ایک کھیل ایک حقیقت

32

’’آج میں ابو بکر سے وہ کھیل کھیلوں گا جو کسی نے کسی سے نہ کھیلا ہو گا!‘‘

امیہ بن خلف نے ایک وحشیانہ قہقہہ کی گرج کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہا۔ وہی امیہ جس کے غلام حضرت بلالؓ حبشی تھے جس نے شروع میں بلالؓ کے دعوت ایمانی کو ریت کا محل اور بچوں کا ایک کھیل سمجھ رکھا تھا۔ جس نے ایک ’’غلام‘‘ کے نغمہ توحید کو کچل ڈالنے کے لیے بد ترین مشق ستم کی اور پھر بھی وہ روح ایمانی جب وہی نغمہ ، لہو ترنگ نغمہ جبرو عقوبت کی خوفناک فضاؤں میں مسلسل الاپتی چلی گئی تو بے رحم و جابر آقا کی ساری آقائیت حیرت اور جھنجھلاہٹ کے غلیظ پسینے میں غوطے کھانے لگی۔

’’تو کیا ارادے ہیں آخر ؟‘‘ لوگوں نے خاص دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

’’تم جانتے ہو‘‘۔ امیہ بن خلف کی دونوں آنکھوں میں وحشت و عیاری کی دو آتشہ چمک کوندنے لگی۔ تم جانتے ہو کہ بلال میرا غلام ہے اور غلام کی حقیقت ہوتی ہی کیا ہے!۔ پھر جب سے اس نے احد ! احد ! کی رٹ لگانا شروع کی ہے میرے لیے وہ سیاہ گوشت کا ایک نفرت انگیز ڈھیر بن کر رہ گیا ہے‘‘۔

’’ہوں!‘‘

’’میں نے کہا تھا کہ میری پہلی ہی جھڑکی میں اس کے اس نئے دین کا بھوت اتر جائے گا مگر نہیں اترا۔ پھر میں نے کون سا ظلم ہے جو اس کے اوپر نہیں کیا ؟، آتشیں ریت کے تنور میں ڈال ڈال کر میں نے اس کے مذہب کو بھسم کر دینا چاہا، پھر اس کے سینے پر بھاری چٹان بھی رکھ کر دیکھی، پھر سنگ ریزوں کے اوپر اس کے جسم کو گھسیٹ گھسیٹ کر کوڑے بھی برسائے۔ مگر کیا وہ اپنے مذہب سے ہٹ سکا؟

اُف! محمدؐ کا یہ جادو! … اسے اتارنا میرے بس کی بات نہیں‘‘۔

’’مگر تم تو ابوبکر سے کوئی کھیل کھیلنے کی بات کر رہے تھے۔ لوگوں نے چبھنے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’ہاں!‘‘ امیہ بن خلف غرایا ’’ہاں… یہ کھیل بھی تم دیکھ لو گے!، کیا یہ بات دلچسپ نہیں کہ ابوبکر کو اس حبشی غلام کے سیاہ فام گوشت پر محبت آ رہی ہے!‘‘۔

امیہ بن خلف کا ایک وحشت ناک قہقہہ بلند ہوا۔

’’وہ کہتا ہے ‘‘۔ وہ پھر بولا ’’وہ کہتا ہے کہ یہ حبشی غلام میرا بھائی ہے وہ اس کو ہر قیمت پر میرے ظلم و ستم کے چنگل سے نکالنے کے لیے بے چین ہو رہا ہے‘‘۔

’’ تو اس کھیل کھیلنے کی کیا بات ہوئی ؟‘‘ لوگوں نے پھر چھیڑا۔

’’کھیل؟‘‘ امیہ بن خلف جھلا کر بولا ’’سیاہ گوشت کے ایک گھناؤنے ڈھانچے کا یہ مول تول کیا کوئی کھیل نہیں؟ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ابو بکرؓ اس بے کار چیز کی کتنی بڑی قیمت چکانے کی ہمت رکھتا ہے۔ میں اس کو غلام غلام کی قیمت کے بڑھتے چڑھتے مطالبات سے پسینے پسینے کر ڈالوں گا۔ بھاگ پڑنے پر مجبور کر دوں گا،یا پھر سیاہ خون کے بدلے مجھے وہ چمکتی دمکتی چیز ہاتھ آئے گی… سونا!… سونا!!… سونا!!!… کیسا عجیب کھیل !،جس میں ہر رخ سے ابوبکر کی ہار یقینی ہے اور میری جیت !!… ہاہا… ہاہا…

’’اچھا!‘‘ لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’اچھا تو یہ بات ہے!‘‘۔ بلال کی سخت جانی کے بعد اب ابوبکرؓ کی ہمدردیوں پر مشق ستم ہو گی !‘‘۔

ہاہاہا!… ہاہاہاہا!‘‘امیہ بن خلف کا قہقہہ کسی بد روح کی بے ہنگم چیخ پکار کے انداز میں گونجتا رہا۔

……٭٭٭……

گرم گرم بالوں کی چنگاریوں پر بلال حبشیؓ کے جسم کو بھونا جا رہا تھا، پتھروں کے اوپر گھسیٹا جا رہا تھا، کوڑے پےکوڑے پڑ رہے تھے۔

احد!… احد !! بلال کی کراہ تھی۔ ابو بکرؓ نے یہ آواز سنی، بیقرار ابو بکرؓ تیزی سے جھپٹے۔ جیسے بلالؓ کی مظلومیت کی ساری ٹیسیں، تمام درد ابو بکرؓ کے قلب میں سمٹ آیا ہو۔ وہ سچ مچ تڑپ اٹھے تھے۔

’’ کیا اس غریب کے سلسلے میں تجھے خدا کا بھی ڈر نہیں!‘‘ ابوبکرؓ نے بلالؓ کی حالت زار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیہ سے پوچھا:

’’اس کے تمام دکھ درد کی ذمہ داری خود تم لوگوں پر ہے‘‘۔ امیہ نے چڑھ دوڑنے کے انداز میں کہا۔

’’تم نے ہی اس کو بگاڑا اور پھر اس حالت زار تک پہنچنے پر مجبور کیا۔ اب اس کو بچا کر دکھاؤ، بتاؤ اسے خریدتے ہو ؟، بولو!‘‘۔

’’ہاں‘‘ حضرت ابوبکرؓ بلال ؓکی نجات کے لیے بے کل ہوتے ہوئے بولے ’’ہاںمیں تیار ہوں، ہر قیمت پر !‘‘

’’کیا قیمت دو گے ؟‘‘ امیہ نے تیکھی نظروں سے دیکھا۔

’’ قسطاس! ابوبکرؓ نے چھوٹتے ہی کہا ’’میرا مضبوط، جست و قومی غلام قسطاس !جس کے کفر سے میں اس طرح بیزار ہوں جس طرح تم بلالؓ کے ایمان سے!۔ مجھے بلالؓ سے محبت ہے، تمہیں قسطاس سے محبت ہونی چاہئے‘‘۔

ایک غلام سے محبت کرنے کی بات سنتے ہی امیہ بن خلف نے بہت برا منہ بنایا۔ کچھ سوچا اور پھر فوراً بولا:

’’منظور ہے!‘‘

لیکن اچانک پھر فوراً ہی امیہ بن خلف نے جگر خراش قہقہہ مارا۔

’’نہیں! خدا کی قسم!‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا اور اس کی آنکھوں میں شاطینت کی بجلیاں کوند رہی تھیں‘‘۔ قسطاس ہی نہیں، اس کی بیوی بھی دینا ہو گی! اس کی بیوی بھی دینا ہو گی!‘‘۔

’’ مجھے منظور ہے‘‘۔ ابوبکرؓ نے ایک لمحہ پس و پیش کے بغیر فرمایا۔

لیکن اچانک پھر وہی قہقہہ !…

’’نہیں! خدا کی قسم !‘‘ اس نے قہقہہ مارتے ہوئے ساری گفتگو پر پانی پھیرتے ہوئے کہا ’’ قسطاس اور اس کی بیوی کے ساتھ اس کی بیوی کے ساتھ اس کی بیٹی بھی لوں گا!‘‘۔

اوہ… ’’بیٹی‘‘۔

’’ہاں…اس کی بیٹی‘‘۔

ابوبکرؓ نے ایک ثانئے سوچا۔ پھر دو ٹوک لہجے میں بولے۔ ’’چلو دی‘‘۔ لیکن ایک بار پھر امیہ بن خلف نے ہولناک قہقہہ بلند کیا۔

’’ نہیں…خدا کی قسم !… قسطاس بھی اور اس کی بیوی بھی، اس کی بیٹی بھی اور دو سو دینار مزید !، بولو! بولو!، کیا بلالؓ کو خریدو گے؟‘‘۔

’’شرم!‘‘ بار بار زبان بدلنے والے کی شرارت سے بیزار ہو کر حضرت ابوبکرؓ بولے ’’کیا جھوٹ بولتے ہوئے تجھے شرم و حیا نہیں آتی؟‘‘۔

’’لات و عزیٰ کی قسم !‘‘ امیہ بن خلف نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا:

’’بس یہ آخری قیمت ہے… پھر بات طے شدہ سمجھو‘‘۔

’’چل او کافر مجھے یہ بھی منظور ہے‘‘۔ مسلمان بھائی بلال کی غمخواری سے سرشار ابوبکرؓ نے سینہ تان کر کہا۔

سودا ختم ہوچکا تھا۔ ایک عظیم آزمائش میں دونوں مومن کھرے اترے تھے۔ بلالؓ کی جان اور ابوبکرؓ کے مال پر طوفانی آزمائش پوری قوت سے گزری اور دونوں فاتحانہ نکلے ! فقط اس لیے کہ ’’خدا‘‘ دونوں کو جان و مال سے زیادہ پیارا تھا۔

یکایک ایک نیا قہقہہ بلند ہوا، لیکن یہ قہقہہ امیہ بن خلف کا نہیں اس کی بیوی کا تھا! جس کے خیال میں بلالؓ کی اتنی بڑی قیمت دے کر ابوبکرؓ معاذ اللہ بے وقوف بن گئے تھے۔

’’ہم تو بلالؓ کو ایک اوقیہ سونے میں بھی بخوشی بیچ ڈالتے!‘‘ اس نے کہا ’’بلالؓ ہمارے لیے ہماری سب سے بے قیمت چیز کے سوا آخر کیا ہے‘‘۔

’’کون کسے بتائے کہ بے وقوف کون بنا!‘‘ ابوبکرؓ کی روح سے درد سا اٹھا۔ ’’بلالؓ میرے لیے اس قدر قیمتی ہے کہ سو اوقیہ بھی قیمت ٹھہرتی تو ابوبکرؓ پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا‘‘۔

حضرت ابوبکرؓ کی یہ درد بھری بات ان لوگوں نے سنی اور پھر بھی انھیں ’’بے وقوف ‘‘ ہی سمجھا۔ اس لیے کہ کفر دنیا کی پرستش کا دوسرا نام ہے اور دنیا کی بے حد قیمتی چیز سونا چاندی سے بڑھ کر کون سی ہے۔

لیکن کیا ہم ابوبکرؓ کی یہ بات سمجھ رہے ہیں ؟

کیا ہمارے کاسہ سر میں امیہ بن خلف کا دماغ ہے یا ہمارے سینے میں ابوبکرؓ کا سا دل ہے؟ اللہ اور مال میں سے کون ہمیں زیادہ پیارا ہے ؟ اور کیا ہم لوگ ہر لمحہ اسی امتحان سے نہیں گزر رہے ہیں جہاں سے حضرت ابوبکرؓ اس طرح فاتحانہ گزرے تھے ؟۔ خدا کے کتنے بندے ہیں جو ہماری دیواروں کے سائے میں بھوک اور افلاس کے شعلوں میں جل رہے ہیں۔ ہمارے پاس اتنا پیسہ موجود ہے کہ ہم انھیں اس دکھ درد کی جاں ستاں قید سے نجات دلا سکتے ہیں، مگر کیا ہم نے ایسا کیا ہے ؟، کیا ہم ایسا کرنے کا ولولہ رکھتے ہیں؟

یہ سوال جواب چاہتا ہے اور جواب ہی یہ بتائے گا کہ ہم اسلام کی غلامی کا دم بھرنے والے سچ مچ اسلام کے غلام ہیں یا ہم نے خود اسلام کو اپنی خواہشات کا غلام اور اپنے مفادات کا آلہ کار بنا چھوڑا ہے۔ کسی اور سے نہیں خود اپنے سے جواب لو اور پھر اس دن کا انتظار کرو۔ جب فرد عمل دیکھ کر چیخ پڑو گے کہ :

یٰوَیْلَتَنَامَالِ هٰذَاالْكِتٰبِ لَایُغَادِرُصَغِیْرَةً وَّلَاكَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا (ہائے خرابی! یہ کیسا کاغذ (نوشتہ) ہے کہ اس نے ہماری چھوٹی اور بڑی کسی بھی بات کا احاطہ کیے بغیر نہیں چھوڑا۔

حصہ