حکیم اقبال حسین:دلربا کنول

322

یہ مضمون ابھی تک کسی اشاعتی پلیٹ فارم پر شائع نہیں ہوا۔ حکیم صاحب کے صاحبزادے، ڈاکٹر خالد اقبال نے ازرائے عنایت اس مضمون کا مسودہ ڈاکٹر فیاض عالم کو دیا، جسے ہم ان محترم حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

غالب نے کہا تھا: ’’تماشائے بیک کف بردنِ صد دل پسند آیا‘‘۔

مدت تک میں اسے ایک شاعرانہ تخیل سمجھتا رہا، تاآنکہ میں نے اسے عالمِ حقیقت میں بھی دیکھ لیا۔

قارئین! اپنے اسی مشاہدے کی روداد میں یہاں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔

یہ غالباً 1948ء کا ذکر ہے کہ میرا چند روز کے لیے کراچی جانا ہوا۔ وہاں میرا قیام محبّی شیخ سلطان احمد صاحب کے ہاں رہا، جن کے ساتھ مجھے اپنے قیامِ لکھنؤ کے زمانے میں پہلے تعارف اور پھر تعلقِ خاطر کا شرف حاصل ہوا۔ کراچی میں پیر الٰہی بخش کالونی اُن دنوں نئی نئی بنی تھی اور وہاں کے ایک کوارٹر میں سلطان صاحب بھی نئے نئے منتقل ہوئے تھے۔ ادھر کالونی میں سوائے سر چھپانے کے سردست اور کوئی سہولت موجود نہ تھی۔ نہ پانی تھا، نہ سیوریج، اور نہ بجلی… تاہم بھارت سے لُٹ پِٹ کر آنے والے مہاجرین کے لیے یہی بسا غنیمت تھا کہ اپنی چار دیواری سے گِھرا ہوا اور کسی چھت سے ڈھکا ہوا، مختصر سا کوئی ایسا ٹھکانہ مل جائے، جو اُن کا اپنا ہو، جہاں سے انہیں بے دخلی کا کوئی کھٹکا نہ ہو اور جہاں وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ عزت و آبرو کی زندگی بسر کرسکیں۔ پیر الٰہی بخش کالونی کے ذریعے اُس وقت کی حکومت نے ایک محدود پیمانے پر سفید پوش اور عزت دار مہاجرین کے لیے ایسے ہی ٹھکانے، چند مرلہ کے مختصر کوارٹروں کی صورت قیمتاً مہیا کرنے کی کوشش کی تھی۔ شہر کے قریب اور کھلی فضا میں جس خوش نصیب کو بھی پیر کالونی میں کوارٹر ملا، اُس نے شکر کا کلمہ پڑھا۔ چنانچہ مَیں جب دن بھر کے کام کاج کے بعد شام کو سلطان صاحب کے ہاں لوٹتا اور ہری کین لالٹین کی روشنی میں سلطان صاحب کے چہرے کو دیکھتا تو وہاں مجھے یہی کلمۂ شکر بحروفِ جلی لکھا ہوا نظر آتا اور میں سوچتا کہ انسان کو اگر قناعت کی دولت ہاتھ آجائے تو وہ ایک جھونپڑی میں بھی کسی محل کا لطف پاسکتا ہے!

ایک روز میں ذرا سویرے شہر سے لوٹ آیا۔ سلطان صاحب کے کوارٹر پر جب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کوارٹر کے بیرونی برآمدے میں ایک چھوٹا سا قالین بچھا ہے۔ اس قالین پر ایک لمبے سے صاحب دراز ہیں۔ دراز کیا معنی، کچھ سکڑے سے پڑے ہیں، سفید کرتے کے نیچے تنگ موری کے سفید پاجامے میں ملبوس اپنی ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ کو عموداً سکیڑ کر اور دوسری کو اس کے گھٹنے پر آڑا پھیلا کر موصوف نے ایک مثلث بنا رکھی ہے۔ لیکن اس اہتمام کے باوجود وہ چھوٹا سا قالین ان کے قد کی درازی کا متحمل نہیں ہورہا، چنانچہ ان کی نچلی ٹانگ کا پائوں قالین سے باہر نکل کر برآمدے کے ننگے فرش کو چھو رہا ہے۔ گویا وہی مضمون پیدا ہوگیا ہے:

’’گو سینۂ شمشیر سے باہر ہے دمِ شمشیر کا‘‘

ان نیم دراز اور دراز قد صاحب کے پہلو میں میانہ قد کے ایک صاحب آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں، دونوں کے چہروں پر سگھڑ سی ڈاڑھیاں ہیں (آپ انہیں سجیلی ڈاڑھیاں کہہ سکتے ہیں)۔ سلطان صاحب وہاں موجود نہ تھے، اور یہ دونوں چہرے میرے لیے اجنبی تھے، لہٰذا میں سلام کرکے خاموشی سے برآمدے کی سیڑھیوں کے پاس کھڑا ہوگیا۔

جو صاحب بیٹھے تھے، وہ لیٹے ہوئے صاحب سے گویا ہوئے ’’حضرت! کئی دفعہ آپ سے کہہ چکا ہوں کہ آدمی کو قالین دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہئیں۔ آدمی کا قد اگر لمبا ہو تو کیا ضرور ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے قالین پر دراز ہوکر اسے تختۂ مشق بنائے‘‘۔

’’ہشت!‘‘ لیٹے ہوئے صاحب نے تیزی سے جواب دیا اور پھر انگلی سے میری سمت اشارہ کردیا۔ بیٹھے ہوئے صاحب میری طرف متوجہ ہوئے تو لیٹے ہوئے صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا:

’’کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘

’’جی، سلطان صاحب سے‘‘۔ میں نے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا۔

’’خوب!‘‘ انہوں نے جیسے میرے مودبانہ انداز کو سراہتے ہوئے فرمایا۔ پھر پوچھا: ’’کہاں سے تشریف لائے ہیں؟‘‘

’’جی! میں پنجاب سے آیا ہوں اور سلطان صاحب کا مہمان ہوں‘‘۔ میں نے اسی انداز میں جواباً عرض کیا۔ ’’اور ان کے ہاں ٹھیرا ہوا ہوں‘‘، میں نے مزید وضاحت کی۔

’’ارے، پھر تو آپ گھر والے ٹھیرے، تشریف لے آئیے نا، باہر کیوں کھڑے ہیں‘‘۔ انہوں نے قالین پر اپنے قریب جگہ بناتے ہوئے کہا۔

’’شکریہ‘‘ کہہ کر اِدھر میں نے برآمدے میں قدم رکھا اور اُدھر اندر کا دروازہ کھلا اور سلطان صاحب ہاتھوں میں چائے کی ٹرے اٹھائے برآمد ہوئے۔

’’اخّاہ! آج آپ جلدی آگئے‘‘۔ سلطان صاحب نے مجھے دیکھ کر بشاشت سے فرمایا۔

’’جی ہاں، آج جمعہ تھا نا… اس لیے!‘‘ میں نے عرض کیا۔

’’بھئی سلطان صاحب! آپ نے اپنے مہمان کا تعارف نہیں کرایا؟‘‘ دراز قد صاحب نے اشتیاق کے ساتھ فرمایا۔ اس پر سلطان صاحب نے میرے بارے میں چند تعارفی جملے ارشاد فرمائے۔ میں اتنے میں قالین پر انہی دراز قد صاحب کے پاس بیٹھ چکا تھا۔ میرا تعارف سن کر انہوں نے اپنا بازو میری کمر کے گرد پھیلا دیا، اور محبت سے چُور لہجے میں فرمایا: ’’واہ بھئی واہ، آپ تو اپنے ہی آدمی نکلے‘‘۔ پھر جب انہوں نے معانقہ کے انداز میں مجھے اپنے لپٹے ہوئے بازوئوں کے ساتھ، تھوڑا سا بھینچا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل ان کی مٹھی میں جاچکا ہے!

’’سلطان صاحب! کیا یہ تعارف یک طرفہ رہے گا؟‘‘ میں نے سلطان صاحب سے مخاطب ہوکر کہا۔

’’نہیں تو‘‘۔ سلطان صاحب نے جھٹ سے جواب دیا، پھر انہوں نے پہلے میانہ قد والے صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ ہیں ممتاز علوی صاحب، دہلوی ہیں اور ایک خوش بیان ادیب‘‘۔ اس کے بعد سلطان صاحب کی انگلی دراز قد صاحب کی جانب گھومی اور انہوں نے فرمایا: ’’آپ ہیں حکیم اقبال صاحب، حکیم محمد اقبال صاحب، ہمدرد دواخانہ سے منسلک ہیں، اور آپ بھی دہلوی ہیں‘‘۔

میں ان دونوں حضرات سے غائبانہ متعارف بھی تھا اور متاثر بھی، لہٰذا ان سے یوں اچانک بالمشافہ ملاقات میرے لیے خاصی مسرت کا موجب ہوئی۔

کسی غائبانہ متعارف شخص سے پہلی ملاقات کے موقع پر آدمی اضطراراً اس کے سراپا کا بغور جائزہ لیتا ہے۔ چنانچہ میں نے بھی اس وقت یہی اضطراری حرکت کی، ممتاز علوی صاحب سے ’’فارغ‘‘ ہوکر میری نگاہ حکیم اقبال صاحب پر پڑی تو اُن کے صاف رنگ، بھرے چہرے، پتلی مگر متناسب ناک، فراخ پیشانی، اور چمک دار آنکھوں سے میں بہت متاثر ہوا۔ دراز قد کی مناسبت سے میں نے ان کے ہاتھ پیروں کو بھی چوڑا چکلا، مگر سڈول پایا۔ اس دوران حکیم اقبال صاحب اپنے پہلو میں دھرے ہوئے نظر کے چشمے کو اٹھاکر اپنی ناک پر جما چکے تھے، پھر وہ بھی مجھے دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔

’’سلطان صاحب! جناب ممتاز علوی کو تو میں دہلوی مان لیتا ہوں‘‘۔ میں نے سلسلۂ گفتگو دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا ’’لیکن حکیم اقبال صاحب کو دہلوی تسلیم کرنے کے لیے طبیعت آمادہ نہیں ہوتی‘‘۔

حکیم صاحب نے اس پر بے اختیار قہقہہ لگایا، پھر بولے: ’’آپ کا خیال بجا ہے، میرے بزرگ پنجابی تھے۔ یہ ڈیل ڈول میں نے انہی سے ورثے میں پایا ہے‘‘۔

’’اور زبان کا عطیہ ہم سے!‘‘ ممتاز صاحب نے فخریہ انداز میں لقمہ دیا۔

’’حضرات! باتوں کے ساتھ ذرا چائے سے بھی نمٹ لیجیے، ورنہ یہ ٹھنڈی ہوجائے گی‘‘۔ سلطان صاحب نے ہم چاروں کے درمیان میں رکھی ہوئی ٹرے کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ نے ٹھیک فرمایا‘‘، حکیم اقبال صاحب نے مستعدی سے کہا ’’ٹھنڈی چائے کی سرد آہوں سے خدا سب کو محفوظ رکھے‘‘۔ پھر انہوں نے فارسی کا ایک مصرع پڑھا ’’بترس از آہِ مظلوماں…‘‘ اور قریب رکھی ہوئی اپنی سیاہ مخمل کی رامپوری ٹوپی اٹھا کر سر پر رکھ لی جس سے ان کی وجاہت میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ اُدھر سلطان صاحب نے ہماری پیالیوں میں چائے انڈیلنا شروع کردی۔

چائے کا دور شروع ہوا تو اس کے ساتھ ہی ممتاز علوی صاحب اور حکیم اقبال صاحب کی ایک دوسرے سے چُہلیں شروع ہوگئیں، جن میں کبھی کبھی سلطان صاحب بھی اپنا حصہ شامل کردیتے تھے، ایک میں ہی جھینپو تھا، جو دوستوں کی میٹھی میٹھی نوک جھونک سننے اور پھر اس سے لطف اندوز ہوکر بار بار مسکرا دینے پر اکتفا کررہا تھا۔ اس نوک جھونک میں مَیں نے حکیم صاحب کا پلہ ہی بھاری پایا۔ جس طرح ایک عمدہ پکا ہوا پھل، بعض اوقات اپنے رس کے زور سے پھوٹ جاتا ہے، اُسی طرح خوش طبعی تھی کہ حکیم صاحب کی بات بات سے پھوٹ رہی تھی۔

’’آپ کو ایک مزے کی بات بتائوں؟‘‘ حکیم صاحب نے چائے کی ایک طویل چسکی سے فارغ ہوتے ہوئے کہا۔ پھر کسی کے جواب کا انتظار کیے بغیر انہوں نے خود ہی اپنی بات شروع کردی۔ حکیم صاحب نے پہلے ایک مشہور و معروف عالمِ دین کا نام لیا (جو اب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں) پھر فرمایا: ’’آج میں نے نمازِ جمعہ انہی کی اقتداء میں ادا کی۔ نماز سے پہلے مولانا نے اپنی تقریر کے دوران فرمایا…‘‘ یہاں پہنچ کر حکیم اقبال صاحب نے یک لخت اپنی آواز میں تبدیلی پیدا کرلی۔ اور پھر وہ ایک نئی آواز میں گویا ہوئے ’’برادرانِ ملت! مَیں بھی ایک لٹا پٹا مہاجر ہوں، اپنا سب کچھ انڈیا میں چھوڑ آیا ہوں، بھرا پُرا گھر، اپنا اور اپنے بزرگوں کا سارا اثاثہ، قیمتی ساز و سامان، گھر کے زیورات، غرضیکہ کس کس چیز کا ذکر کروں۔ بس تن کے کپڑوں کے ساتھ پاکستان پہنچا ہوں۔ ہاں ایک انمول شے ضرور ہمراہ لے آیا ہوں اور یہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک موئے مبارک ہے جو صدیوں سے ہمارے خانوادہ میں ورثے کے طور پر چلا آرہا ہے، میرے بھائیو! بس میں موئے مبارک کی یہی دولت اپنے ہمراہ لاسکا۔ نماز کے بعد میں اس کی زیارت آپ کو کرائوں گا، اُمید ہے آپ میں سے کوئی اس شرف سے محروم نہیں رہے گا‘‘۔ اتنا کہہ کر حکیم صاحب خاموش ہوگئے، پھر انہوں نے اپنی اصلی آواز میں فرمایا ’’حضرات! یہ میں نے آپ کو مولانا کی آواز کا گویا گراموفون ریکارڈ سنایا ہے، کہیے کیسا رہا؟‘‘

’’یہ جیسا بھی رہا، لیکن اس مزے کی بات کے معاملے میں آپ کی سوئی کیوں اٹک گئی ہے؟‘‘ ممتاز صاحب بولے۔

’’بتاتا ہوں بھائی، بتاتا ہوں، ذرا چھری تلے دم تو لو‘‘۔ حکیم صاحب نے مسکرا کر جواب دیا۔ پھر بولے ’’ہاں تو نماز کے بعد مولانا منبر کے پاس ہی بیٹھ گئے، پھر انہوں نے زیورات رکھنے والی ایک خوبصورت ڈبیا جیب سے نکالی، اسے اپنے سامنے کھول کر رکھ دیا اور آواز لگائی ’’لیجیے صاحبان! قطار باندھ کر آجائیے اور موئے مبارک کی زیارت کرتے جائیے‘‘۔ اس کے بعد حکیم صاحب نے قدرے توقف کیا، پھر بولے ’’مولانا! کی اِس آواز کے بعد یک لخت سامعین میں سے مختلف جگہوں سے چار پانچ آدمی اُٹھے، اور لوگوں کی قطار بناکر انہیں منبر کی جانب ’’چلانا‘‘ شروع کردیا۔ ’’زائر‘‘ جب مولانا کے پاس پہنچتا تو ان کے قریب بیٹھا ہوا ایک شخص آنکھوں اور انگلیوں سے کچھ اشارے کرتا جس پر ہر ’’زائر‘‘ مولانا کی جھولی میں دو روپے ڈالتا اور پھر ڈبیا پر ایک نگاہ ڈال کر آگے بڑھ جاتا۔ میں مولانا کا یہ دھندا بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں مسجد کے ایک کونے سے ایک نوجوان یکایک اپنی جگہ سے اٹھا اور بآواز بلند مولانا سے مخاطب ہوکر بولا ’’مولانا آپ نے فرمایا تھا کہ آپ انڈیا سے بے سر و سامانی کی حالت میں آئے ہیں، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ آپ تو اپنا سب کچھ ہی وہاں سے لے آئے ہیں‘‘۔ حکیم صاحب نے مسکرا کر فرمایا کہ ’’نوجوان کا یہ نعرۂ ہُو سن کر مجھ سمیت کچھ لوگ ہنس پڑے، لیکن مولانا اور ان کے حواریوں نے جس طرح ایک قہر آلود نگاہ اس نوجوان پر ڈالی، اسے دیکھ کر مجھے مزا ہی تو آگیا‘‘۔

یہ حکیم صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی اور اِس ملاقات کا نقش میرے دل پر جم کر رہ گیا۔

کچھ عرصے بعد میں نے سنا کہ حکیم صاحب نے ہمدرد دواخانہ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور دو تحریکی رفقاء کے اشتراک سے ’’آئی ساکو‘‘ کے نام سے کراچی ہی میں ایک نیا دوا ساز ادارہ قائم کرلیا ہے۔ قدرتاً یہ اطلاع میرے لیے مسرت کا باعث ہوئی۔

پھر ایسا ہوا کہ 1955ء میں جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع کراچی میں منعقد ہوا، مَیں بھی اس میں شرکت کے لیے کراچی پہنچا۔ اجتماع گاہ کراچی کے وسیع و عریض ککری گرائونڈ میں قائم کی گئی تھی، اور جماعت اسلامی کی روایتی سلیقہ شعاری کا شاندار مظہر تھی۔ یہ شام کے جھٹ پٹے کا عالم تھا، جب میں اپنے علاقے کے دوسرے رفقاء کے ساتھ اجتماع گاہ کے صدر دروازے میں داخل ہوا، اور جیسے روشنیوں نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اجتماع گاہ میں آدمیوں کا بہت ازدحام تھا، اس کے باوجود ماحول اس قدر پُرسکون تھا کہ طبیعت شاد ہوگئی۔ میری نگاہ اجتماع گاہ کی روشنیوں کے جال میں الجھی ہوئی تھی کہ یک بیک ایک صاحب سامنے سے آکر میرے ساتھ بغل گیر ہوگئے۔ ’’السلام علیکم جناب! بھئی خوب ہوا، جو آپ بھی آگئے‘‘۔ یہ الفاظ میرے کان میں پڑے تو مجھے آواز اور لہجہ مانوس سا محسوس ہوا، معانقہ سے فارغ ہوکر جب ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تو میں نے اپنے سامنے حکیم اقبال صاحب کو پایا۔ حکیم صاحب کی اس پُرخلوص اور پُرمحبت پیشوائی کی ادا نے میرا دل موہ لیا۔

’’دیکھیے، اس وقت تو میں اجتماع گاہ میں اپنی ڈیوٹی پر جارہا ہوں‘‘۔ حکیم صاحب نے فرمایا۔ ’’البتہ اجتماع کے فارغ اوقات کے دوران میں آپ کو ’آئی ساکو‘ کے اسٹال پر ملوں گا، وہ رہا سامنے ہمارا اسٹال‘‘۔ اس کے ساتھ ہی حکیم صاحب نے اپنی انگلی اٹھاکر اسٹالوں کی ایک لمبی قطار میں اپنے اسٹال کی نشان دہی کی۔ پھر فرمایا ’’آپ کو اب یا اپنے قیام کے دوران جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑے تو مجھے بتائیے گا، دیکھنا میاں کہیں تکلف ہی میں نہ رہ جانا‘‘۔ اتنا کہہ کر حکیم صاحب جھپاک سے ایک سمت کو چل دیے، اور میں نے دوسرے رفقاء کے ساتھ اپنی قیام گاہ کی راہ لی۔

اگلے روز اجتماع کی کارروائی سے فارغ ہو کر جب میں ’آئی ساکو‘ کے اسٹال پر پہنچا تو وہاں حکیم صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ کہنے لگے ’’میرا خیال تھا کہ آپ اجتماع کی کارروائی سے فارغ ہوتے ہی یہاں تشریف لائیں گے۔ لہٰذا میں بھی فراغت پاکر یہاں چلا آیا ہوں، تاکہ آپ کو انتظار کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے‘‘۔ پھر بڑے اشتیاق سے پوچھا ’’بھئی آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے؟ آپ کے پاس بستر وستر تو ٹھیک ہے نا…؟‘‘

’’سب ٹھیک ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’آپ فکر نہ کریں، میں خاصا خودغرض واقع ہوا ہوں، اس وقت بھی ایک ضرورت ہی سے آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔

’’ارے، جلدی سے بتائیے کیا ضرورت ہے آپ کی؟‘‘ حکیم صاحب نے بے تاب ہوکر پوچھا۔

’’آپ سے ملاقات کی ضرورت، اور آپ کی زبان سے کچھ مفرح باتیں سننے کی ضرورت ہے اور بس…‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا۔

اس پر حکیم صاحب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ پھر بولے ’’مفرح باتیں؟… خوب! بھئی آپ نے مجھے کسی مفرح معجون کا مرتبان سمجھ رکھا ہے؟‘‘

’’مرتبان نہیں جناب! شگفتہ پھولوں کا گلدان‘‘۔ میں نے کہا۔

’’خیر چھوڑیے ان مرتبانوں اور گلدانوں کو‘‘۔ حکیم صاحب نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ ’’یہ فرمائیے کیا پئیں گے آپ؟‘‘

اس کے بعد حکیم صاحب نے میری ’’نہ نہ‘‘ کے باوجود وہیں اسٹال پر میری اس قدر تواضع کی کہ میرے کام و دہن لطف سے شاد ہوگئے، پھر تواضع کے دوران حکیم صاحب نے ایسے ایسے چٹکلے اور لطیفے مجھے اپنے خاص انداز میں سنائے جس نے ان کی تواضع کا مزا دوبالا کردیا۔

اس کے بعد فرصت کے اوقات میں حکیم صاحب کے اسٹال پر حاضری دینا میرا روز کا معمول بن گیا، وہاں ان کی تواضع کے ساتھ میں ان کی شگفتہ باتوں کا بھی خوب لطف اٹھاتا، ان کے اسٹال کی اعلیٰ سیٹنگ کو دیکھتا تو ان کی سلیقہ شعاری پر رشک آتا۔ خوبصورت پیکنگ کی دوائوں کو انہوں نے ایک دلکش قرینے کے ساتھ میزوں پر سجا رکھا تھا۔ پھر اسٹال میں ہر جگہ شستگی اور صفائی جھلکتی تھی۔ خریداری کے ساتھ حکیم صاحب کی گفتگو میں اپنے فائدے کی نسبت گاہکوں کی خیرخواہی کا عنصر مجھے اکثر نمایاں نظر آتا تھا۔ مثلاً کوئی خریدار، مریض کی حیثیت سے آکر کوئی خاص دوا طلب کرتا، تو حکیم صاحب اسے پاس بٹھاکر بڑی محبت سے اس کی شکایات کی تفصیل دریافت کرتے۔ پھر اس کے لیے خود دوا تجویز فرماتے، جو اکثر اوقات اس کی طلب کردہ دوا کی نسبت کم قیمت کی ہوتی، اسی طرح کوئی تاجر قسم کا خریدار آتا، تو حکیم صاحب پہلے اس کے رہائشی علاقے کے کوائف معلوم کرتے، اور پھر ان کوائف کی روشنی میں ایسی ادویہ اسے خریدنے کا مشورہ دیتے جو وہاں کی آب و ہوا نیز وہاں کے باشندوں کی معاشی حالت سے مناسبت رکھتی ہوں، اور اس طرح ان کی فروخت میں زیادہ افادیت کے پہلو مضمر ہوں۔ میں حکیم صاحب کی تجارت کے یہ انداز دیکھتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے اسلامی تجارت کے تین اہم اصول یعنی خدا خوفی، دیانت داری اور راست بازی مجسم ہوکر میرے سامنے آگئے ہیں۔

اجتماع کے پانچ دنوں میں اپنے اوقات کا بیشتر حصہ حکیم صاحب کی خدمت میں گزارنے کے بعد جب میں نے گھر واپسی سے پہلے حکیم صاحب سے الوداعی معانقہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ حکیم صاحب نے اپنی پہلی ملاقات کے دوران میرا جو دل مٹھی میں لے لیا تھا، اسے آزاد کرنا تو بجائے خود رہا، انہوں نے اسے اور بھی مضبوطی کے ساتھ اپنی مٹھی میں جکڑ لیا ہے۔

اس کے بعد چند سال اور گزر گئے، اس عرصے میں گاہ بگاہ حکیم صاحب سے مراسلت کا شرف حاصل ہوجاتا، اسی دوران اُن کی مشہور کتاب ’’بڑھاپا اور اس کا سدباب‘‘ کے ابتدائی ابواب ماہنامہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوئے، انہیں پڑھ کر ان کی معالجاتی قابلیت، نیز ان کی پُرخلوص شخصیت کے جوہر مزید آشکار ہوئے۔ حکیم صاحب نے ان مضامین میں طب کے اسرار و رموز جس سادہ، سلیس اور دلنشین پیرائے میں بیان کیے، وہ عام قارئین کے لیے ایک بالکل نئی چیز تھی۔ چنانچہ میں نے بیشتر حضرات کو ان مضامین کی تعریف میں رطب اللسان پایا۔ انہی ایام میں حکیم صاحب سے اتفاقاً میری ایک مختصر سی ملاقات لاہور میں ہوئی۔ جب میں نے ان کے مضامین کے بارے میں اپنے اور دوسرے حضرات کے تعریفی تاثرات ان کے گوش گزار کیے تو حکیم صاحب نے مسکرا کر فرمایا کہ ’’بھائی! تعریف تو اللہ ہی کی زیبا ہے، جو صلاحیت کسی میں بھی پائی جاتی ہے، وہ اصل میں اُس کی دَین ہے‘‘۔ میں نے تجویز پیش کی کہ یہ مضامین کتابی صورت میں آنے چاہئیں۔ حکیم صاحب نے جواباً پھر یہی فرمایا ’’دعا کیجیے اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے‘‘۔ کسی بھی اہلِ قلم کے لیے تعریف و تحسین گویا نفس کی غذا کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم میں نے اس ملاقات میں یہ محسوس کیا کہ حکیم صاحب ایسی کسی غذا کے حاجت مند نہیں ہیں۔

پھر ایسا ہوا کہ میں خود پیٹ کی تکلیف سے بیمار پڑ گیا، میرا کھانا پینا موقوف ہوگیا اور لاغری میں روز بروز اضافہ ہونے لگا، آخر مقامی علاج معالجہ کو ناکام پاکر میں نے حکیم صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھا اور اپنی کیفیت بیان کرکے ان سے مشورے کی درخواست کی۔ حکیم صاحب نے میرے اس خط کا ترنت جواب مرحمت فرمایا، جو صرف ان الفاظ پر مشتمل تھا کہ ’’آپ بلاتاخیر میرے پاس کراچی آجائیں اور بواپسی اپنی آمد کے پروگرام سے مطلع کریں‘‘۔ حکیم صاحب کے یہ الفاظ کچھ ایسے کشش انگیز تھے کہ میں نے گھر والوں کے برعکس مشوروں کو نظرانداز کرکے اور شدید نقاہت کے باوجود اپنے ایک عزیز کے ہمراہ کراچی جانے کا پروگرام بنالیا اور حکیم صاحب کے ارشاد کے مطابق میں نے انہیں اس کی اطلاع بھی بھجوا دی۔

ریل کے اٹھارہ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد جب میں اپنے عزیز کے ہمراہ کراچی پہنچا تو اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر حکیم صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ سلام و دعا اور پُرجوش اور پُرمحبت معانقے کے بعد حکیم صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوکر جو پہلا فقرہ ارشاد فرمایا وہ یہ تھا: ’’آپ نے تو مجھے اپنے خط میں ڈرا ہی دیا تھا، لیکن الحمدللہ، میں آپ کے چہرے پر صحت کی چمک دیکھ رہا ہوں‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ حکیم صاحب کے یہ الفاظ اور ان کا خلوص سے مہکتا اور دمکتا ہوا لہجہ میرے لیے مسیحائی کا کام کرگیا۔ چنانچہ میں نے عرض کیا کہ ’’حکیم صاحب آپ کے اس جملے نے میری آدھی بیماری تو یہیں پلیٹ فارم پر ہی ختم کردی ہے‘‘۔ جواب میں حکیم صاحب نے اپنے اندازِ خاص میں ایک مزیدار قہقہہ لگایا۔ پھر بڑی محبت کے ساتھ میرا ہاتھ تھام کر پلیٹ فارم کے ہجوم سے باہر لے آئے اور ہمیں اپنے ہمراہ ایک ٹیکسی پر سوار کراکے اپنے دولت کدہ پر لے گئے۔ تمام راستے وہ اپنی ’’گلوں کی خوشبو‘‘ والی باتوں سے میرے بیمار سے پژمردہ ذہن کو مہکاتے رہے۔ پھر گھر پہنچنے کے بعد بھی حکیم صاحب تادیر اپنی شگفتہ باتوں سے میرے دل کی کلی کھلاتے رہے۔ اس دوران انہوں نے میری بیماری کو ذرا سی دیر کے لیے بھی موضوعِ گفتگو نہ بنایا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ میں یہ بھول ہی گیا کہ میں اس مرتبہ ایک مریض کی حیثیت سے ان کے پاس کراچی آیا ہوں۔

ان دنوں حکیم صاحب شام کے وقت پیرکالونی میں مطلب کرتے تھے، یہ گویا ’’آئی ساکو‘‘ کی ایک شاخ تھی، حکیم صاحب کا یہ شبانہ مطب کالونی کی ایک مسجد سے ملحقہ وسیع کمرے میں قائم تھا۔ ہمارے قیام کا انتظام حکیم صاحب نے اپنے اسی مطب میں کر رکھا تھا۔ چنانچہ اپنے دولت کدہ پر چائے پلا کر وہ ہمیں اپنے مطب میں لے آئے، لیکن اس حال میں کہ ہمارے سامان کا خاصا حصہ وہ خود اٹھاکر وہاں لے گئے اور ہماری ہزار کوشش کے باوجود وہ اس زحمت سے دستکش نہ ہوئے۔ مطب میں حکیم صاحب نے ہمارے قیام کے لیے جو انتظامات کر رکھے تھے، ان میں ہماری ادنیٰ سے ادنیٰ ضرورت کا بھی پورا خیال رکھا گیا تھا۔ کمرے کے سارے ماحول میں شستگی بھی عیاں تھی، اور سلیقہ بھی… چنانچہ مطب میں اپنے قیام کے انتظامات دیکھ کر میں نے بے اختیار حکیم صاحب سے کہا کہ ’’آپ نے ہماری ضرورت کی اشیاء کو اس قرینے سے رکھوا دیا ہے کہ بغرضِ ضرورت ان اشیاء کو اپنی جگہ سے ہٹانے کو جی نہ چاہے گا‘‘۔ حکیم صاحب نے اس پر ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولے ’’بھئی! یہ اشیاء آپ کے استعمال کے لیے ہیں نہ کہ کمرے کی سجاوٹ کے لیے‘‘۔ پھر فرمایا ’’دوپہر اور شام کا کھانا آپ کو یہاں ملازم پہنچا دیا کرے گا، البتہ صبح کا ناشتہ ہم گھر پر اکٹھے کیا کریں گے‘‘۔

اس روز شام کا کھانا بھی ہم نے اکٹھے مطب ہی میں کھایا، کھانے کے بعد حکیم صاحب نے فرمایا ’’آج آپ مکمل آرام کرکے سفر کی تکان دور کریں، آپ کی صحت کے مسائل کے بارے میں ان شاء اللہ کل صبح ناشتے کے بعد بات کریں گے‘‘۔

’’اس کی شاید نوبت ہی نہ آئے‘‘۔ میں نے آہستہ سے کہا۔

’’ارے وہ کیوں؟‘‘ حکیم صاحب نے مضطربانہ سوال کیا۔

’’وہ اس لیے کہ آپ نے پلیٹ فارم ہی سے میرا جو علاج شروع کررکھا ہے اور جو اَب تک جاری ہے، اس نے میری صحت کے کئی مسائل کچھ حل سے کردیے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا۔

’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ مریض معالج کے ساتھ تعاون کررہا ہے‘‘۔ حکیم صاحب نے مسکرا کر جواب دیا اور پھر وہ مصافحہ فرما کر ہم سے رخصت ہوگئے۔

اگلی صبح ناشتے کے بعد حکیم صاحب نے میری بیماری کے متعلق گفتگو کے لیے عندیہ ظاہر فرمایا، اور اس غرض کے لیے انہوں نے صوفے پر اپنی نشست سنبھالی۔ میں جب ان کے قریب بیٹھنے لگا تو انہوں نے مجھے سامنے صوفے پر بیٹھنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’وہ صوفہ نیا ہے، آپ اس پر بیٹھیے۔ یہ میرے والا مرمت شدہ ہے‘‘۔ بظاہر یہ ایک معمولی سی بات تھی، لیکن اس نے میرے دل پر غیرمعمولی اثر کیا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے حکیم صاحب صوفہ کے بجائے مجھے اپنے حجلۂ دل میں بٹھا رہے ہیں۔

میں نے جب اپنے مرض سے متعلقہ شکایات بیان کرنا شروع کیں تو حکیم صاحب نے فرمایا ’’دیکھیے! اپنی شکایات اور احساسات میرے سامنے خاطرخواہ تفصیل کے ساتھ بیان کردیجیے۔ یہ خیال نہ فرمائیے گا کہ میں انہیں سن کر بور ہوجائوں گا‘‘۔ ظاہر ہے مریض کی تو عین خواہش ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ کہے اور سنا کرے ’’معالج‘‘۔ چنانچہ میں نے حکیم صاحب کی طرف سے شہ پاکر اپنی بیماری کا سارا دکھڑا ان کے سامنے رکھ ڈالا اور اس سلسلے میں جو وسوسے اور خدشات میرے ذہن میں رینگ رہے تھے، وہ بھی میں نے بلا کم و کاست حکیم صاحب کے سامنے پیش کردیے۔ حکیم صاحب میری مریضانہ طویل لن ترانیوں کو نہایت توجہ اور صبر کے ساتھ سنتے رہے۔ جب میں نے اپنی رام کہانی ختم کی تو انہوں نے ہنکارا بھرا اور پھر ٹھیر ٹھیر کر بولے ’’پہلی بات تو یہ ذہن نشین فرما لیجیے کہ آپ کو خدانخواستہ کوئی تشویش ناک مرض لاحق نہیں ہے۔ یہ ایک دور ہے جو آپ پر آیا ہے اور گزر جائے گا‘‘۔ ان کا لہجہ اس قدر پختہ اور وثوق سے اس قدر لبریز تھا کہ ان کے الفاظ میرے ذہن کی لوح پر جیسے کندہ ہوتے چلے گئے۔ اطمینان کا ایک گہرا سانس بے ساختہ میں نے لیا جیسے ذہن پر سے اندیشوں کا سارا غبار دھل گیا ہو۔

’’آپ کے لیے ایک نسخہ میرے ذہن میں اس وقت بجلی کے کوندے کی مانند آگیا ہے۔ آج ہی اس کی دوائیں تیار کرا دوں گا۔ خدا نے چاہا تو یہ بہت مفید ثابت ہوگا‘‘۔ حکیم صاحب کے ان الفاظ سے میرے ذہن میں بھی یہ یقین کوندے ہی کی مانند لپک گیا کہ اِن شاء اللہ میں حکیم صاحب کے علاج سے ضرور صحت یاب ہوجائوں گا۔

شام کو مجھے حکیم صاحب کراچی کے ایک اور تجربہ کار معالج کے پاس لے گئے اور پھر میری ہسٹری اور اپنی تشخیص و تجویز ان کے سامنے رکھ کر ان کی رائے دریافت کی۔ ان صاحب نے بھی حکیم صاحب کی رائے سے اتفاق کیا اور ایک جزوی ترمیم کے ساتھ ان کے مجوزہ نسخے کی تائید کی۔ وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے حکیم صاحب نے فرمایا کہ ’’میں اپنے خاص مریضوں کے بارے میں اکثر کسی اور معالج سے مشورہ کرلیا کرتا ہوں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا‘‘۔

’’لیکن حکیم صاحب! ہمارے ہاں کے بیشتر معالج حضرات تو کسی ہم پیشہ سے اپنے مریضوں کے بارے میں مشورہ کرنا اپنی ہیٹی سمجھتے ہیں‘‘۔ میں نے قدرے تعجب سے عرض کیا۔

’’یہ ان کی خیام خیالی ہے‘‘ حکیم صاحب نے فوراً جواب دیا۔ ’’اگر مریض کے مفاد کا تقاضا ہو تو کسی دوسرے معالج سے مشورہ کر لینا نہ صرف ضروری بلکہ فرضِ عین قرار پاتا ہے‘‘۔

’’معالج کے لیے مریض کے مفاد کا اس قدر لحاظ رکھنا فی زمانہ ایک انوکھا طرزِ فکر محسوس ہوتا ہے‘‘۔ میں نے ایک خوشگوار حیرت سے کہا۔

’’یہ طرزِ فکر فی زمانہ انوکھا ہو تو ہو، لیکن فی الحقیقت انوکھا نہیں ہے۔ اور نہ یہ کسی تعریف کے قابل ہے‘‘۔ حکیم صاحب نے گویا میرے تحسین آمیز احساسات کو بھانپتے ہوئے فرمایا۔ ’’یہ تو بھئی، علاج معالجہ کی روٹین اور معمولات میں شامل ہے‘‘۔

حکیم صاحب تو یہ کہہ کر خاموش ہو گئے، اور میں تادیر یہ سوچتا رہا کہ وہ زمانہ کب آئے گا جب اخلاقی اقدار پر عمل ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بن جائے گا، اور حکیم صاحب جیسی ہستیاں مغتنمات کے دائرے سے نکل کر معاشرے کے عام لوگوں میں شمار ہوں گی۔

دوسرے معالج کے پاس آنے جانے کے لیے حکیم صاحب نے اپنی گرہ سے ایک ٹیکسی کا انتظام کرلیا تھا، میں نے واپسی پر ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ: ’’آپ مجھے رکشا میں بھی لے جاسکتے تھے، ٹیکسی تو خاصی مہنگی چیز ہے‘‘۔

حکیم صاحب کا جواب تھا: ’’ٹیکسی واقعی مہنگی پڑتی ہے اور رکشا سستا… لیکن آپ کی صحت کے پیش نظر میں رکشا کی سواری کو ایک غلط قسم کی کفایت شعاری سمجھتا ہوں‘‘۔ (ان کے اصل الفاظ تھے کہ یہ ایک Bad Economy ہے)

اسی شب کے پچھلے پہر مجھے اچانک پیٹ میں درد شروع ہوگیا۔ درد کی شدت سے مجبور ہوکر میں نے بالآخر حکیم صاحب کو ناوقت زحمت دینے کا ارادہ کرلیا۔ اس غرض کے لیے میں نے پہلے اپنے ساتھی عزیز کو حکیم صاحب کے پاس بغرضِ اطلاع بھیجا اور اس کے پندرہ بیس منٹ کے بعد جب میں افتاں و خیزاں خود ان کے ہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس اثناء میں حکیم صاحب نے میرے لیے ایک آرام دہ بستر تیار کرالیا ہے۔ گرم پانی کی بوتل بستر کے ساتھ رکھی ہے اور ایک دوا کی شیشی حکیم صاحب ہاتھ میں لیے میرے منتظر بیٹھے ہیں۔

میرے وہاں پہنچنے پر حکیم صاحب نے کیفیت معلوم کر کے جلدی سے ایک دوا مجھے کھلائی۔ اس کے بعد مجھے بستر پر لٹا کر اپنے ہاتھ سے میرے پیٹ پر گرم بوتل سے سینکائی کرنے لگے۔ میرے عزیز نے بہتیرا چاہا کہ سینکائی کا فریضہ وہ انجام دے لیکن حکیم صاحب اس کے قائل نہ ہوئے۔ میں بھی جان بوجھ کر خموش پڑا رہا کیونکہ حکیم صاحب کا ہاتھ میرے لیے مسیحائی کا کام کررہا تھا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ میرا درد پندرہ ہی منٹ میں کافور ہوگیا۔ اس کے بعد حکیم صاحب مجھے میری قیام گاہ تک آکر چھوڑ گئے، اور میں نے رات کا بقیہ حصہ بڑے آرام سے گزارا۔

میں کوئی آٹھ دس دن حکیم صاحب کے پاس کراچی میں مقیم اور ان کے زیرِ علاج رہا۔ ان کے علاج کے اثرات کے لیے اس حقیقت کا اظہار کافی ہوگا کہ میں جب گھر سے چلا ہوں تو مجھے دلیہ بھی ہضم نہ ہوتا تھا۔ لیکن حکیم صاحب نے اپنے علاج کے پانچویں ہی دن مجھے ناشتے میں روغنی روٹی کھلانا شروع کردی۔ اس کے بعد تین چار یوم مزید وہاں قیام کرکے میں نے حکیم صاحب کی خوش مزہ دوائوں، ان کے ہاں کے پکے ہوئے لذیذ کھانوں، اور سب سے بڑھ کر ان کی مفرح و مقوی باتوں سے خوب اپنی جان بنائی اور آخرکار ان کی اجازت سے گھر واپسی کا قصد کیا۔

میری واپسی سے ایک روز پہلے حکیم صاحب نے ایک ٹیکسی کا انتظام کیا اور اس ٹیکسی کے ذریعے اپنی ہمراہی میں مجھے اور میرے عزیز کو کراچی کے تقریباً تمام قابلِ دید مقامات کی سیر کرائی۔ اس سیر میں پورا ایک دن صرف ہوگیا، اور ظاہر ہے کہ اس طرح میری خاطر وہ ایک دن کے لیے اپنے مطب نہ جاسکے۔ اگلے روز بھی حکیم صاحب نے ہمیں ٹرین پر سوار کرانے کی خاطر مطب سے نصف دن کی چھٹی کی، جب میں نے یہ کہا کہ ’’آپ براہِ کرم اس طرح اپنے مطب کا ہرج نہ کریں۔ گاڑی میں آپ نے ہماری نشستیں ریزرو کرا دی ہیں۔ لہٰذا ہمیں وہاں جاکر خود سوار ہونے میں کوئی دقت نہ ہوگی‘‘۔

تو حکیم صاحب نے فرمایا ’’دیکھیے اپنے فائدے اور ہرج مرج کو میں خود بہتر سمجھتا ہوں‘‘۔

’’یعنی یہاں بھی آپ مریض ہی کے فائدے کو اولیت اور اہمیت دے رہے ہیں‘‘۔ میں نے کہا۔

’’جی ہاں‘‘ حکیم صاحب نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’آخر معالج کا اور کام ہی کیا ہے‘‘۔

غرضیکہ حکیم صاحب ہمیں ایک مرتبہ پھر ٹیکسی پر سوار کراکے اسٹیشن تک لائے، صبح کو بھرپور ناشتہ کھلانے کے باوجود ہمارے ناشتہ دان میں راستے کے لیے کھانا بھر دیا، گاڑی میں ہمیں سوار کرانے کے بعد وہ گاڑی کی روانگی تک ہمارے ساتھ ڈبے میں بیٹھے رہے اور مجھے یہ باور کراتے رہے کہ میں اب بالکل صحت مند ہوں۔ لہٰذا مجھے گھر جاکر اپنی زندگی کے معمولات میں پورا پورا حصہ لینا چاہیے۔

آخرکار گاڑی نے وسل دی، حکیم صاحب نے مجھ سے اور میرے عزیز سے ایک الوداعی گرمجوش معانقہ کیا اور پھر پلیٹ فارم پر اتر کر ہجوم میں کھو گئے۔ ہماری گاڑی کراچی سے روانہ ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ حکیم صاحب نے میری زندگی کے آخری دم تک میرے دل کو اپنی مٹھی سے آزاد نہ کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ