بہت ناراض تھی… دکھ میں تھی… حالت اس کی خراب تھی… بہت کچھ وہ چھپانا چاہتی تھی لیکن اس کی ظاہری حالت کو دیکھ کر عیاں ہوجاتا تھا کہ کیا کچھ اس کے اندر ہے جسے وہ چھپانے سے قاصر ہے۔ اس کا اپنا رنگ دکھوں کے پیچھے غائب ہوگیا تھا۔ وہ مسکرانا اور شور کرنا بھی بھول گئی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اسے اپنا آپ بھی ایک بوجھ لگنے لگا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اس دھرتی پر بوجھ ہے۔ ایک اضافی چیز کہ جس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے دنیا والوں کے لیے… اور اس کے لیے۔ وہ اندر ہی اندر کڑھتی رہتی۔ رونے کی بھی کوشش کرتی لیکن اس کا رونا کسی کو نظر ہی نہ آتا تھا کیونکہ کسی کو اس کی پروا ہی نہ تھی۔
جب تک وہ صاف ستھری تھی، خوب صورت تھی اس کی خوب آؤ بھگت ہوتی۔ کسی بھی فرد کے آنے پر اسے ہی یاد کیا جاتا، خوب جی بھر کر اہتمام سے اسے تیار کیا جاتا، اس کا نام لے کر پکارا جاتا، اس کا وجود سب کے لیے اہم تھا۔ صرف مہمانوں کی آمد پر ہی نہیں بلکہ ناشتے سے لے کر دوپہر کے کھانے، اور پھر شام کی چائے کے وقت تو اس کا وجود لازم تھا، رات کا کھانا اس کے بنا نامکمل تھا۔ پھر اس کے ساتھ ہی پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے بھی وہ لازم تھی کہ اس کے بنا ان کی حقوق بھی ادا نہ کیے جا سکتے تھے۔ لہٰذا وہ گھر میں بہت اہمیت کی حامل تھی۔
لیکن گزرتے وقت میں اس گھر کے ’’اہم فرد‘‘ کی بڑھتی مصروفیت کے سبب وہ توجہ حاصل کرنے سے قاصر تھی اور اِس کا اثر اُس کی شخصیت پر پڑا تھا کہ اس کی تمام خوبیاں چھپ گئی تھیں۔کوئی اسے گردانتا ہی نہ تھا، اور وہ خود بھی اپنے آپ سے بے زار تھی۔
اسی گزرتے وقت میں اِس گھر کے ’’اہم فرد‘‘ کی نظر اُس پر پڑتی ہے تو انہیں اس کی یاد آتی ہے اور وہ اسے محبت سے اٹھاتی ہیں، پیار سے پکڑتی ہیں، اس پر لگے سارے گردو غبار کو پہلے صاف کرتی ہیں اور اس کے بعد اسپنچ پر صفائی کرنے والا لیکویڈ لگاکر اس پر رگڑتی ہیں اور اسے چمکا دیتی ہیں، اور وہ پھر سے خوب صورت لگنے لگتی ہے۔ اس پر لگے پھول کھلکھلا اٹھتے ہیں… اور اپنے پیارے رنگوں کے ساتھ وہ خوش رنگ نظر آنے لگتے ہیں… اور وہ خود بھی بہت خوش ہوتی ہے… اسے اپنا آپ پیارا لگنے لگتا ہے۔ وہ اپنی خوشی کا اظہار مزید چمک کر کرتی ہے۔
اور پھر سے اس کا استعمال کیا جانے لگتا ہے۔ وقت بے وقت مہمانوں کی آمد اور ساتھ ہی حقوق کی ادائیگی میں اس کو یاد کیا جانے لگتا ہے۔ وہ کبھی دائیں ہاتھ والوں کے ہاں جاتی ہے، کبھی سامنے والوں کے گھر۔ کبھی بائیں گھر والوں کے ہاں اسے لے کے جایا جاتا ہے تو کبھی نیچے والے گھر اسے پہنچا دیاجاتا ہے۔ پھر سے اسے گھمایا پھرایا جاتا ہے، اس کے پیار کرنے والے بڑھ جاتے ہیں، اسے پھر سے لوگوں سے ملنا اچھا لگنے لگتا ہے کیوں کہ اس اہم فرد کی ایک جاننے والی کے کہے جملے بھی اس کے کانوں میں پڑتے ہیں کہ ’’بھابھی! بہت عرصے بعد اسے آپ نے ہمارے ہاں بھیجا… میری نند کو تو یہ بہت ہی اچھی لگتی ہے بلکہ اسے تو وہ یاد بھی کررہی تھی، شکر ہے آپ نے خود ہی بھیج دیا ورنہ مجھے اسے آپ کے گھر سے منگوانا پڑتا…‘‘ اور وہ یہ سب سن کر باغ باغ ہوجاتی ہے۔
ساتھ ہی ایک بچی کی آواز بھی اسے سنائی دیتی ہے ’’آنٹی! رملہ نے آپ کی پسندیدہ شے بھیجی ہے۔‘‘ اس بچی کا کہا جملہ بھی اسے شاداں و فرحاں کردیتا ہے۔
اور ساتھ ہی وہ دوبارہ گھر کا اہم حصہ بن جاتی ہے… اور اسے اس وقت اپنی مالکن کا شکریہ ادا کرنے کا دل چاہتا ہے، اس کے وجود کا ذرہ ذرہ اپنی مالکن کو پیار کرنا چاہتا ہے، اور نہ صرف شکریہ ادا کرنا بلکہ اس’’اہم فرد‘‘ کو بہت کچھ دینے کا بھی اُس کا دل کرتا ہے کہ ان کی توجہ، محبت، پیار نے اسے’’بے کار‘‘ سے ’’اہم‘‘ بنادیا اور اسے اس قابل کیا کہ وہ لوگوں کے کام آسکے، کہ ہاں وہ کہنے کو تو صرف ایک ٹرے (کھانے کو لے کر جانے والا برتن) تھی اور اس پر صفائی نہ ہونے کے سبب بے کار تھی، لیکن جب اس پر وقت لگایا گیا تو پھر سے وہ ایک کارآمد شے بن گئی تھی، اور اسے اس وقت لگ رہا تھا کہ شاید اِس دنیا میں بسنے والے بہت سارے انسانوں کا وجود بھی ایسا ہی ہے کہ جن کے اندر انمول صلاحیتیں ہیں، انہیں بھی پیار دیا جائے، ان سے محبت کے چند الفاظ کہے جائیں، چند لمحات انہیں دیے جائیں تو ان کی شخصیت کے بہت سے اچھے پہلو نظر آجائیں۔ ہاں ضرورت ہے تو بس چند پیار بھرے جملوں اور قیمتی لمحات کی۔