لکھنؤکے نواب کا نام سنتے ہی ذہن میں ان عیش پرست نوابوں کے نام آ جاتے ہیں جنہوں نے سوائے عیاشی کے اور کچھ نہ کیا۔ پتنگ بازی، کبوتر بازی، بٹیر بازی، شطرنج بازی یہی ان کے مشغلے تھے۔ اگر آپ نے پریم چند کا افسانہ ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ پڑھا ہے تو آپ کو ان نوابوں کی خصلت کے بارے میں خوب اندازہ ہوگا۔
انگریزوں کا دور تھا ایک نواب صاحب کے اکلوتے نواب زادے یعنی چھوٹے نواب صاحب ابھی کنوارے تھے اور اپنے والد ِمحترم کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے اپنی خاندانی شان و شوکت اور روایات کو قائم و دائم رکھا ہوا تھا یعنی وہ سارے مشغلے جو ان کے آبا و اجداد سے سینہ بسینہ چلے آرہے تھے انہوں نے اس کی لاج رکھی ہوئی تھی۔
چھوٹے نواب صاحب چونکہ بڑے نواب صاحب کی اکلوتی اولاد تھے لہٰذا بڑے لاڈ پیار سے ان کی پرورش کی گئی تھی۔ ان کی ہر ضد جائز ہو یا ناجائز ہر حال میں پوری کی جاتی تھی۔
بڑے نواب صاحب کی خواہش تھی کہ چونکہ صاحبزادے جوان ہو گئے ہیں اب ان کی تنہائی دور ہونی چاہیے لہٰذا ان کے جیون ساتھی کی تلاش شروع کر دینی چاہیے جو ایک مشکل مرحلہ تھا… ایک حور پری یا یوں کہہ لوں کہ ایک پری وَش چہرے کی تلاش تھی جو چاند سے بھی زیادہ حسین ہو ورنہ چاند جیسی تو ہو۔ غزالی آنکھیں ہوں بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہوں اس کے حسن کا کوئی ثانی نہ ہو۔ سارے لکھنؤ شہر میں تلاشِ گمشدہ کی طرح تلاش جاری تھی۔
’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘ اور ایک دن رشتہ کرانے والی خاتون نے یہ خوش خبری سنائی کہ جس ماہ ِتاباں کی تلاش تھی وہ ایک متوسط گھرانے میں دستیاب ہے۔ بڑے نواب صاحب کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ جیسی بہو لانے کی خواہش انہیں تھی وہ پوری ہوتی نظر آرہی تھی۔ لڑکی والوں کے گھرانے کا معیار حالانکہ نواب صاحب کے ہم پلّہ نہ تھا مگر ’لڑکی خوب صورت ہو‘ اس مجبوری نے نواب صاحب کو جبراً اپنے آپ کو راضی کرنا پڑا بہرحال تھوڑی چھان بین کرنے کے بعد باقاعدہ رشتہ بھیج دیا گیا رشتے کی منظوری میں زیادہ وقت نہیں لگا کیونکہ لڑکی والے نواب صاحب کی طرح امیر تو تھے نہیں انہیں خوشی اس بات کی تھی کہ ان کی لڑکی ایک امیر گھرانے میں بہو بننے جا رہی ہے جہاں جا کر وہ عیش کرے گی۔
شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی آج شام بارات روانہ ہونے والی ہے محل کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا ہر طرف چراغاں ہی چراغاں تھا لیجیے صاحب بارات کی روانگی کا آغاز ہو چلا۔ سب سے آگے بینڈ باجے والوں کی دو لمبی قطاریں، درمیان میں ان کا ماسٹر ہاتھ میں ایک چھڑی لیے ہوئے اپنے کارکنان کو چھڑی ہلا ہلا کر ہدایت دیتا ہوا، اس کے پیچھے کچھ معزز حضرات شیروانی چوڑی دار پا جامہ سروں پر کالے رنگ کی لکھنوی انداز کی نوابوں والی ٹوپی پہنے خراماں خراماں آگے بڑھتے ہوئے اس کے بعد دولہا میاں نواب زادے فخر الدین ولد نواب شمس الدین سفید گھوڑے پر سوار کم خواب کی شیروانی چوڑی دار پاجامہ سر پر رنگین موتیوں اور سونے کے تاروں سے بنا ہوا ریشمی کُلاہ چہرے پر گز بھر کا پھولوں سے مہکتا ہوا خوبصورت سہرا کیا شان تھی چھوٹے نواب صاحب کی جب محل سے رخصت ہو رہے تھے اس وقت خواتین نے بلائیں لے لے کر انہیں رخصت کیا تھا ہاتھ میںامام ضامن بھی باندھا گیا تھا۔
دولہے کے بعد بڑے نواب صاحب یعنی نواب شمس الدین فخرِ لکھنؤ، سنہرے رنگ کی شیروانی جس پر سونے اور چاندی کے تاروں سے جو میناکاری کی گئی تھی وہ خوب صورتی میں اپنی مثال آپ تھی گلے میں موتیوں کا بیش قیمت ہار تھا سر پر شیروانی ہی کے رنگ کی ٹوپی جو سر پر ہلکی سی ترچھی کر کے پہنی گئی تھی جو لکھنؤ کے نوابوں کا مخصوص انداز تھا چار گھوڑوں والی بگھّی پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے نواب صاحب اتنے خوش و خرّم نظر آرہے تھے کہ شاید وہ اپنی پہلی شادی پر بھی اتنے خوش نہ رہے ہوں گے۔ ان کے برابر میں ان کے چھوٹے بھائی براجمان تھے اس کے بعد چند ہاتھی تھے جن پر نواب صاحب کے خاندان کے کچھ نوجوان سوار تھے، بارات کیا تھی ایسا لگتا تھا کسی بادشاہ کی سواری جا رہی ہو۔ بارات جب محل سے روانہ ہوئی تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ سارا لکھنؤاس کے دیدار کے لیے اُمنڈ پڑا ہو۔ نواب صاحب کو خود بینی اور خود نمائی کا کچھ زیادہ ہی اشتیاق تھا لہٰذا بارات لکھنؤ کی اہم شاہراؤں سے گزرنے کے بعد لڑکی والوں یعنی جاوید میاں جو لڑکی کے والد تھے ان کے گھر پہنچی، جاوید میاں امیر زادے تو نہ تھے مگر حتیٰ الامکان یہی کوشش کی گئی کہ بارات کا استقبال نواب صاحب کے شایانِ شان کیا جائے کوئی کمی نہ رہ جائے شربت اور ٹھنڈے پانی سے باراتیوں کی تواضع کی گئی عزت و احترام سے سب کو بٹھایا گیا غرضیکہ جاوید میاں نے اپنے تئیں وہ سب کچھ کر ڈالا جس کی وہ سکت رکھتے تھے۔
اب وقت تھا نکاح کا جس کے لیے قاضی صاحب تیار بیٹھے تھے کہ کب نواب صاحب حکم فرمائیں اور نکاح کی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ اچانک چھوٹے نواب صاحب یعنی دولہا میاں کے ذہن میں ایک وسوسہ پیدا ہو گیا انہوں نے بڑے نواب صاحب کو جو برابر میں تشریف رکھتے تھے اندازِ سرگوشی میں کچھ کہا نواب صاحب نے جواب دیا ’’ٹھیک ہے بیٹا ایسا ہی ہوگا۔‘‘
نواب صاحب نے لڑکی کے والد جاوید میاں کو اپنے قریب بلایا اور کہا ’’محترم میرا بیٹا نکاح سے قبل آپ کی صاحب زادی کو دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی ایسا لگا جیسے جاوید میاں پر بجلی گر گئی ہو چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ہونٹ خشک ہو گئے کوئی جواب نہ بن پڑا بہرحال کچھ نہ کچھ جواب تو دینا تھا بمشکل تمام جاوید میاں نے بہت ہی عاجزانہ اور انکسارانہ انداز میں کہا ’’نواب صاحب یہ کام تو شادی طے ہونے سے قبل ہو جانا چاہیے تھا اب اس وقت جب کہ بارات ہمارے گھر پر کھڑی ہے اور میری بیٹی دلہن بنی نکاح کے انتظار میں بیٹھی ہے یہ وقت لڑکی دیکھنے کا تو نہیں ہے۔‘‘
نواب صاحب نے جواب دیا ’’میں اپنے چہیتے بیٹے کی خواہش رد نہیں کر سکتا‘ وہ نکاح سے پہلے لڑکی دیکھے گا اور ضرور دیکھے گا۔‘‘
نواب صاحب کا انداز ِگفتگو جارحانہ بھی تھا اور حاکمانہ بھی۔ وجہ صاف ظاہر تھی…چونکہ جاوید میاں کی حیثیت نواب صاحب سے کم تھی اس لیے نواب صاحب کے دل میں ان کی وہ قدر و منزلت نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی، نواب صاحب جاوید میاں کو اپنے سے کمتر سمجھ رہے تھے۔
جاوید میاں ایک لڑکی کے باپ تھے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں‘ معاملہ بہت نازک تھا۔ کسی طرح یہ خبر زنان خانے میں پہنچ گئی اور لڑکی کو بھی اس کی اطلاع مل گئی۔ اس نے فوراً اپنے والد کو اندر گھر میں بلایا اور کہا ’’اباحضور! اس میں پریشانی کی کیا بات ہے میں مردانے کمرے میں آ جاتی ہوں، آپ دولہا اور ان کے والد کو وہاں بلا لیجیے ہمارے ساتھ آپ بھی کمرے میں بیٹھ جائیے گا‘ لڑکا مجھے جی بھر کے دیکھ لے اب یہ اس کے صوابدید پر ہے، جو اس کی مرضی، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘
کتنا اہم اور سنگین مسئلہ تھا جو جاوید میاں کو درپیش تھا‘ خاندان کی عزت و آبرو اور لڑکی کا مستقبل سب کچھ اس نواب زادے کے مزاج اور اس کے ایک لفظ’ ہاں‘ یا’ نا‘پر منحصر تھا۔
مردانے کمرے میں دولہا، بڑے نواب صاحب اور جاوید میاں لڑکی کی آمد کے منتظر بیٹھے تھے‘ چند لمحوں بعد لڑکی سجی سنوری سرخ جوڑے میں ملبوس کمرے میں مسکراتی ہوئی والہانہ انداز میں داخل ہوئی‘ دولہا میاں نے شاید اس سے قبل اتنی حسین و جمیل لڑکی اپنی زندگی میں نہ دیکھی ہوگی‘ لہٰذا پہلی ہی نظر میں ان کے ہوش جاتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا انہیں سکتہ ہو گیا ہو، نگاہیں مستقل اسی ماہ ِلقا پر جمی ہوئی تھیں کمرے میں ایک سکوت طاری تھا۔ بڑے نواب صاحب اپنے بیٹے کا فیصلہ سننے کے منتظر تھے‘ مگر لڑکے کو کچھ ہوش ہو تو وہ بولے۔
بڑے نواب صاحب نے مڑ کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا گویا پوچھ رہے ہوں کہ ’’بیٹا! تمہاری کیا مرضی ہے؟‘‘
لڑکے نے جواب دیا ’’ابا جان! مجھے لڑکی پسند ہے لہـٰذا آپ قاضی صاحب کو کہیں کہ نکاح کی تیاری کریں۔‘‘ اور یہ کہہ کر دونوں نواب صاحبان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے کہ اچانک لڑکی کی آواز کانوں میں آئی:
’’ٹھہریے نواب صاحب!‘‘
انداز جارحانہ تھا مخاطب بڑے نواب صاحب تھے ’’آپ کے ضدی نواب زادے نے اپنی ضد پوری کر لی اور مجھے پسند فرمایا‘ بہت نوازش مگر لڑکی کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ بھی اپنی مرضی کا اظہار کر سکے‘ اس سے بھی پوچھا جائے کہ تمہیں لڑکا پسند ہے یا نہیں؟ تو میرا جواب ہے کہ مجھے آپ کے صاحبزادے قطعی پسند نہیں ہیں‘ میں ان سے کسی صورت نکاح نہیں کر سکتی۔‘‘
’’تم کیا کہہ رہی ہو میری بیٹی؟‘‘جاوید میاں نے مداخلت کی
’’میں صحیح کہہ رہی ہوں اباحضور! یہ کم ظرف انسان جس نے آپ کو بے عزت اور ذلیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تھی کیا اس قابل ہے کہ میں ایسے گھٹیا اور نیچ قسم کے انسان کو اپنا شوہر بناؤں۔ یہ نواب ہو گا تو اپنے گھر کا، آپ باہر جا ئیے اور با آواز ِبلند اعلان فرمائیے کہ لڑکے کی شرط تھی کہ لڑکی کو نکاح سے پہلے دیکھے اس نے لڑکی دیکھی اور پسند بھی کیا‘ مگر میری بیٹی نے ایسے اوچھے اور چھچھور ے انسان سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا لہٰذا نواب صاحب مہربانی فرما کر بارات واپس لے جائیں اور آپ میری فکر نہ کریں ابا حضور! اللہ نے مجھے حسن سے نوازا ہے‘ میری شادی ہو گی اور ضرور ہو گی اور کسی ایسے انسان سے جو شریف النفس ہوگا‘ نواب کی طرح کمینہ نہ ہوگا۔‘‘
جاوید میاں نے باہر جا کر با آوازِ بلند لفظ بہ لفظ مضمون دہرا دیا …اور بارات لَوٹ گئی۔