ایمان خطر پسند ہے

84

مکے میں جس وقت خدا اور یوم آخر کا انکار کرنے والوں نے خدا اور یوم آخر کا اقرار کرنے والوں کو ظلم و ستم کی باڑھ پر رکھ لیا تھا، اس وقت کا مسلمان دنیا اور آخرت کے سلسلے میں کیا سوچتا اور کس طرح محسوس کرتا تھا؟، یہ انکشاف ایک عظیم انکشاف ہے… اور حضرت عثمانؓ بن مظعون کے واقعات میں عظیم انکشاف کرتے ہیں۔

ٹھیک اس وقت جب کفر و شرک کی تباہ کن غلطی کو’’حق‘‘ سمجھنے والوں نے جیسے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ خدائے واحد کا کلمہ پڑھنے والوں کو یوں ہی، تڑپا تڑپا کر موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ مظلوموں پر طرح طرح کے ستم توڑیں گے اور پھر اس مشق ستم کی داد جی بھر کے خود ہی کو دیں گے۔ جب مظلوموں کے رستے ہوئے زخم دیکھ کر بھی ظالم کو ترس نہ آتا تھا، ہنسی آتی تھی۔ جب بلاکشوں کے آنسو اور آہیں دیکھنا اور سننا کوئی دکھ بھرا حادثہ ہونے کے بجائے ایک دلچسپ ترین تفریح کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ ہاں ایک ایسے بے رحمانہ ماحول میں ’’مسلمان‘‘ کس طرح سوچتے تھے اور ان کے جذبات اور ان کی تمنائیں کیا تھیں؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کی زندگیاں اتنی عجیب و غریب زندگیاں تھیں جن کی آرزو کرتے ہوئے بھی آج کا مسلمان خوف و ہراس سے تھر تھرا جاتا ہے!… وہ آخرت کی عظیم حقیقت کو اتنے قریب سے دیکھ رہے تھے کہ دنیا کی ہر لذت ان کے لیے ہیچ ہو کر رہ گئی تھی۔ ایک دائمی زندگی کی پر یقین امید نے ان کو عافیت کوش نہیں، خطر پسند بنا دیا تھا۔ کیا چشم فلک نے یہ عجوبہ نہیں دیکھا کہ جو لوگ کفار کے قہر و ستم کا شکار تھے وہ تو تھے ہی، مگر وہ لوگ بھی جو کسی وجہ سے عافیت میں تھے اپنی پناہ گاہوں سے از خود باہر نکل آئے اور ظلم و قہرمانیت کی زد میں اپنے آپ جا کھڑے ہوئے۔ ان کے قدموں کی دہمک سے حیات دنیا کے تمام حسین دھو کے ٹوٹ کر گر گئے اور آخرت کی جاں نواز حقیقت ان کے اشک و خوں سے نکھر نکھر کر دنیا اور انسان کے سامنے چلی آئی۔ خدا اس وقت بھی غیب کے ہزار پردوں میں تھا مگر خدا کے بندے۔ وہ بندے سب کے سامنے تھے جن کو اپنے وجود سے زیادہ اس بات کا یقین تھا کہ اس کائنات کا ایک خدا ضرور ہے۔

اور… عثمانؓ بن مظعون ایک ایسے ہی انسان تھے۔
اس دور ابتلا میں وہ اپنے ایک کافر رشتہ دار ولید بن مغیرہ کی پناہ میں تھے۔ اس لیے ابھی تک ان کے ایمان کو کفر کے فولادی ہاتھوں نے جھنجھوڑا نہیں تھا۔ ابھی تک وہ اس لذت سے محروم تھے جو خدا کی گلی میں زخم کھانے والوں ہی کے حصے میں آتی ہے اور ہمیشہ آتی رہے گی۔ دنیا کے نقطہ نظر سے ان کا یہ حال ’’عافیت ‘‘تھا، مگر ایمان کے نزدیک یہ عافیت ایک بڑی ’’محرومی‘‘ تھی، اور چونکہ عثمانؓ ایک سچے مومن تھے اس لیے اس محرومی کا فطری احساس ان کو ہوا اور شدت سے ہوا۔ بلاکشان حق کے مصائب پر انہوں نے نظر ڈالی اور پھر اپنی عافیت کو غور سے دیکھا تو یہ دیکھ کر ان کی چیخ نکل گئی کہ کفر کی پناہ میں رہنے کے معنی یہ ہیں کہ بندے کے لیے خدا کی پناہ کافی نہیں۔ ان کے سینے میں ہلچل مچی اور اس احساس محرومی پر ان کا دل بھر آیا۔

’’قسم خدا کی‘‘ وہ رونے لگے۔ ’’میں ایک مشرک کی پناہ میں چین کی زندگی بسر کر رہا ہوں جبکہ میرے مسلمان بھائی خدا کی راہ میں لہولہان ہیں، ستائے جا رہے ہیں، ظلم و تشدد سہ رہے ہیں، تو پھر… میں ان اذیتوں سے اب تک محروم کیوں؟ کیا یہ عافیت پسندی میرے ایمان کی کمزوری تو نہیں؟ ایمان… کی…کمزوری ؟؟ ‘‘

کتنا جان دار، کتنا قیمتی تھا یہ احساس کہ جس نے ایک پل میں ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ خیالات بدل گئے، جذبات بدل گئے، دل بدل گئے، سب کچھ بدل گیا !۔ وہ اب اس عافیت سے اس طرح بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔جیسے کوئی ہلاکت سے بھاگتا ہے۔

’’ کیسے آئے ہو ؟‘‘ ولید نے عثمانؓ مظعون کو دیکھ کر قدرے تشویش کے ساتھ پوچھا۔ کیونکہ اس وقت ان کے چہرے پر ان کی اندرونی بے تابیاں جذبات کی دھوپ چھاؤں کھیل رہی تھیں۔

’’ تمہاری پناہ سے نکلنے کے لیے آیا ہوں!‘‘ حضرت عثمانؓ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

’’کیا …؟‘‘ ولید کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

کفر و شرک کی پناہ میں رہ کر ایمان کا دعویٰ بڑی پھیکی اور کھوکھلی بات ہے۔ عثمانؓ بن مظعون نے جذبات سے گونجتی ہوئی آواز میں کہا ’’میں خدا پر ایمان لایا ہوں اور خدا کی پناہ میرے لیے کافی ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ میرے مذہبی بھائی اللہ کے راستے میں کس طرح ستائے جا رہے ہیں! میں گوشہ عافیت میں بیٹھ کر ان کا تماشہ نہیں دیکھ سکتا! تم شکریے کے ساتھ اپنی پناہ واپس لو… میں وہاں جاتا ہوں جہاں میرا دین ظلم و ستم کی خوں چکاں فضا میں اعلائے کلمۃ الحق کر رہا ہے۔

’’ٹھیرو!…سنو!!‘‘ ولید چیخا۔ ’’کہیں تمہیں بھی لوگ اسی طرح ظلم و ستم کے نرنے میں نہ لے لیں !، ٹھہرو!…‘‘مگر عثمان ؓبن مظعون اس حقیقی اور لازوال اخروی عافیت کی منزل کی طرف تیز دوڑ رہے تھے جس کی راہ میں جان و مال کے خطروں کی بھیڑ کی بھیڑ قدم قدم پر سامنے آیا کرتی اور مسافر کو ڈرانے اور سمانے کی ان تھک کوشش کیا کرتی ہے۔

پھر کعبے میں یہ اعلان عام ہو گیا کہ آج سے عثمانؓ بن مظعون ولید کی پناہ سے نکل گئے ہیں۔ یہ اعلان ہوا اور دوسری طرف عثمانؓ بن مظعون نے خود آگے بڑھ کر باطل کو ایک لرزہ خیز للکار سنا دی۔ انہوں نے راہ حق کی صعوبتوں کو خود آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا ’’ادھر آؤ!… میں مسلمان ہوں!…میں وہ ہوں جس نے خدا کی راہ میں اپنی گردن تلوار پر رکھ دی ہے‘‘۔

……٭٭٭……

قریش کی ایک محفل شعر و سخن گرم تھی اور کافروں کا اونچا شاعر لبید بن ربیعہ اپنا کلام سنا رہا تھا۔

شاعر نے کہا:
’’سن لو! اللہ کے سوا ہر شے باطل ہے‘‘۔
’’تو نے سچ کہا ‘‘عثمان ؓبن مظعون نے بے ساختہ داد دی۔
اور شاعر نے دوسرا مصرع پڑھا اور… بہر حال… ہر نعمت زوال کا شکار ہے‘‘۔

یہ جھوٹ ہے!عثمان کی حق گوئی بھی بر سر محفل کفر و شرک کو للکارا۔’’جنت کی نعمتیں زوال پذیر نہیں، لافانی ہیں‘‘۔ ایک پل کے لیے محفل میں سناٹا چھا گیا، پھر تیوریاں چڑھیں اور لال پیلی آنکھوں کے جلو سے لبید بن ربیعہ کی آتشیں آواز اٹھی!

’’اے گروہ قریش! یہ تمہارے ہم نشین کی سب سے بڑی توہین ہوئی ہے اور وہ بھی تمہارے سامنے، تمہاری محفل میں !‘‘۔

’’آپ اس کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ ‘‘کسی نے خدا کے حق گو بندے کی تحقیر کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تو ان بے وقوفوں میں سے ایک بیوقوف ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کہنے میں آگئے ہیں‘‘۔

محفل کے جذبات کا چڑھاوا یارہ نظروں کے سامنے تھا، لیکن حضرت عثمانؓ بن مظعون نے محسوس کیا کہ اس خطرناک پوزیشن میں بھی وہ جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ یہ ایمان کی وہ خاص طاقت تھی جس کے حصے میں صرف ایک ہی خوف آیا ہے۔ خدا کا خوف! پوری بے باکی اور درد مندی کے ساتھ وہ کھڑے ہوئے اور اس شخص کی تردید کر دی جس نے اللہ کو پہچان لینے والوں کو ’’احمق‘‘ کے لفظ سے یاد کیا تھا۔ حق گوئی و بے باکی کا یہ اقدام برداشت کرنا کفر کی تاب ضبط سے باہر تھا۔ لوگ بھڑک اٹھے اور جس کی تردید ہوئی تھی وہ تو نہایت جوش اور مجنونانہ طیش میں آگے بڑھا۔ پھر ایک آواز گونجی۔ بھر پور تھپڑ کی آواز… یہ دست درازی لبید نے کی تھی اور اس کے نتیجے میں حضرت عثمانؓبن مظعون کی ایک آنکھ پھوٹ گئی!

ظالموں کے سینے اس ظلم کے خلاف سوز احتجاج سے اسی طرح خالی تھے جس طرح خشک چراغ کی بتی روشنی سے۔ وہاں فقط ایک شخص تھا جس نے خون کے ناطے ایمان کی اس مظلومیت کو کسی درجہ میں محسوس کیا۔ یہ وہی ولید تھا جس کی پناہ سے بندۂ مومن نکل کر آیا تھا اور عثمان ؟… وہ یہ زخم کھاتے ہی نہ جانے کہاں چلے گئے تھے! جیسے آنکھ پھوٹ جانے کے بعد ان دیکھے خدا کو دیکھ لینے کی صلاحیت میں دو گنا اضافہ ہو گیا ہو !۔

’’ تم میری پناہ میں تھے تو ایسی اذیتوں سے محفوظ تھے‘‘۔ ولید نے غمگساری کے انداز میں ان کے جذبہ ایمانی پر چوٹ کی۔

حضرت عثمانؓ کی غیرت بندگی اس غم خواری کی چوٹ کھا کر تڑپ گئی۔ ’’خدا کی قسم! میری آنکھ جو ابھی ٹھیک ہے اس کی محتاج ہے کہ جو چوٹ پہلی آنکھ نے کھائی ہے وہی ایک بار اس کے حصے میں بھی آئے‘‘۔

’’دیکھو!‘‘ کفر و شرک کا مزاج اب بھی ایمان کی بات نہ سمجھ سکا۔ ’’دیکھو ‘‘ اب بھی میری پناہ کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہوا ہے۔

’’مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں !‘‘ بندہ مومن نے نعرہ مستانہ بلند کیا ’’میرے لیے خدا کی پناہ کافی ہے۔ خدا جو تم سے کہیں زیادہ بلند و جلیل القدر ہے‘‘۔

……٭٭٭……

کبھی ہمارا بھی یہ حال بھی تھا کہ کفر کی پناہ ہمیں اس عقیدے کی موت نظر آتی تھی کہ ’’خدا حافظ و ناصر ہے‘‘ اور آج ہمارا ہی یہ حال ہے کہ کفر کی پناہ میں ہمیں پوری عمر کاٹ دینے کے بعد بھی اس خدا کا خیال نہیں آتا جس کی پناہ عثمانؓ بن مظعون جیسے مرد مومن کو کافی تھی۔

اب کفر کی پناہ گاہوں میں ہم اپنی موت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا کی پناہ میں آکر ابدی زندگی کا حسین وعدہ ہمارے جذبات میں جنبش تک پیدا نہیں کرتا… ارے کوئی دیکھے تو سہی، کیا ہم اندر ہی اندر مر تو نہیں چکے ہیں ؟،خدا را سوچو! کیا ہم مسلمان ہیں ؟…

حصہ