مہک کا راز

35

لنچ ابھی شروع ہی ہوا چاہتا تھا کہ وہ شخصیت جو تقریباً پہچانی جا چکی تھی اور جس کے پہچان لیے جانے کے بعد سے وہ تینوں بھی اس کی نظروں میں مکمل طریقے سے آ چکے تھے، فاطمہ، جمال اور کمال سخت قسم کا خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ اچانک اپنی نشست سے اس انداز میں اٹھی جیسے ان کا واش روم جانا ضروری ہو گیا ہے۔ شاید وہ ابھی تک اس اطمینان میں تھے کہ جمال اور کمال ان کو پہچان لینے میں ناکام ہیں۔ فاطمہ، جمال اور کمال کی یہی تو ایک خدادا صلاحیت ایسی تھی کہ ان کے چہروں، چونک جانے کے انداز یا کسی بھی تاثر سے یہ اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی شاطر سے شاطر انسان بھی یہ سمجھ سکے کہ وہ کس بات پر حیرت کا شکار ہوئے ہونگے۔

جس سمت واشروموں کا سلسلہ تھا ٹھیک آخری واش روم کے بعد ایک راستہ مطبخ کی جانب بھی جاتا تھا لیکن اگر کوئی واش روموں کے سلسلے کے آخری واش روم کی جانب جاتے ہوئے مطبخ کی جانب مڑ جائے تو اس کا یوں مڑ جانا کسی کے علم میں اس لیے آنا آسان نہیں تھا کہ ایک دیوار آڑ بن جاتی تھی۔ لیکن اس پر نظر رکھنے والی یہ عام آنکھیں نہیں تھیں بلکہ جمال اور کمال کی آنکھیں تھیں جو اس بات کو بھانپ چکی تھی کہ جانے والا اپنا راستہ بدل چکا ہے۔ بے شک جمال اور کمال جسمانی لحاظ سے اسے راستہ بدلتے نہیں دیکھ سکے لیکن مخالف سمت پڑنے والا سایہ ان کے لیے ہوشیار ہونے کا واضح اشارہ چھوڑ رہا تھا تھا جو چند ہی سیکنڈ بعد ایک سے دو ہو چکا تھا۔ دونوں سائے چند سیکنڈ ایک دوسرے سے ملے۔ یقیناً بات چیت بھی ہوئی ہوگی لیکن ان کے لیے جو بات بہت چونکا دینے والی تھی کہ وہ دونوں سائے ایک دوسرے کو کچھ دیتے اور لیتے محسوس ہوئے۔ اس کے فوراً بعد ایک سایہ غائب ہو گیا اور دوسرا شاید واش روم میں داخل ہو کر غائب ہو گیا۔

ایک دو منٹ بعد صاحب واپس آ گئے لیکن جمال اور کمال اندازہ لگا چکے تھے کہ صاحب نے بس ہاتھ ہی دھوئے ہیں کیونکہ واش روم میں گزارا جانے والا وقت بہت ہی کم تھا لیکن اگر کسی سے ملاقات والا وقت بھی شمار کر لیا جائے تو اتنا وقت ضرور لگ سکتا ہے جس میں کوئی اپنی ضرورت کو پورا کر سکے۔

جس انداز میں جمال اور کمال ہر ہر بات کے متعلق نہایت یقین کے ساتھ اندازے لگا رہے تھے اگر کسی کے سامنے یہی سارے اندازے رکھ دیئے جائیں تو ممکن ہے کہ سننے والا ان کو پیر فقیر مان کر ان کے ہاتھ پیر بھی چومنے لگ جاتے۔

کھانا سج چکا تھا۔ کئی اقسام کی ڈشیں سرو ہو چکی تھیں، ہر فرد کے سامنے منرل واٹر کی بوتلیں سجادی گئی تھیں۔ اسی دوران جمال فاطمہ کو ایک مخصوص اشارہ کر چکا تھا جس کی قوت شامہ بلا کی تھی اور اسنے اشاروں اشاروں میں کولڈ ڈرنک اور منرل واٹر کی بوتلوں کی جانب اشارہ کر دیا تھا کہ ان میں کچھ گڑبڑ ہے البتہ جو بوتلیں چوہدری ایاز علی کے سامنے رکھی تھیں ان سے فاطمہ مطمئن تھی۔ گویا وہ ناصرف پہچان لیے گئے ہیں بلکہ اب پہچان لینے والا ان کے خلاف کسی کاروائی کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔

ان کو اپنے خلاف رد عمل آنے کا خدشہ تو بہت پہلے ہی ہو چکا تھا لیکن سب اتنی جلد ہو جائے گا، اس کا اندازہ انہیں بالکل نہیں تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کیا ان کو ان بوتلوں سے کولڈ ڈرنک یا پانی پینا چاہیے یا نہیں۔ نہیں کی صورت کیا کچھ ہو سکتا ہے اور پی لینے کی صورت میں کس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ فیصلہ انھیں کھانے کے دوران ہی کرنا تھا۔

بہت سوچ کر جمال نے اشاروں سے سمجھایا کہ پینے کی کوئی شے بھی بالکل استعمال نہیں کرنی اس لیے کہ انہیں کچھ علم نہیں کہ بوتلوں میں کیا ملایا گیا ہے۔ اسی دوران ان کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح چمکا۔ جمال نے پانی کی بوتل اٹھائی اور اسے پینے کے لیے جیسے ہی کھولا تو وہ سیلڈ نہیں تھی۔ اس نے حیرت سے ان سیلڈ بوتل کو دیکھا۔ یہ سب اس نے کچھ اس اداکاری کے ساتھ کیا کہ سامنے بیٹھے سب صاحبان اور چوہدری صاحب بھی اس کی جانب متوجہ ہو گئے۔ دیکھنے والے سمجھ گئے کہ جمال کی بوتل ان سیلڈ تھی۔ اس نے کولڈ ڈرنک کی بوتل کھول نا چاہی تو وہ بھی ان سیلڈ تھی۔ اس نے سامنے کھڑے ویٹر کو اشارہ کیا۔ جب وہ قریب آیا تو جمال نے کہا کہ وہ ان کے لیے دوسری بوتل لے کر آئے۔ یہ بات اس نے کسی حد تک اونچی آواز میں کہی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی معلوم کرے کہ اس کی میز پر ان سیلڈ بوتلیں کیوں بھیجی گئی ہیں۔ وہ جا ہی رہا تھا کہ فاطمہ بھی کسی حد تک اونچی آواز میں بولی کہ جمال دیکھو میری بوتلیں بھی ان سیلڈ ہیں۔ ابھی وہ خاموش ہی ہوئی تھی کہ کمال بھی بول پڑا۔ سب ان کے بولنے پر جیسے چونک پڑے ہوں اور بے اختیار اپنی اپنی بوتلوں کو چیک کرنے لگے لیکن ان سب کی بوتلیں سیلڈ تھیں۔ جمال کے کسی حد تک اونچی اواز کے بعد فاطمہ اور جمال کے بولنے پر اکثر کی آنکھوں میں کچھ ایسا تاثر ابھر رہا تھا کہ جیسے یہ تینوں غیر مہذب سے ہوں لیکن جن سب نے اپنی اپنی بوتلوں کو سیلڈ پایا تو سب کے چہروں پر چھایا کسی حد تک ناگواری کا تاثر ختم ہو چکا تھا اور سب کے سب سوالیہ نظروں سے چوہدری ایاز علی کی جانب دیکھ رہے تھے جس چہرے پر شرمندگی اور غصے کے تاثرات کو صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔

جو شخصیت پہچان لی گئی تھی اس کے چہرے پر جیسے ایک رنگ آرہا تھا اور ایک رنگ جا رہا تھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ جو کھیل وہ کھیلنا چاہتا تھا وہ تو اب دم توڑ چکا ہے۔ اسے اس بات کا تو یقین تھا کہ اسے واش روم جانے کے بہانے کسی اور جانب جاتے کوئی بھی نہ دیکھ سکا ہوگا۔ یہاں اس کا آنا جانا بڑے عرصے سے تھا اور وہ یہاں کی ہر عمارت کے چپے چپے سے واقف تھا۔ اسے کیا خبر تھی کہ کہ بوتلوں کے ڈھکنے کھلے ہونا کوئی اتنی بڑی بات بھی بن سکتی ہے جس پر کوئی ہنگامے جیسی صورتِ حال جنم لے سکے گی۔

حصہ