بزم سعید الادب کا مشاعرہ

38

گزشتہ ہفتے معروف شاعر و ادب سعیدالظفر صدیقی کی رہائش گاہ پر رونق حیات کی صدارت میں شعری نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں راقم الحروف ڈاکٹر نثار اور ثبین سیف مہمانان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر افتخار ملک ایڈووکیٹ اور ریحانہ احسان مہمانان اعزازی تھے۔ بزم سعید الادب کے معتمد خصوصی یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ شاعری ودیعت الٰہی ہے ہر آدمی شاعری نہیں کرسکتا وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جو شعر کہہ رہے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کی ترقی و تنزلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل بھی اجاگر کرتے ہیں غمِ جاناں اور غمِ دنیا بھی لکھتے ہیں اور معاشرتی تحریکوں میں بھی حصہ ڈالتے ہیں‘ آپ دیکھیے کہ مزاحمتی شاعری نے کس طرح معاشرے میں تبدیلیاں پیدا کیں۔ 1965ء کی جنگ میں شعرائے کرام نے اپنے اشعار کے ذریعے حب الوطنی کے جذبات بیدار کیے۔ قیام پاکستان کے حوالے سے بھی شعرائے کرام کے کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ ان کی صحت اب اجازت نہیںدیتی کہ وہ مشاعروں میں شریک ہوں تاہم فیس بک دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کراچی کی ادبی فضا بڑی گرم ہے‘ روزانہ کی بنیاد پر پورے کراچی میں ادبی پروگرام چل رہے ہیں۔ اردو زبان و ادب کی ترقی ہو رہی ہے۔ مشاعروں نے اردو زبان زندہ رکھی ہوئی ہے کہ مشاعرے ہمارے کلچر میں شامل ہیں‘ ہم نے بھی آج اردو مشاعرہ اس لیے رکھا ہے کہ ہم آپس میں اپنے مسائل بھی ڈسکس کریں اور مشاعرے سے لطف اندوز بھی ہوں۔

ثبین سیف نے کہا کہ آج کے مشاعرے میں جو کلام پیش کیا گیا وہ بہت خوب صورت اور زندگی سے بھرپور ہے‘ شاعری اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے‘ شاعری زندگی سے مربوط ہے اگر ہم اپنے ماحول کو نظر انداز کریں گے تو ہم اچھی شاعری نہیں کر پائیں گے‘ زمینی حقائق تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔ دبستان کراچی کی شاعری میں بڑی جان ہے۔افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ شعرائے کرام تو ہر زمانے کی ضرورت ہیں‘ یہ لوگوں کے ذہنوں کو زندہ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے‘ یہ وہ طبقہ ہے جو معاشرے کو ترقی کی طرف گامزن کرتا ہے‘ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے‘ مظلوم کی داد رسی کرتا ہے۔ فنون لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری سب سے زیادہ مؤثر ہے۔صدر مشاعرہ رونق حیات نے کہا کہ یاسر سعید صدیقی ایک جینوئن شاعر ہیں‘ شاعری تو انہیں ورثے میں ملی ہے۔ یاسر سعید نے اردو کی بڑی خدمت کی ہے‘ انہیں سفیر اردو کہا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر اردو زبان کی ترقی کے لیے بنائے گئے ادارے اپنے کام میںمخلص نہیں ہیں‘ جینوئن قلم کاروں کی قدر نہیں ہو رہی‘ ہم نظر انداز قلم کاروں کی آواز بن کر میدان میں ئے ہیں‘ ہم نے قلم کاروں کے لیے اسٹیج فراہم کیا ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ ہر شاعر کی پزیرائی کی جائے‘ اس کے کلام کو حکومتی خرچ پر شائع کیا جائے‘صحت کارڈ جاری کیا جائے۔ اس موقع پر انہوں نے دو غزلیں بھی سنائیں اور خوب داد وصول کی ان کے بعد راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ ریحانہ احسان‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ سعیدالظفر صدیقی‘ مقبول زیدی‘ احمد سعید خان‘ عتیق الرحمن‘ آئیرن فرحت‘ تاجور شکیل‘ شازیہ عالم شازی اور یاسر سعید نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ