آن لائن گیم کھیلنے کے بعد سب وے سرفنگ،جان پر کھیلنے کا جنون

77

انٹرنیٹ وہ کھونٹا ہے جس سے ہم سب بندھ گئے ہیں یا باندھ دیے گئے ہیں۔ انٹرنیٹ چونکہ زندگی کے ہر معاملے سے جُڑا ہوا ہے اِس لیے اِس سے صرفِ نظر کسی طور ممکن نہیں۔ ہاں، قدم قدم پر ’’سرفِ نظر‘‘ ضرور ہے، یعنی زندگی میں اب صرف سرفنگ رہ گئی ہے۔ سرفنگ یعنی موج پر سواری۔ انٹرنیٹ کے سمندر میں موجوں کی کمی نہیں اور سرفنگ کے شوقین بھی کم نہیں۔ گویا

دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

انٹرنیٹ چونکہ ہماری زندگی کا حصہ ہے اس لیے اِس کی راہ مسدود کرنے سے بڑھ کر اہمیت اِس بات کی ہے کہ ہم خود کو چند حدود میں رکھنا سیکھیں۔ یہ کام بہت مشکل ہے مگر خیر، ناممکن نہیں۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ آرہا ہے وہ ہماری فکری ساخت پر اثرانداز ہورہا ہے۔ بہت کچھ ہے جو غیر محسوس طور پر ہماری ذہنی ساخت کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں ذہنیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ہر نئی چیز اچھی لگتی ہے اور انٹرنیٹ پر تو جدت کا بازار گرم ہے، کئی میلے لگے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ یہی حال انٹرنیٹ کے دیوانوں کا بھی ہے۔ انہیں بھی روز کچھ نہ کچھ ایسا مل ہی جاتا ہے جو اُن کی پسند کا ہوتا ہے، پھر چاہے اُس سے فائدہ پہنچے یا نقصان۔

کیا ہم اِس تلخ حقیقت کو نظرانداز کرسکتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے جن لوگوں کو بگاڑا ہے اُن میں سے زیادہ تعداد نئی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی ہے؟ یہ ہر معاشرے کا یعنی عالمگیر مسئلہ بن چکا ہے۔ کم و بیش ہر معاشرے میں انٹرنیٹ کے ہاتھوں بگڑنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ لڑکے زیادہ بگڑے ہوئے ہیں یا لڑکیاں؟ دونوں ہی میں خطرناک اور تباہ کن حد تک بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔

پس ماندہ معاشروں کا معاملہ بہت بُرا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں نئی نسل بگڑ بھی جائے تو معیشت اور معاشرت اِتنی مضبوط ہے، سیاسی نظام میں اِتنا دوام و استحکام ہے اور ریاستی اداروں میں اِتنی توانائی ہے کہ وہ معاملے کو اچھی طرح سنبھال سکتے ہیں۔ پس ماندہ معاشروں میں نئی نسل ہی پر تو مدار ہوتا ہے۔ قوم کو اگر ترقی کرنی ہے تو نئی نسل کے ذریعے ہی کرتی ہے۔ جن سے قومی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے کی امید وابستہ کی جائے وہی اگر بگڑ جائیں تو لگ چکی کشتی کنارے سے۔

پاکستان سمیت تمام ہی پس ماندہ معاشروں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال وبائی شکل اختیار کرچکا ہے اور نئی نسل اِس میں بہت بُری طرح گم ہوچکی ہے۔ والدین اور اساتذہ کی طرف سے بار بار متوجہ کیے جانے پر بھی انٹرنیٹ بالعموم اور سوشل میڈیا بالخصوص استعمال کرنے کے معاملے میں وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی جس کی توقع وابستہ کی جاتی ہے۔

سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے جہاں اور بہت سی ذہنی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں وہیں فضول کی دِلیری بھی خوب پروان چڑھائی ہے۔ سوشل میڈیا کا پورا دھندا ہی دکھاوے کا ہے۔ لوگ وڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں تو دکھاوے کے لیے۔ کوئی تقریر جھاڑتا ہے تو صرف اس لیے کہ لوگ سُنیں، پسند کریں، سراہیں۔ کوئی کسی تقریب کی ریل اپ لوڈ کرتا ہے تو صرف اس لیے کہ اُس کے لیے لوگوں کی توجہ پائے۔ دکھاوے کے اس کھیل میں نئی نسل کب بگڑ جاتی ہے کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔

نئی نسل میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ غور و فکر کی صلاحیت بھی۔ بات صلاحیت کی ہورہی ہے، رجحان کی نہیں۔ نئی نسل بہت کچھ کرنا چاہتی ہے بلکہ کردکھانے کی متمنی ہوتی ہے۔ اپنے وجود کو ثابت کرنے کی جتنی لگن نئی نسل میں پائی جاتی ہے اُتنی کسی اور نسل میں نہیں پائی جاتی۔ ادھیڑ عمر کے لوگ خانہ و اہلِ خانہ کے بکھیڑوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ معمر افراد کا جوش و خروش تو ختم ہی ہوچکا ہوتا ہے۔ بچے کچھ زیادہ کردکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ صرف نئی نسل ہے جس میں مہم جوئی کا عنصر قابلِ رشک حد تک پایا جاتا ہے۔ وہ مہم جوئی کا حق بھی ادا کرسکتی ہے۔

انٹرنیٹ نے نئی نسل کو دِلیر بنایا ہے مگر افسوس کہ بیشتر معاملات میں یہ دِلیری کسی کام کی نہیں ہوتی اور ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جو بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے ہاں بھی نئی نسل غیر ضروری اور لاحاصل دِلیری کے جال میں پھنس چکی ہے۔ بہت سے نوجوان ایسا کچھ کردکھانا چاہتے ہیں جس کی کوئی منطق ہوتی ہے نہ جواز۔

ہمارے ہاں انٹرنیٹ پر دیکھ دیکھ کر نوجوان بہت کچھ کرتے ہیں۔ کوئی آن لائن گیم کی بنیاد پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور کوئی انٹرنیٹ پر ون وہیلنگ اور دیگر ’’شجاعت آمیز‘‘ سرگرمیوں سے تحریک پاکر خطروں سے کھیلتا ہے۔ خطروں سے کھیلنے کے نئے نئے طریقے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک طریقہ آج کل بہت تیزی سے مقبول ہورہا ہے جسے سب وے سرفنگ کہا جاتا ہے۔ جن ملکوں میں زیرِزمین ریلوے ہے وہ مہم جوئی کے اس انداز سے اچھی طرح واقف ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا بھر میں سب وے سرفنگ کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے۔ یہ رجحان جنون کی شکل میں ہے، اس لیے اس پر قابو پانے میں بھی متعلقہ اداروں کو شدید الجھن کا سامنا ہے۔ نیویارک میں سب وے سرفنگ کے ہاتھوں ایک سال میں 7 اموات واقع ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں ایک 13 سالہ لڑکی اس کا شکار ہوئی ہے۔ سب وے سرفنگ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے جو سوشل میڈیا پر نئی نسل کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس خطرناک چیلنجنگ گیم میں چلتی ٹرین کی چھت پر سفر کرنا ہوتا ہے، اور جو گرے بغیر سفر کرلے وہ فاتح قرار پاتا ہے۔ جی ہاں، چلتی ٹرین کی چھت پر۔

سب وے سرفنگ کئی سال سے ہورہی ہے مگر اب یہ تیزی سے جنون کی شکل اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس کی وڈیوز بڑے پیمانے پر اپ لوڈ کی جارہی ہیں۔ یہ سب کچھ انتہائی خطرناک ہونے کے باوجود نئی نسل کی توجہ تیزی سے حاصل کررہا ہے۔ حکومت نے معاملے پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی سب وے سرفنگ کی وڈیوز ڈیلیٹ کرنے میں مصروف ہیں، مگر پھر یہ ٹرینڈ جڑ پکڑتا جارہا ہے۔

سب وے سرفنگ کو غیر قانونی سرگرمی قرار دیا جاچکا ہے۔ اس حوالے سے گرفتاریاں بھی کی جارہی ہیں مگر اس کے باوجود یہ رجحان ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ سب وے سرفنگ کی سب سے بڑی پیچیدگی یہ ہے کہ اس میں جان جانے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ جو گرنے پر بچ بھی جاتے ہیں وہ شدید زخمی تو ہو ہی جاتے ہیں۔

نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ نے بتایا ہے کہ ایک سال کے دوران بیسیوں نوجوان زخمی ہوئے ہیں اور 181 نوجوانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ برس 5 ہلاکتیں ہوئی تھیں اور 118 لڑکوں، لڑکیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان سب پر انتہائی لاپروائی سے ایک خطرناک، بلکہ ہلاکت خیز سرگرمی میں حصہ لینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ قانونی کارروائی جاری ہے۔

حال ہی میں نیویارک کے علاقے کوئینز میں ایک زیرِزمین ٹرین کی چھت پر دو لڑکیاں سفر کرتی ہوئی پائی گئیں۔ ایک تو گر کر ہلاک ہوگئی اور دوسری شدید زخمی ہوئی جس کا علاج کرایا جارہا ہے۔ ہلاک ہونے والی لڑکی بوگیوں کے درمیان آگئی تھی۔

نیو یارک پولیس سب وے سرفنگ سے اس قدر پریشان ہے کہ اُس نے نئی نسل کو اس سے باز رکھنے کے لیے کئی بار آگہی مہم چلائی ہے اور عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ ایسا کرنے والوں کو روکیں اور روکنے میں پولیس کی مدد کریں۔

نیویارک کی میٹروپولیٹن ٹرانسپورٹیشن اتھارٹی نے سوشل میڈیا سائٹس یوٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹا گرام وغیرہ کے ساتھ مل کر بھی کام کیا ہے۔ ان تمام سوشل ویب پورٹلز سے سب وے سرفنگ کی 10 ہزار سے زائد پوسٹیں اور وڈیوز ڈیلیٹ کی گئی ہیں۔ میٹا، گوگل اور ٹک ٹاک نے نیویارک پولیس کو سب وے سرفنگ کے خلاف مہم چلانے کے لیے مفت اسپیس بھی دی ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سوشل میڈیا پر سب وے سرفنگ اور دیگر خطرناک رجحانات کو دیکھ کر نئی نسل تحریک لیتی ہے اور اپنی جان پر کھیل جاتی ہے، اس لیے ایسی سرگرمیوں میں مارے جانے والے متعدد نوجوانوں کے والدین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خلاف بھی مقدمات دائر کیے ہیں۔

ویئل کارنیل میڈیکل کالج میں سائیکاٹری کی کلینکل ایسوسی ایٹ پروفیسر اور نیویارک پریزبائٹیرین اسپتال کے اٹینڈنگ سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر گیل سالٹز کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے نئی نسل کے جوش و خروش کو نئی جہت دی ہے۔ نئی نسل میں غیر معمولی جذبہ تو ہمیشہ ہی پایا جاتا رہا ہے مگر اب جان پر کھیل جانے کا جنون خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہ نئی قسم کی دِلیری ہے جو نئی نسل کو انتہائی خطرناک چیلنج قبول کرنے کے نام پر ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل رہی ہے۔ جس طور بعض آن لائن گیم نئی نسل کی جان لے رہے ہیں بالکل اُسی طور سوشل میڈیا کے ذریعے مقبولیت سے ہم کنار ہونے والے نئے نئے چیلنج بھی نئی نسل کے لیے ہلاکت کے گڑھے کو مزید وسیع و عمیق کررہے ہیں۔ سب کو صرف ایک بات کی فکر ہے… یہ کہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ لوگ متوجہ ہوں۔ توجہ پانے کا جنون جان پر کھیل جانے کی راہ بھی سُجھارہا ہے۔ نئی نسل کو اس بات کی فکر بہت زیادہ لاحق ہے کہ بہت تیزی سے کوئی واضح شناخت قائم ہو اور معاشرہ اُس شناخت کو قبول بھی کرے۔

سب وے سرفنگ کی روک تھام کے لیے نیو یارک پولیس اب ڈرون سے بھی مدد لے رہی ہے۔ سب وے ٹریک پر ڈرون بھی گھومتے رہتے ہیں تاکہ اگر کوئی مہم جوئی کررہا ہو تو اُس کا فوری طور پر سراغ لگاکر اُسے گرفتار کیا جاسکے۔ اب تک مجموعی کیفیت یہ رہی ہے کہ نوجوانوں کو اس خطرناک رجحان سے دور رکھا جائے۔ گرفتاری کو زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی کیونکہ قانونی کارروائی کی صورت میں نوجوانوں کا مستقبل ہی داؤ پر لگ جاتا ہے۔ پولیس ڈپارٹمنٹ جان پر کھیلنے والوں کی وڈیوز بناکر اُن کے والدین کو دکھاتا ہے تاکہ وہ خود ہی اس رجحان کی روک تھام میں فیصلہ کن کردار ادا کریں۔

ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے سب وے سرفنگ کی روک تھام میں اچھی خاصی مدد ملی ہے۔ والدین تک پیغام پہنچانا بھی ممکن ہوا ہے۔ وڈیوز انہیں دکھانے سے نئی نسل کو روکنے کا جذبہ اُن میں بھی نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے۔

میٹروپولیٹن ٹرانسپورٹیشن اتھارٹی کے ایک ترجمان نے سی این این کو بتایا ہے کہ نیو یارک کے سب وے میں ٹرین بالعموم 50 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے جیسے ہی سب وے سرفرز کا پتا چلتا ہے، اگلے اسٹیشن پر ٹرین روک کر انہیں چھت سے اتارا جاتا ہے۔ اب تک سیکڑوں نوجوانوں کو اس طور سب وے سرفنگ سے باز رکھنے میں مدد ملی ہے۔

نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز بھی سب وے سرفنگ کے رجحان پر بہت افسردہ ہیں۔ ایک اور بچی کی موت نے انہیں بھی رنجیدہ کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام میٹروپولیٹن ادارے تنہا نہیں کرسکتے، اس کے لیے نیویارک کے شہریوں کو کھل کر ساتھ دینا ہوگا اور سب وے سرفنگ سمیت تمام خطرناک رجحانات کی بیخ کُنی کرنا ہوگی۔ ایرک ایڈمز نئی نسل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر بہت سے چیلنج پائے جاتے ہیں۔ نئی نسل نام کمانے کے چکر میں اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتی اور کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ کبھی آسان چیلنج ہوا کرتے تھے مگر اب سوشل میڈیا پر ایسے چیلنج دکھائی دیتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہیں اور نئی نسل کی جان کے درپے ہیں۔ ایرک ایڈمز نئی نسل سے کہتے ہیں کہ کوئی بھی سوشل میڈیا پوسٹ قدر و قیمت میں اُن کی زندگی اور مستقبل کے مساوی نہیں ہوسکتی۔

انسٹا گرام اور فیس بک پر سب وے سرفنگ اور دیگر خطرناک چیلنجز کی وڈیوز جرائم کے فروغ اور نقصان دہ معاملات کی رابطہ کاری سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب قرار پاسکتی ہیں۔ یہ بات میٹا کے سی ای او نے سی این این سے گفتگو میں بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ انتہائی خطرناک سرگرمیوں سے متعلق جتنی ریلیز اور مواد ہے وہ ان کا ادارہ ڈیلیٹ کردیتا ہے تاکہ کسی کو جان پر کھیلنے کی تحریک نہ ملے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق میٹا نے نیویارک کے اداروں کے ساتھ مل کر خطرناک وڈیوز ڈیلیٹ کرنے میں کبھی دیر نہیں لگائی۔

ٹک ٹاک اور گوگل یا یوٹیوب پر بھی یہ پالیسی موجود ہے کہ جن وڈیوز سے نئی نسل کو جان پر کھیل کر کوئی چیلنج جیتنے کی تحریک ملے اُسے کسی بھی حال میں برداشت نہ کیا جائے۔ یہ دونوں ادارے اپنے اپنے پورٹل سے ایسی ساری وڈیوز ڈیلیٹ کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر گیل سالٹز کہتی ہیں کہ نئی نسل کو تو متنازع امور اور بدنامی میں بھی اپنا بھلا دکھائی دیتا ہے کہ چلیے، لوگوں کو ہمارے بارے میں پتا تو چلا۔ اُنہیں کمنٹس چاہئیں، زیادہ سے زیادہ لائکس کی تمنا ہے اور بس۔ نوجوان جب کسی کو کسی بھی فضول سرگرمی کی بنیاد پر شہرت بٹورتے دیکھتے ہیں تو وہ خود بھی کچھ ویسا ہی کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر گیل سالٹز کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کو اندازہ ہو کہ وہ کس طور اپنی زندگی داؤ پر لگارہی ہے۔ انہیں حقیقی زندگی کے اعداد و شمار دینا بہت اہم ہے تاکہ اندازہ ہو کہ وہ جس راستے پر چل رہے ہیں وہ جاتا کہاں ہے اور منزل پر آنے کے لیے کچھ ہے کہ نہیں۔

ہمارے ہاں بھی جان لیوا سرگرمیوں کو فروغ مل رہا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو متوجہ ہوکر قانون سازی بھی کرنی چاہیے اور عوامی سطح پر آگہی مہم بھی چلانی چاہیے۔

حصہ