بچے ہمارا مسقتبل؟

124

ڈیجیٹل دور میں بچوں کیلئے تعلیمی اور تفریحی مواقع کی اہمیت اور ان کے تحفظ کیلئے والدین،حکومتی و ساجی

بچوں کا عالمی دن ہر سال 20 نومبر کو منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر کے بچوں کے حقوق، تعلیم، صحت، تفریح اور فلاح و بہبود پر توجہ دلائی جا سکے۔ اس دن کا مقصد بچوں کے مسائل کو اجاگر کرنا، ان کے حقوق کا تحفظ کرنا اور معاشرتی سطح پر بچوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے۔ دنیا بھر میں اس دن کو منانے کے لیے مختلف تقریبات اور پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جہاں بچوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے، اور انہیں بہتر زندگی کے لیے نئے امکانات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس دن کی اہمیت رسمی ہی سہی، لیکن ہے۔ بچوں کے حقوق کے حوالے سے سماجی تنظیمیں اور حکومتی ادارے اپنی اپنی سطح پر کچھ کام کررہے ہیں، جن کی مدد سے بچوں کی فلاح کے لیے مختلف اقدامات بھی کبھی کبھی خبروں میں نظر آتے ہیں۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی نے بچوں کو کئی تعلیمی اور تفریحی مواقع فراہم کیے ہیں، وہیں ان کا غلط استعمال بھی بچوں کے لیے خطرہ نہیں بلکہ بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا، آن لائن گیمز، اور انٹرنیٹ کی دیگر سرگرمیاں بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات ڈال رہی ہیں، ان کی مصومیت چھین رہی ہیں، ان کی ترجیحات بدل رہی ہیں، جس کی وجہ سے ماں باپ کی فکر کے ساتھ ذمے داری بھی بڑھ رہی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے حوالے سے مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم پر یہ ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کو صرف دنیاوی علم ہی نہ دیں، بلکہ انہیں اسلامی تعلیمات، اخلاقیات اور دینی حوالے سے بھی مضبوط بنائیں تاکہ وہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی پروان چڑھیں۔

اس دن کے موقع پر جہاں ایک طرف بچوں کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے، وہیں دوسری طرف دنیا بھر میں بچوں پر ظلم بھی ہورہا ہے۔ کشمیر سے فلسطین تک بچوں کو جنگ، تشدد اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کس طرح کے ذہنی و سماجی مسائل سے گزر رہے ہوں گے، ان کی کیسی شخصیت بن رہی ہوگی؟ اس پر بس لکھا ہی جاسکتا ہے۔ ہمارے بچے محفوظ ہیں، ان کی قدر و اہمیت بنانے، ان کو ہر طرح کے شر اور دکھ درد سے محفوظ رکھنے اور ان کے لیے جینے میں ساری عمر بیت جاتی ہے۔

اس دن کے موقع پر جہاں ہمیں اُن بچوں کو یاد رکھنا ہے، وہیں اپنے بچوں کی بھی ایسی تربیت کرنی ہے اور انہیں ایسا ماحول فراہم کرنا ہے کہ وہ ان مظلوم بچوں کا درد محسوس کرسکیں اور کبھی کبھی تڑپ بھی اٹھیں۔ یہ انسانی فطرت اور ہمارے دین کی تعلیم ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی تکلیف کو محسوس کرے۔ اسی پس منظر میں بچوں کی شخصیت اور ان کی نشوونما پر بھی غور کرنا ضروری ہے، اور ان کی صحیح اندازِ فکر پر تربیت ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا میں عادات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انسان دنیا میں جو کچھ کرتا ہے یہ اس کی عادتوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عادت اتنی بڑی قوت ہے جس سے انسان دنیا کا بڑے سے بڑا کام لے سکتا ہے، عادتیں جب اچھی ہوتی ہیں تو انسان ایک اچھا انسان بن جاتا ہے، اور یہی عادتیں جب بگڑجاتی ہیں تو انسان آوارہ، بدمعاش، بے ہودہ اور بے کار ہوجاتا ہے۔ انسان عادت کا غلام ہے اور بچے کی شخصیت کی تشکیل میں عادت کا اہم کردار ہے۔

معروف ادیب سلیم احمد نے اپنی تحریروں میں بچوں کی شخصیت کے بارے میں مفصل گفتگو کی ہے اور کچھ الگ سے کہا ہے جو غور طلب ہے۔

سلیم احمد کے مطابق: ’’موجودہ زمانے میں ’’بچے‘‘ میں شخصیت کا جلد پیدا ہوجانا اچھی بات سمجھا جاتا ہے، نئے بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنی چھوٹی عمر میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو اُن کے بزرگوں کو اچھی خاصی بڑی عمر تک معلوم نہیں ہوسکیں۔ ایسے بچے جن میں شخصیت جلدی پیدا ہوجائے انہیں ذہین سمجھا جاتا ہے، ماں باپ اپنے بچوں کو ’’قابل‘‘ سمجھ کر ان کی ذہانت کی باتیں اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں‘‘۔ لیکن سلیم احمد اس بات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ ایسے بچے جن میں شخصیت جلد پیدا ہوتی ہے، وہ دراصل وقت سے پہلے ’’قیدی‘‘ بن چکے ہوتے ہیں۔ یہ ’’قید‘‘ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور جذباتی سطح پر بھی ہوتی ہے، جہاں بچوں پر معاشرتی اور ثقافتی معیارات کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، جس سے اُن کی قدرتی تخلیقی صلاحیتوں کو کچلا جا سکتا ہے۔

سلیم احمد کی نظر میں:
’’شخصیت کا مثبت پہلو وہ ہوتا ہے جو بچہ اپنے ماحول، استادوں، اور کتابوں سے سیکھتا ہے، لیکن اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے جو اکثر بچہ اپنی ابتدائی زندگی میں تجربات کے ذریعے محسوس کرتا ہے۔ منفی شخصیت کا یہ پہلو اکثر اُن روایتی اقدار کے خلاف ہوتا ہے جو معاشرت میں رائج ہیں۔ معاشرے کی کامیاب شخصیتیں بالعموم ’’مثبت‘‘ اور ناکام شخصیتیں بالعموم منفی ہوتی ہیں۔ میں تو جب کسی منفی شخصیت کو دیکھتا ہوں تو سب سے پہلے اس کے ماں باپ کے ’’ابتدائی ماحول‘‘ کے بارے میں سوچتا ہوں۔‘‘

تاہم سلیم احمد کے مطابق: کبھی کبھار شخصیت میں ایک تضاد اور کشمکش بھی پائی جاتی ہے، جس میں بچے اپنی ابتدائی زندگی کے ماحول میں پائی جانے والی مختلف اقدار اور معیارات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کشمکش اتنی شدید ہوسکتی ہے کہ بچہ کسی مخصوص عمل کو اختیار کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے، اور یہ ذہنی اختلافات اور انفرادیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اس تناظر میں بچوں کے عالمی دن کے موقع پراس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف ذہانت یا کامیابی کی سمت میں نہیں بلکہ ایک مکمل اور متوازن شخصیت کی تشکیل کے لیے تیار کریں۔ ہمیں اپنے بچوں کو ایسا ماحول فراہم کرنا ہوگا جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو آزادانہ طور پر نکھار سکیں، اور اپنی معاشرتی اقدار کے حوالے سے بھی متوازن سوچ اختیار کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بچوں کی شخصیت کی تشکیل میں صرف گھر ہی نہیں بلکہ معاشرتی، تعلیمی، اور ثقافتی ادارے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیںاور ان کو ایک ستھرا ماحول اور سماج فراہم کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے اور بنیادی بات ہی یہ ہے کہ بچوں کی شخصیت کی بنیاد ان کے ابتدائی ماحول پر ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرتی و ثقافتی چیلنجز سے بھی ہم آہنگ کیا جانا ضروری ہے تاکہ وہ ایک مکمل اور کامیاب فرد کے طور پر زندگی گزار سکیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بچوں کے عالمی دن کا مقصد صرف اُن کے حقوق کی بات کرنا نہیں، بلکہ اُن کی تربیت اور شخصیت کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنا بھی ہے، تاکہ وہ مستقبل میں معاشرے کی کامیاب اور متوازن شخصیت بن سکیں۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور امتِ مسلمہ کا سرمایہ ہیں، یہ صرف نعرہ نہیں بلکہ سامنے کی حقیقت ہے۔ آئیے اس بات کو سمجھیں اور ’آج اور ابھی‘ کی بنیاد پر ان پہلوئوں پر غور و فکر کرکے ان کے لیے سازگار سماجی و گھریلو ماحول بنائیں۔

اگر ہم اپنے بچوں کو اسلامی فکر کے مطابق پروان نہیں چڑھا سکے تو پھر سرفراز بزمیؔ کے بقول

اللہ سے کرے دُور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

حصہ