روایت میں آتا ہے کہ ایک بار موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے کہا ’’اے باری تعالیٰ! اگر میں اللہ ہوتا اور تُو موسیٰ ہوتا تو تُو مجھ سے کیا مانگتا؟‘‘
غیب سے ندا آئی ’’میں تجھ سے تن درستی مانگتا۔‘‘
انسان جب بیمار پڑ جاتا ہے تو دنیا کی ہر نعمت اُس کے لیے بے معنی ہوجاتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کبھی شکم سیر ہوکر نہ کھائو۔ کھانے کے دوران پانی نہ پیو۔ کھانے کے کچھ دیر بعد پانی پیا کرو۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’صبح کا ناشتا بھرپور کرو۔ دوپہر کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کرلیا کرو۔ رات کا کھانا مغرب کے بعد کھایا کرو۔ رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی ضرور کرو۔ عشاء کی نماز کے بعد سویا کرو۔ صبح صادق اٹھو اور نمازِ فجر کے بعد اپنے دن کی سرگرمیوں کا آغاز کرو۔ کم کھانے اور کم سونے میں راحت ہے۔‘‘
آپؐ نے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے سے منع فرمایا ہے۔ جو لوگ دن چڑھے سوکر اٹھتے ہیں، اُن کی صحت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ روزانہ ورزش کرنے سے صحت اچھی ہوتی ہے۔ تلی ہوئی، روغنی اور مسالہ دار خوراک صحت کے لیے مضر ہے۔
آپؐ نے فرمایا ’’اگر کتا یا بلی کھانے کے برتن میں منہ لگا دے تو اس کو آگ میں جلا کر تین مرتبہ صاف پانی سے صاف کرو۔‘‘
ایک مشہور واقعہ اخبارات کی زینت بنا تھا، کہ ایک پاکستانی جاپان کے ایک بڑے دولت مند تاجر کے گھر خانساماں کی نوکری کرتا تھا۔ ایک دن اس تاجر کے پالتو کتے نے اُس کے سونے کے ایک برتن میں منہ لگا دیا تو اس خانساماں نے وہی عمل کیا جو اوپر کی حدیث میں بیان کیا ہے۔ تاجر بڑے غور سے اُس کی اِس حرکت کو دیکھ رہا تھا۔ ذرا ناراضی سے پوچھا تو اس نے جواب دیا ’’میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایسا کرنے سے جراثیم مر جاتے ہیں۔‘‘
تاجر یہ سن کر متاثر ہوا، اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد ایمان لایا اور پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ مگر شومیِ قسمت کہ لاہور آنے کے بعد جب وہ ایک گلی سے گزر رہا تھا اُس نے دیکھا کہ ایک خاتون گھر سے نکلی اور اپنے گھر کا کچرا گلی میں پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر وہ جاپانی اتنا دل برداشتہ ہوا کہ الٹے پاؤں یہ کہتے ہوئے واپس ہوا کہ ’’جس نبیؐ نے اپنی امت کو پاکیزگی کی اتنی تعلیم دی ہو، وہ ایسی حرکتیں کر کے کس طرح صحت مند رہ سکتی ہے!‘‘
تمام ترقی یافتہ ممالک صحت و صفائی کے لیے اپنے قومی بجٹ کا 5 تا 7 فیصد مختص کرتے ہیں، اور یہ کام مقامی بلدیاتی حکومتوں کے توسط سے کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ قومی سطح پر عوام بھی اس میں بھرپور تعاون کرتے ہیں اور بلدیاتی قوانین کی پابندی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر ہند و پاک اور بنگلادیش کے مقابلے میں ان ملکوں میں گندگی سے پھیلنے والی بیماریوں کی شرح بہت کم ہے۔ صحت کو متاثر کرنے اور بیماریوں کی اصل وجہ آلودگی ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ صنعتوں سے نکلنے والی کیمیائی گیس اور سیوریج کا ناقص نظام ہے۔ دریاؤں اور سمندروں میں کیمیائی فضلات ہیں جو نہ صرف پینے کے پانی کو مضر صحت بناتے ہیں بلکہ آبی حیات کو بھی نقصان پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔
شور کی آلودگی نے بہرے پن کی بیماری میں اضافہ کردیا ہے۔ گندگی کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہے اور ہمارے ممالک میں سردی کے موسم میں بالخصوص چکن گونیا، ڈینگی اور ملیریا وبائی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے تمام شہروں میں دھند کی وجہ سے نزلہ، کھانسی اور پھیپھڑوں کی بیماریاں پھیل چکی ہیں۔ اسکول، کالج اور دفاتر مجبوراً بند کیے گئے ہیں۔ لاہور، ملتان اور دہلی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انسان کو لگنے والی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے، برصغیر کی اکثریتی آبادی کو صاف پانی میسر نہیں۔ گاؤں اور دور دراز دیہات میں تو انسان اور جانور ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یرقان کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ گو کہ گاؤں میں رہنے والے کھلی فضا میں رہتے ہیں اور سخت محنتی ہونے کی وجہ سے شہری لوگوں کے مقابلے میں ان کی صحت اچھی ہوتی ہے، لیکن زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے مصنوعی کھاد کے استعمال نے غذائی فصلوں کو مضر صحت بنادیا ہے۔ یوریا کھاد کے وافر مقدار میں استعمال سے گردے کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شہروں میں لوگ فاسٹ فوڈ کے عادی ہوچکے ہیں، گھروں کے بجائے ہوٹل سے پکے ہوئے کھانے زیادہ استعمال کرتے ہیں جس سے معدے اور نظام انہضام میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور مختلف بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔
شہری زندگی مصروف ترین ہوگئی ہے، جرائم کی شرح بڑھنے سے لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ذہنی تناؤ بڑھنے سے دل کی بیماریاں اور ذیابیطس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اب تو یہ بیماریاں بچوں کو بھی ہورہی ہے۔ ’’ذیابیطس کا عالمی دن‘‘ ہر سال 14 نومبر کو منایا جاتا ہے، اِس سال اس کانفرنس کے شرکا نے تمام ممالک کو خبردار کیا ہے کہ پوری دنیا میں یہ بیماری خوفناک حد تک بڑھ رہی ہے جس کی وجہ غیر فطری انداز میں شب روز گزارنے کے علاوہ فاسٹ فوڈ کا استعمال ہے۔ پاکستان میں 17 فیصد لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔
چرند پرند فطرت کے عین مطابق زندگی گزارتے ہیں لہٰذا وہ اکثر بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ تمام چرند پرند صبح صادق بیدار ہوتے ہیں اور غروبِ آفتاب کے وقت اپنے مسکن کو لوٹ جاتے ہیں۔ 2020ء میں کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا میں کہرام برپا کردیا تھا، ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش… ہر جگہ افراتفری پھیل گئی تھی۔ تقریباً دو کروڑ لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے۔ حکومتوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ حج و عمرہ کی ادائیگی اور مساجد میں عبادت کرنے میں خلل واقع ہوگیا۔ پتا یہ چلا کہ یہ سب خود انسانوں کا کیا دھرا تھا جنہوں نے اس وائرس کو سائنسی تجربہ گاہ میں تخلیق کیا اور لینے کے دینے پڑ گئے۔ لیکن یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ مسلم ممالک اس سے کم متاثر ہوئے۔ تمام طبی ماہرین نے اس سے بچنے کا جو علاج تجویز کیا وہ یہ کہ آدمی پاک صاف رہے اور بار بار اپنے ہاتھ منہ صاف کرے۔ جب کہ مسلمان تو دن میں پانچ وقت کی نمازوں کے لیے وضو کرتا ہے۔ کسی مسلمان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ناپاک ہو۔ اگر وہ نماز نہیں پڑھتا، پھر بھی ناپاک نہیں رہتا۔ ہندوستان میں تو ہندو اس مرض میں مبتلا اپنے رشتے داروں سے بھی کنارہ کش ہوگئے تھے۔ مسلمانوں نے کورونا کے باعث مرنے والے ہندوؤں کو شمشان گھاٹ پہنچایا اور ان کی آخری رسومات ادا کیں۔
بہرحال صحت مند رہنے کے لیے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال اور سادہ غذا بے حد ضروری ہے۔ آج دنیا بھر کے ممالک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا رونا رو رہے ہیں اور بار بار معاہدے کے باوجود اس میں تجارتی مفادات کی خاطر کمی نہیں کر پاتے، نتیجتاً اوزون کی وہ تہ جس کو اللہ نے سورج کی بالا بنفشئی شعاعوں (Ultra Violet Rays) زمین پر آنے سے روکنے کے لیے قائم کیا ہے، اس میں انسان کی ہوسِ زر کی وجہ سے جگہ جگہ شگاف پڑ رہا ہے اور یہ شعاعیں زمین پر فطری زندگی کو نہ صرف متاثر کررہی ہیں بلکہ بہت سی لا علاج بیماریوں کا سبب بھی بن رہی ہیں۔
نشہ وہ چیز ہے جو انسان کی صحت، اخلاق، معیشت اور معاشرتی و ازدواجی زندگی کو برباد کردیتا ہے۔ آج کل نوجوانوں کی بڑی تعداد شراب، سگریٹ، ہیروئن، آئس، چرس اور گانجے کی لت میں مبتلا ہے۔ ایک بڑی تعداد مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوکر عبرت ناک انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ گٹکے کی لت نے تو کینسر کے مریضوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد کا علاج کرنے سے ڈاکٹر بھی منع کردیتے ہیں۔ نشے کا کاروبار عالمی سطح کے مافیا کے ہاتھوں میں ہے، اور بڑے پیمانے پر انسدادِ منشیات کے ادارے کے اہل کار اور پولیس و انتظامیہ اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ہیں۔ بڑے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں نشے کے عادی نحیف و لاغر نوجوان گندی جگہوں پر پڑے نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا اور اس پر موجود اخلاق باختہ ویب سائٹس نے تو نوجوانوں کو ذہنی طور پر بیمار کردیا ہے، اور اس میں ہر عمر کے مرد و عورت شامل ہیں۔ مرد وہ خوب صورت ہوتا ہے جس کے چہرے سے مردانگی ٹپکے، اور عورت وہ خوب صورت ہوتی ہے جس کی آنکھوں میں حیا ہو۔ مگر اس میڈیائی سحر نے مردانگی اور نسوانیت دونوں چھین لی ہیں اور ایک بیمار نسل ہمارے سامنے مستقبل کی تباہی کی نوید سنا رہی ہے۔
دورِ فاروقیؓ کا زمانہ ہے، مدینہ منورہ میں خوش حالی آگئی ہے، یہ دیکھ کر مفتوح فارس کے ایک مشہورِ زمانہ طبیب نے مدینہ میں آکر مطب کھولا، مگر مہینہ گزرنے کے بعد بھی کوئی مریض نہیں آیا۔ اس نے اہلِ مدینہ کے شب و روز کا، کھانے پینے اور سخت محنت کا جائزہ لیا تو یہ کہہ کر اپنا مطب بند کردیا کہ ’’اس طرح زندگی گزارنے سے بیمار ہونے کا امکان کم ہے۔‘‘
مثبت کھیل کود مثلاً ورزش، کشتی، تیراکی، گھڑ سواری، بھاگ دوڑ صحت کی ضمانت ہیں۔ آج چین، روس، امریکا، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک عالمی کھیلوں کے مقابلوں میں صفِ اوّل میں ہیں۔ اگر اِکا دُکا کوئی میڈل ہم جیت بھی جاتے ہیں تو پھولے نہیں سماتے۔ ایک زمانہ تھا ہاکی میں ہمارا کوئی مقابل نہیں تھا، اور آج ہم کسی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ کشتی میں گاما پہلوان اور ان کا خاندان چیمپئن تھا، مگر یہ اب قصۂ پارینہ ہوگیا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت کے وہ نسخہ ہائے کیمیا بیان کیے ہیں کہ آج بھی ان پر عمل کیا جائے تو ہمارا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ طب نبویؐ کتابی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے جس میں معتدل اور صحت بخش غذاؤں کے استعمال کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی بیماریوں کی شفا بخش ادویہ کے نسخے بھی موجود ہیں، جس پر اصحابِ رسول من و عن عمل کرکے صحت اور طاقت میں بے مثال تھے۔
یہ تن درستی یارو عین بادشاہی ہے
سچ پوچھیے تو یہ فضلِ الٰہی ہے
٭
تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
تن درستی ہزار نعمت ہے