اس ساری صورتِ حال میں جمال اور کمال کے علاوہ فاطمہ کے لیے سب سے عجیب بات یہ تھی کہ چینی مہمان کوئی خاص پریشان نظر نہیں آ رہا تھا جبکہ غیر ملکی مہمان ایسی صورت حال میں خوف زدہ یا پریشان نہ بھی ہوں تب بھی کسی بڑی ڈیل کے موقع پر وہ محتاط تو ضرور ہو جاتے ہیں۔
حالات بظاہر پر سکون ہو چکے تھے، پانی اور کولڈ ڈرنک کی مہر بند نئی بوتلیں فراہم کر دی گئیں تھیں البتہ پہلے والی بوتلوں کو ابھی تک اٹھایا نہیں گیا تھا۔
کھانے کا باقائدہ آغاز ہو چکا تھا۔ لوگ کسی بھی ناخوشگوار تاثر کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے البتہ چوہدری ایاز علی کے چہرے سے ضرور ایسا تاثر ملتا تھا جیسے وہ اس صورتِ حال سے کسی حد تک بے لطف ہوئے ہوں۔ ممکن ہے کہ کھانے کے بعد وہ اس بات کی تحقیق کا ارادہ بھی رکھتے ہوں۔ ظاہر ہے یہ بات کوئی ان کے لیے اچھی تو نہیں ہوئی تھی۔
کھانے کے بعد آنے والے مہمان اور چوہدری صاحب نے باقی لوگوں، خصوصاً فاطمہ، جمال اور کمال کی جانب دیکھتے ہوئے معذرت کے ساتھ اس بات کی اجازت چاہی کہ وہ اپنے ملکی و غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کانفرنس روم میں جانا چاہتے ہیں ساتھ ہی اپنے عملے کو ہدایت کی وہ تمام مہمانوں کو ان کی اپنی اپنی اقامت گاہوں تک چھوڑ آئیں۔
ایک لمحے کے لیے جمال اور کمال کی ٹیم کو ایسا ضرور لگا کہ وہ ان تینوں کو بھی اپنے ہمراہ لے جانا چاہتے ہیں لیکن شاید کسی مصلحت کے تحت جیسے انہوں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہو۔
انسان اپنے چہرے پر جتنے چاہے ماسک چڑھا لے۔ عام نگاہوں سے بے شک اوجھل ہو جائے اور وہ کسی بھی محفل میں پہچانا نہ جاسکے لیکن اپنے ڈیل ڈول کو نہ تو لمبا کر سکتا ہے اور نہ ہی پستہ قد میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی جمال اور کمال آنے والے کو کافی حد تک پہچان چکے تھے۔ ویسے بھی ان کو اللہ تعالیٰ نے ’’پہچان‘‘ کی ایسی منفرد صلاحیت دی تھی کہ وہ کسی بھی دیکھے ہوئے شخص کو دوبارہ دیکھنے پر پہچان لیا کر تے تھے خواہ وہ کتنا ہی شاندار میک اپ کر کے آیا ہو۔ وہ چینی مہمان کو اپنے ہمراہ لانے والے کو تقریباً پہچان ہی چکے تھے لیکن اس شخصیت نے اتنا زبردست میک اپ کیا ہوا تھا کہ انہیں اب فاطمہ کی تصدیق کی ضرورت پڑ رہی تھی۔ فاطمہ نے آنکھوں آنکھوں میں یہ تو بتا دیا تھا کہ میں اسے پہچان چکی ہوں لیکن اس سے زیادہ بتانے کا اسے کوئی موقع نہیں مل سکا تھا۔ سب کے سامنے بہت زیادہ کھل کر بات بھی ممکن نہیں تھی۔
ڈائینگ حال سے باہر نکل کر بھی انھیں بات کرنے کا موقع یوں نہیں مل سکا تھا کہ وہ کسی ڈرائیور پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے تھے۔
ارے یہ کیا۔ ہماری گاڑی ہماری رہائش گاہ کی جانب تو نہیں جا رہی۔ فاطمہ نے جمال اور اکرم کو مخاطب کر کے کہا۔
جی ایسا ہی ہے۔ اس مرتبہ کمال نے بولنے میں پہل کی۔
تو پھر؟۔ فاطمہ نے بغیر گھبرائے کہا۔
کچھ نہیں۔ لگتا ہے کہ ڈرائیور ہمیں زمینوں کے بعد آسمان کی سیر کرانے کا پروگرام لے کر آیا ہے۔ کمال ایک مرتبہ بولا
لگتا تو ایسا ہی ہے لیکن یہ پروگرام ڈرائیور کا نہیں ہے بلکہ ذرا پچھلی سیٹ سے بھی پیچھے کی جانب نظر بھر کر دیکھ لو۔ کوئی انکل نما انسان ہاتھ میں بڑی سی بندوق ہمارے سروں پر رکھے ہوئے ہیں۔ جمال نے نہایت سکون سے جواب دیا۔
ارے انکل۔ اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے کونسا سیر کرنے سے انکار کیا تھا۔
خیر آپ کی مرضی۔ جمال نے انکل کو اطمینان سے دیکھتے ہوئے کہا
وہ تینوں جس اطمینان بھرے لہجے میں اس صورتِ حال میں بھی پر سکون اور کسی حد تک مذاق کے موڈ میں دکھائی دے رہے تھے اس پر گن تانے بیٹھے انکل کی آنکھوں میں کافی حیرانی ظاہر ہو رہی تھی لیکن ردِ عمل کے طور پر اس نے کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
اصل میں تو جمال اور کمال یہ چاہتے تھے کہ وہ منہ سے کچھ بولے تو شاید وہ اسے پہچان ہی جائیں۔ یہاں کئی ملازمین اور مزارعوں سے وہ بات چیت تو کر ہی چکے تھے لیکن لگتا ہے کہ یہ انکل بھی کافی سمجھدار رہے ہونگے اور بول کر وہ اپنا پول نہیں کھولنا چاہتے تھے۔
چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا، آنکھوں پر سیاہ شیشوں کی عینک چیخ چیخ کر گواہی دے رہی تھی کہ اس کو جمال اور کمال نے یقیناً کہیں دیکھا ہوا تھا۔ البتہ فاطمہ شاید اس سے واقف نہیں تھی ورنہ وہ بدن سے پھوٹنے والی مہک سے انکل کو پہچان ہی جاتی۔ فاطمہ کے خفیہ اشارے بتا رہے تھے کہ وہ انکل بندوق سے بالکل ہی نا واقف ہے البتہ پھر کبھی اور کہیں بھی ان سے ملاقات ہوگی تو اس کے لیے میں نے اپنے ذہن میں ان کے جسم کی مخصوص مہک کو محفوظ کر لیا ہے۔
جہاں امہیں لے جانا تھا وہ جگہ بالکل ہی قریب تھی اس لیے انہیں لے جانے والوں کی منزل مقصود پر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
کوئی کتنا بھی جری کیوں نہ ہو، ایک معمولی گن کے آگے بھی وہ صرف اپنے آپ کو حالات کے حوالے ہی کر سکتا ہے سو تینوں نے خاموشی کے ساتھ ہر ہدایت کو فالو کرنا شروع کر دیا۔ کہا گیا چلو وہ اس سمت چل پڑے جس جانب چلنے کو کہا گیا۔ کہا گیا مڑ جاؤ تو وہ مڑ گئے۔ جہاں مڑے وہاں ویران زمین پر ایک بڑے سارے کمرے نما عمارت بنی ہوئی تھی۔ ڈرائیور بھی کسی مشینی انداز میں ان کے احکامات پر عمل پیرا تھا۔ اس کے بدن کی کپکپاہٹ اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ کوئی کام بھی اپنی مرضی کے مطابق نہیں کر رہا ہے۔ گویا ان کے ساتھ یہ شریف ڈرائیور بھی ممکن ہے آسمان کی سیر پر بھیج دیا جائے گا۔
ڈرائیور کو چابی تھمائی گئی اور کہا گیا کہ وہ کمرے کا دروازہ کھولے۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے بڑی مشکل کے ساتھ دروازہ گھولا۔ کمرہ نیم تاریک تھا جس کی وجہ سے ان کو یہ احساس تو ہوا کہ ان سے پہلے بھی کوئی کمرے میں موجود ہے لیکن کون ہے؟، تو تو اس وقت پتا چلا جب آنکھیں کم روشنی میں دیکھنے کی عادی ہو گئیں۔ جمال اور کمال تو کم روشنی کے عادی ہونے کے بعد کمرے میں موجود شخصیت کو پہچاننے کے قابل ہوئے لیکن فاطمہ نے ہلکی سرگوشی کے ساتھ جمال اور کمال کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ لگتا ہے چوہدری ایاز علی اس کمرے میں موجود ہیں۔ کیونکہ فاطمہ سمیت وہ تینوں ان کو دیکھ نہیں سکتے تھے اسی لیے چوہدری ایاز علی کی یہاں موجودگی ان کے لیے ایک دھماکہ سی لگ رہی تھی اور فوری طور پر جس گمان نے ان کے دلوں میں گھر کیا تھا وہ بد گمانی تھی۔ یوں لگا کہ اس سجویشن کا مرکزی کردار شاید چوہدری ایاز علی ہی ہیں۔
کم روشنی میں جب آنکھیں اس قابل ہوئیں کہ وہ ایک دوسرے کی شکل پہچان سکیں تو وہ تینوں یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے تھے کہ چوہدری ایاز علی ننگے فرش پر بندھے ہاتھ پاؤں کے ساتھ پڑے ہیں۔ ان کے جسم پر ایسے نشانات بخوبی دیکھے جا سکتے تھے جیسے ان پر تشدد بھی کیا گیا ہو۔ (جاری ہے)