بندی کی۔ ان نقشوں پر ان علاقوں کو حلقے کی شکل میں نشان زد کیا گیا، جس کا رنگ نیلا تھا، اور اس وجہ سے ان علاقوں کو ’’بلیو زونز‘‘ کا نام دیا گیا۔ بی بی سی نے لکھا کہ اس کے بعد 2008ء میں ڈین بٹنر نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا ’’دی بلیو زونز: لیسن فار لیونگ لانگر فارم دی پیپلز ہو ہیو لیڈ لانگیسٹ‘‘ (یعنی: ’’طویل عرصے تک زندہ رہنے والوں سے سبق‘‘)۔ اس کتاب میں انہوں نے اُن کمیونٹیز کا تجزیہ کیا جو دنیا میں سب سے طویل عمر پانے والی ہیں۔ اس کے بعد سے بیوٹنر نے اس خیال کو پھیلانے اور طرزِ زندگی کے ان اصولوں کو فروغ دینے کے لیے خود کو مکمل طور پر وقف کردیا۔

تاہم ان کی تحقیقات اور بیانات پر تمام لوگ متفق نہیں تھے۔ بعض افراد نے یہ اعتراض کیا کہ بیوٹنر کی تحقیق طویل مدتی سائنسی مطالعے کے بجائے محض مشاہدے پر مبنی تھی، جس کے نتیجے میں ان کے تجزیے کی بنیاد مستند سائنسی شواہد کے بجائے تجربات اور ذاتی مشاہدات پر تھی۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بلیو زونز کا طرزِ زندگی اسلام کے اصولوں اور تعلیمات سے بہت مطابقت رکھتا ہے، جب کہ اسلام میں بھی طویل اور صحت مند زندگی گزارنے کے اصول موجود ہیں جو بلیو زونز کی زندگی کے اصولوں سے ہم آہنگ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے طرزِ زندگی سے ہمیں صحت مند زندگی گزارنے کے اہم اصول سکھائے۔ اسلامی تعلیمات میں خوراک میں اعتدال پسندی، جسمانی ورزش، ذہنی سکون، اور سماجی تعلقات پر زور دیا گیا ہے جو بلیو زونز کے طرزِ زندگی میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اس طرح بلیو زونز کا تصور صرف ایک سائنسی تحقیق یا جغرافیائی مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ طویل اور صحت مند زندگی کے لیے مخصوص اقدار اور اصول موجود ہیں، اور اسلام ان ہی اصولوں کی پیروی کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔

زندگی کا مقصد:
بلیو زونز کے افراد کی زندگی میں ایک واضح مقصد ہوتا ہے، وہ بڑا سوچتے ہیں جو انہیں روزانہ کی مصروفیت میں توانائی فراہم کرتا ہے۔

جیسے ہمارے یہاں علامہ اقبال نے کیا خوب انداز میں مقصدِ حیات کی طرف متوجہ کیا ہے:

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

ان کا مقصد صرف ذاتی کامیابی یا دولت کا حصول نہیں ہوتا، بلکہ ان کا مقصد معاشرتی فائدہ اور خاندان کے لیے کچھ ایسا کرنا ہوتا ہے جو ان کی زندگی کے اصل معنی کو بڑھا دے۔ ان کی زندگی کا مقصد انہیں روزانہ کچھ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے اور وہ ہر صبح ایک نئی امید اور جوش وجذبے کے ساتھ اٹھتے ہیں۔

خاندانی رشتہ:
ان کمیونٹیز میں مضبوط خاندانی تعلقات ایک اہم عنصر ہیں۔ بلیو زونز کے لوگ اپنے والدین، بچوں اور بزرگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور ان کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم رکھتے ہیں۔ خاندان کی مدد اور تعاون کا یہ سلسلہ ان کے ذہنی اور جذباتی سکون کو بڑھاتا ہے، جو طویل عمر کا سبب بنتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ خاندان ایک دوسرے کا سہارا ہوتا ہے، اور اس رشتے کی مضبوطی کی بدولتافراد اپنی زندگی کے چیلنجز کا سامنا زیادہ پُرسکون طریقے سے کرتے ہیں۔

اسی طرح اسلام میں بھی خاندان کے رشتے کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو‘‘۔

ذہنی و دماغی تناؤ کا کم ہونا:
بلیو زونز میں رہنے والے افراد کی زندگی میں معمول کی سرگرمیاں اور ذہنی و دماغی تناؤ کو کم کرنے کے لیے مخصوص سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ دن کا آغاز عبادت، مراقبہ یا آرام دہ سرگرمیوں سے کرتے ہیں جو ذہنی سکون فراہم کرتی ہیں۔ اوکیناوا میں خواتین چائے کی محفلیں منعقد کرتی ہیں، جہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بات چیت کرکے ذہنی دباؤ کو کم کرتی ہیں۔ یہ طریقے ذہنی سکون کے لیے بہت مفید ہیں، اور ان کا صحت کے ساتھ زندگی (چاہے عمر جتنی ہو) پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

اسلام میں بھی نماز، تسبیح، ذکر اور دعا کے ذریعے انسان کو ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’یاد رکھو! اللہ کی یاد میں دلوں کا سکون ہے‘‘۔

عبادت اور ذکرِ الٰہی انسان کو ذہنی سکون دینے کے ساتھ ساتھ روحانی سکون بھی فراہم کرتے ہیں۔

سماجی سرگرمیاں:
بلیو زونز کے افراد کی روزمرہ زندگی میں سماجی تعلقات ایک اہم پہلو ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرتے ہیں اور مختلف سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں ان کے جذباتی سکون کے لیے اہم ہیں، اور ان کی زندگی کو خوشی اور سکون سے بھر دیتی ہیں۔ اسلام میں بھی سماجی تعلقات اور برادری کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔

اسلام میں دوسروں کے ساتھ حُسنِ سلوک، مدد، اور محبت کا پیغام دیا گیا ہے تاکہ ایک بہتر اور متحد معاشرہ تشکیل پائے۔

غذا کے معمولات:
بلیو زونز کے لوگ زیادہ تر صحت مند اور متوازن غذا کھاتے ہیں۔ ان کی خوراک میں سبزیاں، پھل، اناج اور دیگر قدرتی غذائیں شامل ہوتی ہیں جو جسم کو تمام ضروری غذائیت فراہم کرتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلیو زونز کے لوگ کبھی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھاتے، بلکہ وہ ہمیشہ 80 فیصد تک ہی کھانے کو مکمل کرتے ہیں، جسے ’’ہاراریش‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عادت ان کی طویل عمر کا ایک اہم راز ہے کیونکہ اس سے ان کے جسم پر بوجھ کم پڑتا ہے اور وہ صحت مند رہتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں بھی خوراک کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’کھاؤ لیکن حد سے زیادہ نہ کھاؤ، کیونکہ زیادہ کھانا تمہیں بیمار کرسکتا ہے‘‘۔

اسلام میں کھانے پینے کے معاملات میں اعتدال کی تعلیم دی گئی ہے، قرآن میں فرمایا گیا:

’’اور کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو، کیونکہ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔

جسمانی سرگرمیاں:
بلیو زونز میں رہنے والے افراد جسمانی سرگرمیوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ ان میں چلنا، باغبانی کرنا یا دیگر ہلکی پھلکی ورزشیں شامل ہیں۔ ان سرگرمیوں سے ان کی صحت بہتر ہوتی ہے اور وہ تندرست رہتے ہیں۔ جسمانی سرگرمیاں نہ صرف جسم کو طاقت دیتی ہیں بلکہ ذہن کو بھی چاق چوبند رکھتی ہیں۔

اسلام میں بھی جسمانی صحت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مومن کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک صحت اور دوسری وقت‘‘۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’ہمیں طاقتور جسم اور اچھی صحت کی ضرورت ہے تاکہ ہم اللہ کی عبادت میں مضبوط ہوں‘‘۔

اسلام میں جسمانی ورزش جیسے تیرنا، دوڑنا، اور تلوار بازی کو پسندیدہ سرگرمیاں قرار دیا گیا ہے، جو کہ فرد کی جسمانی طاقت اور تندرستی کے لیے فائدے مند ہیں۔

خاندانی مراسم کی مضبوطی
بلیو زونز کے لوگ اپنے خاندان کی خوشی و غم کے ساتھی ہوتے اور ان میں شامل رہتے ہیں۔ ان کے درمیان ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور تعاون کا جذبہ ہوتا ہے، جو ان کے طرزِ زندگی کا اہم حصہ ہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایک ساتھ مل کر معاشرتی طور پر فائدہ مند سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، جیسے کہ رضاکارانہ کام، ایونٹس یا اجتماعات۔

مذہب سے تعلق:
بلیو زونز میں رہنے والے افراد کا عقیدہ اور مذہب بھی ان کی طویل عمر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے مذہبی عقائد ان کی زندگی کے مقصد کو بڑھاتے ہیں۔ اس طرح کی روحانیت اور عقیدت انہیں ذہنی سکون فراہم کرتی ہے، جو صحت مند زندگی کی راہ ہموار کرتی ہے۔

ماحولیاتی اثرات:
بلیو زونز میں رہنے والے افراد کو بہترین ماحول اورحالات میسر ہیں۔ وہاں کی قدرتی خوبصورتی، صاف ستھرا ماحول، اور شہری زندگی سے دوری ان کے طرزِ زندگی کا حصہ ہے۔ یہ قدرتی ماحول ان کے جسم و ذہن کی صحت کے لیے فائدے مند ہے، کیونکہ وہاں شور شرابے اور آلودگی سے دوری ان کے لیے ایک پُرسکون زندگی فراہم کرتی ہے۔

اسلام میں بھی ماحول کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’زمین اور اس کے وسائل اللہ کی امانت ہیں، اور انسان ان کا محافظ ہے‘‘صلی اللہ علیہ وسلم

مفروضہ یا جھوٹ؟
یہ کہانی جو بلیو زون سے متعلق ہے جس کی بڑی شہرت ہے۔ گزشتہ دنوں معروف صحافی جاوید چودھری کی بھی ایک ویڈیو اس موضوع پر سامنے آئی تھی۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اس کا ایک دوسرا زاویہ بھی ہے، کہ بلیو زونز کے حوالے سے مخالفین کی جانب سے کئی نکات اٹھائے گئے ہیں، جو اِن دعووں پر سوالات اٹھاتے ہیں کہ یہ علاقے حقیقت میں لوگوں کی طویل عمر کا باعث بن رہے ہیں۔ بلیو زونز کے لوگوں کی طویل عمری کی کہانیوں میں جو دعوے کیے جاتے ہیں، ان کے بارے میں کئی تحقیقاتی نتائج اور تجزیے مختلف زاویوں سے مختلف رائے دیتے ہیں۔

مخالفین یہ کہتے ہیں کہ ’انڈیپنڈنٹ‘ نے بھی اس پر ایک پوری اسٹوری کی ہے جس کے مطابق بلیو زونز میں طویل عمر پانے والوں کی زیادہ تعداد کی کہانی ایک مفروضے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں جتنی عمر کے افراد بتائے جاتے ہیں، وہ عمریں اکثر مبالغہ آمیز ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر جاپان کے اوکی ناوا میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہاں کے لوگ بہت طویل عمر پاتے ہیں، لیکن تحقیق سے ظاہر ہوا کہ یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ جاپان کے قومی سطح پر کیے گئے سروے کے مطابق، اوکی ناوا میں لوگوں کی طویل عمر کا دعویٰ ایک غلط ریکارڈنگ یا مشکوک رپورٹنگ کی بنیاد پر کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 100 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد غیر حقیقت پسندانہ طور پر زیادہ دکھائی گئی۔

آکسفورڈ انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن ایجنگ کے ڈاکٹر سول نیومین نے بلیو زونز کے حوالے سے کیے گئے دعووں کو چیلنج کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے، طویل عمر کے، اعداد و شمار میں خامیاں اور تضادات ہیں جنہیں نظرانداز کیا گیا۔ مثال کے طور پر جزیرہ سارڈینیا میں دعویٰ کیا گیا کہ یہاں کے لوگ طویل عمر پاتے ہیں، لیکن یورپی یونین کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ جزیرہ دراصل طویل العمر افراد کے لحاظ سے براعظم میں 36 ویں سے 44 ویں نمبر پر ہے۔

نیومین کے مطابق بلیو زونز میں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مبالغہ آمیز دعوے کیے گئے ہیں، جیسے کہ اوکی ناوا کے لوگوں کا زندگی میں ایک مقصد ہونا (ایکی گائی) اور ان کا مذہبی طور پر متحرک ہونا۔ حقیقت میں اوکی ناوا میں لوگوں کی خودکشی کی شرح جاپان میں سب سے زیادہ ہے، اور یہاں کے لوگ مذہب سے کم وابستہ ہیں، جبکہ 93فیصد افراد ملحد ہیں۔

اگرچہ بلیو زونز کے دعووں میں کچھ یا پورے بھی ہوسکتے ہیں جو حقیقت کے برعکس ہوں، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان علاقوں کی عادات کو نظرانداز کریں۔ ہم ان عادات کو اپنی زندگی میں شامل کر کے صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، چاہے طویل عمر کا وعدہ نہ ہو۔ اس لیے بلیو زونز کے دعووں کے پیچھے سچائی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی مثبت عادات کو اپنانا ممکن ہے۔

بلیو زونز کے طرزِ زندگی میں جو کئی عوامل مشترک ہیں وہ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں۔ اسلام میں ہمیں زندگی گزارنے کے اصول دیے گئے ہیں جو جسمانی، ذہنی، روحانی، اور سماجی سطح پر ہماری زندگی بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے اپنے طرزِ زندگی سے ہمیں صحت مند زندگی گزارنے کے اہم اصول سکھائے۔ جو لوگ ان اسلامی اصولوں کو اپناتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ طویل اور صحت مند زندگی گزارنے کی راہ پر بھی گامزن رہتے ہیں۔

اس طرح بلیو زونز کا تصور حقیقت ہو یا فسانہ یا مفروضہ… یہ ایک حقیقت ہے کہ طویل اور صحت مند زندگی کے لیے مخصوص عمل اور روایتی، فطری اصول موجود ہیں، اور اسلام ان ہی اصولوں کی پیروی کرنے کی تعلیم دیتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ مسلمان اپنی اصل کی طرف آئے، اس طرح صرف صحت مند زندگی ہی حاصل نہیں ہوگی، بلکہ پوری دنیا بلیو زون میں تبدیل ہوجائے گی، اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات کی روشنی میں اپنے آپ کو بدلنے کے ساتھ اللہ کے دین کو پوری دنیا پر نافذ کریں۔ آئیے بڑے نہ سہی چھوٹے چھوٹے بلیو زون بنانے کی کوشسش کرتے ہیں، کچھ اچھی فطری چیزوں کو اپنی زندگی میں جگہ دینے سے اس عمل کا آغاز ہوسکتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ نئی بستیاں آباد ہوسکتی ہیں۔ قاسم صدیق اور سلمان صدیقی کے یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی، دوسری صورت میں انسانی زندگی کی تاریکی میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔

سیکھتے جو سیکھنا چاہیے۔ زیادہ کام کرنا ہر پس ماندہ ملک کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ زیادہ کام کرنے کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو یہ بات سکھائی جانی چاہیے کہ اگر وہ زیادہ کام کریں گے تو بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ یہ تو ہو نہیں رہا اور لوگ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح کم کام کرکے زیادہ سے زیادہ سہولتیں طلب کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں عام آدمی کو ورک پلیس میں جو سہولتیں میسر ہیں وہ بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں ممکن نہیں کیونکہ یہاں ترقی کا گراف زیادہ بلند بھی نہیں اور وسائل کی کمی کے باعث لوگوں کو بہت زیادہ نوازا بھی نہیں جاسکتا۔

زیادہ کام کرنے کی تحریک دینے والے ہر انسان کو گالیاں پڑتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، نیپال، افغانستان اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ افریقا کے پس ماندہ ممالک میں بھی لوگ کام سے بھاگتے ہیں۔ وہ کم کام کرکے زیادہ فوائد بٹورنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ یہ بات کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے کہ کم کام کرنے سے اُن کی زندگی میں عدمِ توازن پیدا ہوتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے شعبے کی ایک ابھرتی کمپنی کے بھارتی نژاد چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے بتایا ہے کہ اُنہیں یہ بتانے پر قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اُن کی کمپنی ہفتے میں 84 گھنٹے کام کرنے پر یقین رکھتی ہے۔

دَکش گپتا گریپٹائل کے سی ای او ہیں۔ انہوں نے اپنی کمپنی کے انتہائی سخت ورک کلچر کی تفصیلات سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک پوسٹ میں پیش کی ہیں۔

دَکش گپتا کہتے ہیں کہ اُن کی کمپنی میں کام کے اوقات صبح نو بجے شروع ہوتے ہیں اور رات گیارہ بجے تک جاری رہتے ہیں۔ ہفتے کے دن بھی کام ہوتا ہے اور کبھی کبھی اتوار کو بھی۔

دَکش گپتا بتاتے ہیں کہ ملازمت کے خواہش مند افراد کو انٹرویو کے دوران ہی بتادیا جاتا ہے کہ ہماری کمپنی کام اور زندگی کے درمیان توازن کی زیادہ گنجائش نہیں دیتی۔ ہم واضح کردیتے ہیں کہ ہم نہ صرف یہ کہ ہفتے کو بھی کام کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو اتوار کو بھی کام جاری رہتا ہے۔ اور ہاں، یومیہ 12 تا 14 گھنٹے کام ہوتا ہے۔

دَکش گپتا کا کہنا ہے کہ معاملات ابتدا ہی سے شفاف رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ جو لوگ ہمارے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند ہیں اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کس ڈھنگ سے کام کرنا پسند کرتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر دَکش گپتا کی باتیں وائرل ہوتے ہی اُن پر شدید نکتہ چینی شروع ہوگئی۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ ایسے زہریلے ماحول میں کون کام کرنا چاہے گا! یہ تو بہت ہی خطرناک ذہنیت ہے۔ کچھ لوگوں نے دَکش گپتا کو سب کچھ صاف صاف بتانے پر سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ملازمین کو اچھا معاوضہ دیا جارہا ہے تو بہت اچھی بات ہے ورنہ یہ جدید دور کی غلامی کے سوا کچھ نہیں۔

دَکش گپتا کا کہنا ہے کہ پوسٹ وائرل ہونے کے بعد سے اُن کے اِن باکس میں موت کی دھمکیاں بھی پہنچی ہیں اور ملازمت کی درخواستیں بھی۔ اِن ای میلز میں 20 فیصد موت کی دھمکیوں سے متعلق ہیں اور 80 فیصد ملازمت کی درخواستوں پر مبنی ہیں۔

دَکش مہتا کا کہنا ہے کہ کوئی بھی انسان مسلسل بہت زیادہ کام نہیں کرسکتا۔ ہماری کمپنی چونکہ ابتدائی مرحلے میں ہے اس لیے اِسے زیادہ محنت اور توجہ کی ضرورت ہے۔ جب ادارہ بھرپور ترقی سے ہم کنار ہوجائے گا تب زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

حصہ