بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچّا باقی سب افسانے ہیں
مندرجہ بالا شعر کے خالق اسرار ناروی ہیںان کا پورا نام اسرار احمد تھا… اسرار ناروی کون تھے کب کہاں اور ’کیوں‘ پیدا ہوئے… ہندوستان کے شہر الٰہ آباد ضلع کے ایک گاؤں’ نارہ‘ میں 26 جولائی 1928 کو پیدا ہوئے ‘والد کا نام صفی اللہ تھا اور کیوں پیدا ہوئے؟ کا جواب ہے ’’جاسوسی کہانیاں لکھ کر خصوصاً نوجوان نسل کو خرافات اور لچر قسم کے لٹریچر سے محفوظ رکھنے کے لیے‘‘۔ شعر و ادب سے دل چسپی تھی لہٰذا کم عمری ہی سے شعر کہنے لگے۔ اُن کی خوش نصیبی کہ ان کے گھر میں خود ایک شاعر موجود تھے۔ اسرار ناروی کے ماموں نوح ناروی اپنے وقت کے معروف شاعر تھے ترنم سے غزل پڑھتے تھے‘ اُن کی غزل کا ایک مطلع جسے میں نے ایک مشاعرے میں ان کی زبانی سنا تھا‘ آج بھی میری یادداشتوں میں محفوظ ہے:
آنکھیں ہیں ستارے ہیں وقت ِخلش ِدل ہے
دن ہو تو گزر جائے رات آئے تو مشکل ہے
شہر الٰہ آباد میں عباس حسینی نام کے ایک شخص کا پریس تھا وہاں سے ’نکہت ‘نام کا ایک ماہنامہ رسالہ شائع ہوا کرتا تھا۔ اسرار ناروی کی غزلیں اور کبھی کبھی شگفتہ تحریریں اسی رسالے میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلتا رہا کہ اچانک اسرار ناروی نے ایک ’یو ٹرن‘ لیا۔ انہوں نے اسرار ناروی نام کو خیرباد کہا اور ایک نیا نام ’’ابنِ صفی‘‘ رکھ کر جاسوسی کہانیوں کے ساتھ نکہت رسالے میں داخل ہوئے۔ کہانیاں دل چسپ تھیں لہٰذا ابنِ صفی جلد ہی قارئین میں مقبول ہو گئے۔ عباس حسینی نے نکہت رسالے کو ایک ناول کی شکل دی اور ہر ماہ اس میں صرف ابنِ صفی کی ایک مکمل جاسوسی کہانی شائع ہونے لگی۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ’’عمران‘‘ ہوا کرتا تھا یعنی نکہت ناول عمران سیریز کے لیے وقف کر دیا گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ابنِ صفی نے دو نئے کردار پیدا کیے کرنل فریدی اور کیپٹن حمید۔ اس سیریز کے لیے عباس حسینی نے ایک نیا ناول ’جاسوسی دنیا‘ کے نام سے شائع کیا دونوں ناول کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی۔
1960 کی دہائی کی بات ہے‘ میرا طالب علمی کا دور تھا‘ بار بار کتب فروش کے یہاں جا کر دریافت کرتے تھے کہ ابنِ صفی کے ناول آگئے اور جب ناول ہاتھ میں آتا تو پھر ساری رات ناول پڑھنے میں گزر جاتی۔ رات کب اور کیسے گزری کچھ اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ ابنِ صفی کے ناول پڑھنے کاایک چسکا سا لگ گیا تھا، اس ’’مرض‘‘ میں صرف میں ہی مبتلا نہیں تھا بلکہ میرے ہم عمر لڑکے اور لڑکیاں بھی اس کے شکار تھے۔ اُس دور کے کہانی کار جو کہانیاں لکھتے تھے اس میں فحاشی بھی ہوا کرتی تھی شاید انہیں گمان تھا کہ’فحاشی‘ لکھ کر وہ قارئین میں زیادہ مقبول ہو جائیں گے اور ناول کی زیادہ فروخت سے زیادہ پیسے کمائیں گے مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔ ابنِ صفی نے تہیہ کر لیا تھا کہ ان کی کہانیاں فحاشی سے پاک ہوں گی اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔ اس دور کی نوجوان نسل پر ابنِ صفی کا احسانِ عظیم ہے کہ انہوں نے نوجوان نسل کو خرافات اور لچر قسم کے لٹریچر سے نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ صاف ستھرا لٹریچر تحریر کر کے ان کے کردار کو بھی پاکیزہ رکھا۔ قلم ایک زورآور ہتھیار کی مانند ہے‘ جو کام تلوار نہیں کر سکتی وہ کام قلم کے ذریعے انجام دیا جا سکتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ دانشورانِ ادب نے ابنِ صفی کو ادب میں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ اہل تھے مگر اللہ نے جو شہرت اور عزت انہیں بخشی وہ اس دور کے اکثر شعرا اور اُدباکو حاصل نہ ہو سکی۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب ابنِ صفی ایک طویل مدّت تک علیل رہنے کے بعد روبہ صحت ہوئے اور ان کا نیا ناول عمران سیریز کا ’ڈیڑھ متوالے‘ شائع ہوا تو ایک ہی رات میں اس کی ہزاروں کاپیاں ختم ہو گئیں۔ ناول کے صفحۂ اوّل پر میر انیس کا یہ شعر درج تھا:
لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
ابن ِ صفی جب تک بسترِ علالت پر رہے بہت سارے نقلی ابنِ صفیوں کے ناول بازار میں آگئے، موقع کی مناسبت سے میر انیس کا شعر بہت موزوں ہے‘ واقعی وہ سارے کے سارے خوشہ چیں ہی تھے۔ ان نقلی ابنِ صفیوں نے عمران، کرنل فریدی اور کیپٹن حمیدکے کرداروں کو مسخ کر دیا اور اسے ایسے بھونڈے اور گھٹیا انداز جس میں فحاشی بھی شامل تھی‘ پیش کیا کہ اسے پڑھ کر رونا آتا تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ ابنِ صفی جلد ہی صحت یاب ہو گئے اور ہم جیسے بہت سارے مداحوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس موقع پر مجھے ابنِ صفی یعنی اسرار ناروی کا ہی ایک شعر یاد آگیا‘ یہ شعر بھی ’ڈیڑھ متوالے‘ کے صفحۂ اوّل پر تحریر تھا:
کیا سمجھتے ہو جام خالی ہے
پھر چھلکنے لگے سبُو آؤ
ابن ِ صفی کے ناولوں کی خاص بات انہوں نے ہمیشہ بازاری قسم کے الفاظ اور جملوں سے گریز کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کا ناول گھروں میں بچے اور بڑے سب ہی پڑھتے تھے۔ ہر ناول کی شروعات ایسے ڈرامائی انداز سے کی جاتی تھی کہ آغاز سے ہی قاری کے لیے تجسس پیدا ہو جاتا تھا اور قاری کے لیے درمیان میں ناول چھوڑنا بہت مشکل ہوتا تھا لہٰذا جب تک ناول مکمل نہ ہو جائے قاری کو سکون نہیں ملتا تھا ۔قاری ناول پڑھنے میں اتنا محو ہوتا تھا کہ اگر پیچھے سے کوئی آکر اسے چٹکی کاٹ لے تو بھی شاید اسے احساس نہ ہو۔
انیسویں صدی میں’ طلسم ہوش رُبا‘ (داستانِ امیر حمزہ) نے اس دور کے نوجوانوں پر جو جادو جگایا تھا اسی طرح بیسویں صدی میں ابن ِ صفی کے ناولوں نے اس دور کے نوجوانوں پر اپنا جادو جگایا… ان دنوں میں طالب علم تھا‘ اگر میرے ہاتھ میں ابن ِ صفی کا ناول ہے تو بس یوں سمجھ لیں کہ ہوش رُبا والی کیفیت ہوتی تھی اماں بار بار آواز دے رہی ہوتی تھیں کہ بیٹا آجا کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے اور میرا جواب ہوتا تھا اماں بس ابھی آیا اور کھانا ٹھنڈا ہو چکا ہوتا تھا۔
ابن ِ صفی کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کوئی دوسرا ابنِ صفی آج تک پیدا نہ ہو سکا حالانکہ بہت سے اہلِ قلم نے کوشش کی مگر بقول ذوق
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
کوئی بھی لکھاری ابنِ صفی کے معیار تک نہ پہنچ سکا۔
’’تھے اور بھی دنیا میں لکھاری بہت اچھے
کہتے ہیں کہ ابن ِ صفی کا تھا اندازِ بیاں اور
کراچی میں رہتے ہوئے میری بدنصیبی کہ میں ابنِ صفی کی زیارت سے محروم رہا‘ البتہ ان کے صاحبزادے احمد صفی سے میری ملاقات رہی ہے ابنِ صفی 1980 میں 52 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے، 52 سال کی عمر ایسی کوئی زیادہ تو نہیں ہے مرد کے لیے تو یہ جوانی کی عمر ہے۔ یوسف خان المعروف دلیپ کمار 98 سال تک زندہ رہے، شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر 90 سال کی عمر تک بادشاہت کرتے رہے، ہو سکتا ہے ابنِ صفی اللہ کو زیادہ پسند ہوں اسی لیے اللہ میاں نے انہیں جلدی بلا لیا ہو۔اب اسے بھی حسنِ اتفاق ہی کہہ لیجیے کہ ان کی دنیا میں آمد اور رخصتی کی تاریخ ایک ہی ہے یعنی 26 جولائی۔ آخر میں علامہ اقبال کے ایک شعر سے بات ختم کرتا ہوں:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا