اقبال نامہ

51

سنو پیارے بچو کہانی سنو
یہ اک داستاں جاودانی سنو
کہانی ہے اک شہر پنجاب کی
کہانی ہے اقبالِ نایاب کی
خدا دار ایک شیخِ جنت مقام
کہ نور محمد ہوا جن کا نام
خدا کی عطا ان کے دو لال تھے
کلاں تھے ’’عطا‘‘ خرد ’’اقبال‘‘ تھے
بلندی پہ تھا بخت اقبال کا
ستارہ منور تھا اس لال کا
اٹھارہ کا سن تھا ستتر کا سال
کہ پیدا ہوا یہ سراپا کمال
تھے استاد اک مولوی میر حسن
لیا آپ نے ان سے درسِ کہن
لگائی جو رہوارِ ہمت پہ چوٹ
چلے آئے لاہور از سیالکوٹ
تشفی کے لیکن بجھے جب دیے
تو لاہور سے کیمبرج چل دیے
براؤن، نکلسن، ٹگرٹ، سارلی
نمایاں ملے ان کو استاد بھی
تھے سر آرنلڈ ان میں سب سے شہیر
وہ دنیائے علم و ادب کے امیر
بڑھی اور جب علم کی تشنگی
گئے بہر تعلیم تا جرمنی
رقم کی وہاں فلسفے پر کتاب
تو اس پر ملا ڈاکٹر کا خطاب
مگر تشنگی اور بڑھتی گئی
تو لندن سے کی پاس بیرسٹری
رہے شہر لندن میں ایسے مقیم
کہ دربارِ فرعون میں جوں کلیم
ولایت سے جب ڈاکٹر ہو گئے
نوازا حکومت نے، سر ہو گئے
وہ انیس سو پانچ سے آٹھ تک
رہے ارضِ یورپ پہ بن کر فلک
مگر جب کھلے اس تمدن کے عیب
وہ حاضر کی دنیا یہ دنیائے غیب
ہوئے جب عیاں بھید سب ناشکیب
تمدن تفنن کے جھوٹے فریب
تو بیزار مغرب ہوئے اس قدر
پلٹ کر نہ دیکھا اُدھر عمر بھر
اثر تھا یہ مغرب کے طوفان کا
مسلماں کو جس نے مسلماں کیا
غرض جب کھلا حق، ہوئے شرمسار
کلامِ الٰہی پڑھا اشکبار
کھلے دل پہ اسرار ہائے ازل
تو پھر بحرِ عرفاں میں ڈوبی غزل
تو پھر عارض و زلف و لب کھو گئے
روایاتِ کہنہ کے ڈھب کھو گئے
ہوئی شاعری پھر بلوغ المرام
قلم سے لیا تیر و نشتر کا کام
وہ پیغام مشرق زبورِ عجم
’’رموزِ خودی بیخودی‘‘ کا علم
سنائی زمانے کو بانگِ درا
کہ بیدار ہو نیند سے قافلہ
بتایا ہر اک راز تفصیل سے
اڑے عرش تک بالِ جبریل سے
خوشا! ضربِ مومن وہ ضربِ کلیم
ہو جس ضرب سے قصرِ باطل دو نیم
دیا قوم کو ارمغانِ حجاز
وفا کا ترانہ محبت کا ساز
غرض کیا بتاؤں وہ کیا شخص تھا
وہ افکارِ قرآں کا اک عکس تھا
بالآخر ہوئی عمر اکسٹھ برس
بجا موت کے کارواں کا جرس
یہ خورشید انیس سو اڑتیس کو
چھپا صبح اپریل اکیس کو
قفس سے اڑا عندلیبِ حجاز
سوئے خلد، مشرق کا دانائے راز
چراغِ خودی کا نگہباں گیا
قلندر تھا اک شعلہ ساماں گیا
جو کہتا تھا لوگو مکاں اور ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور ہیں
وہ کہتا تھا تم صقر و شاہین ہو
تو پھر کیوں غلامِ سلاطین ہو
کہاں فکرِ عصفور شاہیں کہاں
خدا کا جہاں سب تمہارا جہاں
وہ کرتا تھا اس ضربِ مومن کی بات
گریں منہ کے بل جس سے لات و منات
روایاتِ شیخ و برہمن سے بیر
وہ من کا مسافر حرم ہو کہ دیر
وہ تن کی رفاقت سے بیزار سا
وہ من کی تمازت سے تلوار سا
وہ دستور منصور و سرمد کا پاس
وہ ملبوسیِ فقر سے خوش لباس
سکھائی زمانے کو نکتے کی بات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
سپر عقل ہے عشق شمشیر ہے
یہ دنیا تو مومن کی جاگیر ہے
کہا جس نے بے باک انداز سے
’’لڑا دو ممولے کو شہباز سے‘‘
دعا کی کہ اے خالقِ بحر و بر!
جوانوں کو دے میری آہِ سحر
عطا کر انھیں وہ جنونِ عمل
ہوں شق ان کی ٹھوکر سے دشت و جبل
نظرِ عشق و مستی میں سرشار کر
خرد کے تماشوں سے بیزار کر
وہ رستہ دکھا ان کو پروردگار
چلے جس پہ تیرے اطاعت شعار
ترا ہو کے رہنے کی توفیق دے
’’دلِ مرتضیٰ سوزِ صدیق دے‘‘
خدا رحم فرمائے اقبال پر
جو روتا رہا قوم کے حال پر
محبت میں بزمیؔ نے جو کچھ کہا
کہو پیارے بچو وہ کیسا لگا

حصہ