ہم میں سے کون ہے جو ملاوٹ کے نام سے واقف نہ ہو۔ اس کا شاکی نہ ہو! دودھ میں ملاوٹ، سرخ مرچ میں ملاوٹ، چینی میں ملاوٹ، گھی میں ملاوٹ۔ غرض صبح کے ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک، ملاوٹ سے لبریز اشیا ہم اپنے حلق سے اتارتے رہتے ہیں جو بتدریج ہماری صحت و زندگی کی تباہی کا موجب بنتی ہیں۔ ملاوٹ کرنے والے معاشرے کے مجرم گردانے جاتے ہیں۔ جرم ثابت ہونے پر بسا اوقات قانون کے ہاتھوں سزا بھی پاتے ہیں۔ شریف اور مہذب لوگ ایسے مجرموں کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو خوراک میں ملاوٹ کرکے اپنے بھائی بندوں کی صحت و جان سے کھیلتے ہیں۔
لیکن کیا آپ نے کبھی اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ ہم سب بھی اپنی اپنی زندگی میں اس جرم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔
جی ہم بھی ملاوٹ کرتے ہیں، ایسی ملاوٹ کہ جس سے دوسروں کی خوشیوں کو تو گہن لگتا ہی لگتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ خود اپنی روحانی و دائمی زندگی کی فوز و فلاح کو بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ اس میں مرد وعورت کی تخصیص نہیں۔ ملاوٹ کی اس وادی میں تقریباً سب ہی اپنی اپنی ’’ہمت‘‘ کے مطابق لنگوٹ کس کر اترے ہوئے ہیں۔ آپ بھی، ہم بھی، زید بھی اور بکر بھی۔ قبل اس کے کہ آپ میں سے کوئی ہماری اس بات پر سیخ پا ہوکر ہم پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا سوچے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس ’’قولِ فرزانہ‘‘ کی مختلف حوالوں سے وضاحت کرکے ثابت کردیں کہ ہم سب اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح ملاوٹ جیسے جرم کے کس طرح مرتکب ہورہے ہیں۔
سب سے پہلے ماں کے رشتے کو ہی لیجیے۔ اگرچہ اپنے بچپن سے ہم سنتے آرہے ہیں کہ جہاں مامتا ہے وہاں قربانی ہے، ایثار ہے، بے لوث محبت ہے۔ یقینا آپ بھی اس سے متفق ہوں گے، لیکن عملی طور پر آج ہمارا معاشرہ جس زبوں حالی اور پست اخلاق کا منظر پیش کررہا ہے اس میں ماں جیسا مقدس رشتہ بھی بچ نہیں پاتا۔ ہمارے اخبارات آئے دن اس طرح کی شہ سرخیاں جماتے ہیں کہ ’’پانچ بچوںکی ماں اپنے آشنا کے ساتھ فرار‘‘ یا ’’ایک سنگ دل ماں نے اپنے دو بچوں کو نہر میں ڈبو دیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ذرا خدا لگتی کہیے یہ ماں کی مامتا میں ملاوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ ماں کا موضوع چھیڑا ہی ہے تو لگے ہاتھوں اونچے طبقے کی بیگمات کے روز و شب پر بھی ایمان داری سے ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ وہاں تو قدم قدم پر’’سوشل‘‘ اور ’’کلچرڈ‘‘ مامتا میں آپ کو ہزاروں ملاوٹیں ملیں گی۔
اسی طرح روزمرہ کے تعلقات میں ملاوٹ کرنا تو ہمارا معمول ہے۔ یقین نہ آئے تو ذرا غور سے اپنے گرد و پیش کا ایک جائزہ لے لیجیے۔ اللہ نے چاہا تو آپ کو کئی ایک ’’ملاوٹ اسپیشلسٹ‘‘ مل جائیں گے جو آپ سے پیار محبت کا اظہار تو خوب کریںگے مگر ساتھ ہی ساتھ اس پیار میں ریا کاری، حسد، جھوٹ اور بدخواہی کی ملاوٹ بھی موقع بہ موقع شامل کرتے جائیں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ’’فکر ہرکس بقدر ہمت اوست۔‘‘
ہمارے اپنے عزیزوں میں ایسے ملاوٹ اسپیشلسٹ تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں کہ جن سے ملیں تو لگتا ہے ہم سے زیادہ انہیں عزیز کوئی نہیں، اور عملاً کبھی کسی کام کے سلسلے میں ان سے سابقہ پیش آجائے تو پھر ان کے نزدیک ہم سے زیادہ بے گانہ کوئی نہیں ہوگا۔ گویا گفتار میں تو خلوص، پیار، ہمدردی سب درجہ اولیٰ پہ پہنچے ہوئے، مگر عمل کی رفتار میں آکر یہ سب صفات پیدل ہوجاتی ہیں بلکہ بے مروتی کے ہاتھوں ٹھٹھر کر جامد و ساکت ہوجاتی ہیں۔ یہ ملاوٹ ہی تو ہے۔
خواتین کی طرح مرد حضرات بھی اکثر ملاوٹ کے جرم کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ گھر میں وفا شعار بیوی کے باوجود دفتر میں اپنی آفس سیکرٹری سے اٹکھیلیاں کرنا، تاک جھانک کرنا، یہ سب ملاوٹ ہی تو ہے بیوی کے حقوق میں، اس کی وفا میں، اس کے تعلقات میں۔
اسی طرح کسی نہ کسی ذمہ داری پر متمکن ہوکر اس ذمہ داری کا صحیح حق ادا نہ کرنا، اس میں بے ایمانی، سستی اور کام چوری سے کام لینا، یہ سب ملاوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ پاک اور حلال روزی میں رزقِ حرام کی آمیزش کرنا بھی زیادہ تر مردوں کے حصے میں آتا ہے اور یہ ملاوٹ کی بدترین قسم ہے۔ اس لیے کہ حرام ذرائع سے حاصل کردہ رزق سے پرورش پانے والے اجسام لازماً دوزخ کا حصہ بنیںگے۔ کاش ایسے والدین اپنے بچوں کی طرف اس سوچ کے ساتھ ہی ایک بھرپور نگاہ ڈال لیا کریں کہ ہمارے یہ پیارے پیارے کومل کومل بچے آج حرام پیسے کی آسائشوں میں پرورش پاکر تنومند جوان تو بن جائیں گے مگر کل دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ سے انہیں کوئی نہ بچا سکے گا۔ شاید اس سوچ سے، اس اندازِ فکر سے ان کا مُردہ ضمیر بیدار ہوجائے اور وہ رزق حلال میں حرام کی ملاوٹ سے باز رہ کر اپنے جگر کے ٹکڑوں کے حقیقی خیر خواہ بن جائیں۔
یہ مرد حضرات سیاسی میدان میں بھی ملاوٹ و گراوٹ کے بدرجہ اتم شکار رہتے ہیں۔ اپنی حکومت بنانے یا بچانے کے لیے عوام کے یہ نمائندے اپنے ایمان و کردار میں بندوں کی خرید و فروخت کی ملاوٹ کرتے ہیں جسے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔
یوں غور کیا جائے تو لفظ ’’ملاوٹ‘‘ کے ڈانڈے بہت دور تک چلے جاتے ہیں۔ اپنے قومی و ملّی تشخص کی چادر پر مغربی تہذیب کی پیوند کاری بھی ملاوٹ کے زمرے میں آئے گی۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد جو اسلام نے نہایت واضح کردیے ہیں، ان میں اپنی پسند و ناپسند کو دخل دینا بھی ملاوٹ کی ایک قسم ہے۔ دین اور دنیا کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دینا یعنی ایک طرف ختم و درود، خیرات و زکوٰۃ اور تسبیح کا اہتمام کرنا اور دوسری طرف دنیا داری کی سب لذتوں اور خرافات سے بھی جی بھر کر لطف اندوز ہونا اپنی مسلمانیت میں ملاوٹ کرنا ہے۔ ذرا لحظہ بھر کو سوچیے، خود کو ٹٹولیے کہیں ہم پر بھی ملاوٹ کی ان تمام اقسام میں سے کوئی قسم لاگو تو نہیں ہورہی؟ خدانخواستہ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں فی الفور اس کا سدباب کرنا چاہیے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘