لکھاری معاشرے کا اہم حصہ ہیں،حریم ادب کے زیر اہتمام منعقدہ تربیتی ورکشاپ کی روداد

108

ادب کا دامن اتنا وسیع ہے کہ یہ ہر شعبۂ زندگی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ ادیب معاشرے کا دماغ بھی ہے کہ مسائل پر غور و فکر کرتا ہے۔ ادیب معاشرے کا دھڑکتا ہوا دل بھی ہے کہ ہر دکھ سُکھ کا ذائقہ محسوس کرکے اپنی تحریروں کے ذریعے دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادیب کا قلم زمانہ ساز ہوتا ہے جو اپنے عہد کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مختلف ادبی تنظیمیں سوشل میڈیا کے دور میں، لکھاریوں کے لیے عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ذریعے ادیب اور لکھاری نہ صرف آپس میں رابطہ رکھ پاتے ہیں بلکہ تربیتی پروگراموں میں شرکت کرکے وقت کے تقاضوں اور آنے والے چیلنجز کو سمجھنے کے قابل بھی ہوجاتے ہیں۔

خواتین لکھاریوں کی ادبی اصلاحی انجمن ’’حریم ادب‘‘ کی نمائندہ خواتین نے حال ہی میں ’’آل پارٹیز رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن‘‘ (APWWA) کی تربیتی ورکشاپ میں شرکت کی۔ شاہدہ اقبال اور غزالہ منصور نے اپنے مشاہدات کو قلم بند بھی کیا۔ آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی سالانہ ورکشاپ لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔

APWWA تربیتی ورکشاپ کا آغاز گیارہ بجے ہوا۔ تلاوت و نعتِ رسولؐ مقبول کے بعد ریحانہ عثمانی نے APWWA کا تعارف پیش کیا اور اس کی مختلف سرگرمیوں کی وضاحت کی۔ اس تربیتی ورکشاپ میں ملک کے مختلف علاقوں اور لاہور سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مرد و خواتین نے شرکت کی۔

اس کے بعد مختلف لکھاریوں نے APWWA سے اپنی وابستگی اور اس ادارے کے لیے اپنے کام کی وضاحت کی۔ صدر پریس کلب لاہور ارشد انصاری نے پریس کلب لاہور کے بارے میں بتایا کہ پریس کلب لاہور ایشیا کا سب سے بڑا صحافتی ادارہ ہے جس کے 3500 اراکین ہیں۔ اس قسم کی ورکشاپ کے اثرات بعد میں سامنے آتے ہیں اور لکھاریوں کی اچھی گروئنگ کے لیے ضروری ہیں۔

اختر عباس موٹیویشنل اسپیکر ہیں، انہوں نے رائٹرز کو ایک دو مثالوں سے ان کی اہمیت بتائی، خصوصاً خواتین لکھاریوں کو رول ماڈل لکھاری بننے کی نصیحت کی۔ انہوں نے کہا کہ صرف پاکستانی ہی نہیں باہر کے ادیبوں کو بھی پڑھیں اور ایک سال کے اندر کتنے رائٹرز پڑھے؟ یہ بتانے کے قابل بنیں۔

ریاض احمد احسان نے کہا کہ اگر آپ کو اللہ نے لکھنے کا ہنر دیا ہے تو بلکتی سسکتی انسانیت کے لیے لکھیں، آنے والوں کو آپ کی تحریروں سے پتا چلے کہ آپ کس عہد کے، کن حوادث سے گزرے؟ غزہ کے 50 ہزار شہدا و ہزاروں زخمیوں، بے گھروں پر لکھیں کہ اس سے بڑھ کر دہشت گردی بھی کوئی ہوسکتی ہے؟

آج عرب بادشاہوں کا کردار بھی آپ کے سامنے ہے، جب کہ قائداعظم نے اسرائیل کو شروع میں ہی ’’ناجائز ریاست ‘‘کہہ دیا تھا۔

عمران یوسف تحریک نفاذِ اردو کے صدر ہیں، ان کی گفتگو کا موضوع تھا: معاشرے کے مسائل بہت زیادہ ہیں، آنکھ جو دیکھتی ہے بیان نہیں ہوسکتا، رائٹرز نئی نسل کو باشعور پاکستان دے کر جائیں۔ ممتاز مفتی اور بہت سے ادیبوں اور شعرا کو نئی نسل نہیں جانتی۔ آپ جو کچھ سیکھیں اُسے آگے پہنچائیں۔ محبتیں اور عزتیں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔

زبیر احمد انصاری (چیئرمین APWWA) نے فرمایا کہ آج میں ایک لمحۂ فکر پر گفتگو کررہا ہوں۔ پاکستان بنے کافی عرصہ ہوگیا ہے مگر آج بھی ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں، اس کی بنیادی وجہ کتابِ الٰہی سے دوری ہے۔ ہم حافظِ قرآن تو بنا دیتے ہیں لیکن تفہیم و ترجمے کو توجہ سے سمجھنے پر زور نہیں دیتے۔ میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں جس کا موضوع ہے ’’میں، خدا اور سائنس‘‘ جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سائنس قرآن سے بہت پیچھے ہے۔

بعدازاں انہوں نے کائنات کے علم پر بھی روشنی ڈالی جس کی طرف قرآن میں اشارے موجود ہیں۔

ریحام خان معروف اینکر ہیں، انہوں نے کہا کہ رائٹرز دو قسم کے ہیں، ایک وقت کے شہنشاہ کے لیے لکھتے ہیں اور دوسرے اپنے آرٹ پر کمپرومائز نہیں کرتے۔ چوائس آپ کے پاس ہے۔ درباری لکھاری نہ بنیں۔

زبیدہ صاحبہ یوکے میں پیرنٹنگ اور دینی تعلیم کا اہتمام کرتی ہیں۔ انہوں نے بڑے کرب سے کہا کہ آج کے بچے موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بچے ہیں۔ ایک سال کے بچے کو ماں موبائل پکڑا دیتی ہے، جبکہ ضرورت ہے کہ وہ بچے کی دینی تربیت کرے اور آدابِ اسلام سکھائے۔ بچے کی شناخت پیرنٹس ہیں… آپ ان کی تربیت نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟

ناصر بشیر جو کہ کالم نگار ہیں، انہوں نے کالم نگاری کی مختصر ٹپ دی کہ ’’اگر آپ باتیں کرنا جانتے ہیں تو آپ کالم لکھ سکتے ہیں۔‘‘

سینئر کالم نگار و تجزیہ نگار ارشاد عارف نے کہا کہ ’’لکھنا اور بولنا انسان کی فطری خواہش اور حق ہے۔ جس معاشرے میں ان پر پابندی یا قدغن لگے وہ ابنارمل معاشرہ ہے… غیر مہذب، غیر فطری اور پسماندہ ہے۔ وہی معاشرے ترقی کرتے اور خوش حال ہوتے ہیں جہاں اظہار کی آزادی ہو خواہ لکھنے کی یا بولنے کی صورت میں ہو۔ مافی الضمیر بیان کرنا آپ کا بنیادی حق ہے۔ حق لکھیں اور دل کی بات لکھیں۔‘‘

عنبرین صحافی ہیں، انہوں نے مطالعے کی اہمیت بیان کی کہ ’’لکھنے کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے، مطالعہ ہی سوچ کے دریچوں کو کھولتا ہے۔‘‘

طارق بلوچ صحرائی نے بتایا کہ لکھنا نہیں چھوڑنا چاہیے، لکھتے رہنا بہت ضروری ہے۔ ادیب زندگی کا کوچ ہوتا ہے، ادیب قوم کا محسن ہے۔ وہ قوم کو زندہ رکھتا ہے۔ ادیب آپ کے ساتھ مل کر روتا ہے۔ فلسطین کا ایک ادیب اُس کے دکھوں پر رویا۔ آپ نے جو لکھ دیا وہ امر ہوگیا، محفوظ ہوگیا۔ اگر شاعر اور ادیب نہ رہے تو پھر یہ معاشرہ سفاک معاشرہ ہوگا۔

عذرا آفتاب ٹی وی فن کارہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اب ڈراموں کا وہ معیار نہیں رہا۔ لکھنے والے اچھا ڈرامہ اور معیاری ڈرامہ لکھیں۔‘‘

سیدہ بلقیس اختر کا کہنا تھا کہ ’’دینی تعلیم وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے تناظر میں بیٹیوں کی تربیت پر دھیان ضروری ہے۔‘‘

میگھا نے علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کیا اور اقبال کے فلسفے کو پڑھنے پر زور دیا۔ اداکار ہمایوں نے لکھاریوں کو معاشرے کا اہم حصہ قرار دیا۔ نوید چودھری نے بامقصد لکھنے کی اہمیت اجاگر کی اور جھوٹی خبروں کے خلاف قلم اٹھانے پر زور دیا۔

ادبی و تربیتی ورکشاپ کے اختتام پر نمایاں ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں اور شاعروں کو شیلڈز اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اختتام پُرتکلف دعوت پر ہوا۔ یہ ایک یادگار تربیتی ورکشاپ تھی، ایسے پروگرام ادیبوں اور لکھاریوں کو تازہ دم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

حصہ