اعجاز رحمانی قوم کا ایک اہم شاعر

119

(وفاق مورخہ 26 اکتوبر 2019 پر لکھی گئی ایک تحریر)

یہ 1980ء کے موسم سرما کی ایک شام تھی، دبئی کریک پر واقع عالیشان ہوٹل شیرٹن کے وسیع و عریض ہال میں دبئی کی تاریخ کے پہلے عالمی اردو مشاعرے کی محفل سجی تھی،اس میں اُس وقت کے برصغیر کے مایہ ناز اور بزرگ شعراء شریک تھے، ان میں کلیم احمد عاجز، حفیظ میرٹھی، جگن ناتھ آزاد، فنا نظامی کانپوری، شاعر لکھنوی، قتیل شفائی، کلیم عثمانی، اقبال صفی پوری، احمد ندیم قاسمی، دلاور فگار، سید اقبال عظیم جیسے عظیم شاعر حاضر تھے۔ یہ مشاعرے کی تاریخ کا ایک ایسا معیاری مشاعرہ تھا، جس کے بعد نہ صرف یہاں بلکہ شاید برصغیر میں بھی ایسی کہکشاں دوبارہ نہیں سجی، کیونکہ چند برس میں یہ کہکشاں ٹوٹنے لگی، اور اس محفل کو رونق بخشنے والے یہ شاعر جہاں ایک طرف اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے مشاعروں میں شرکت سے معذور ہونے لگے، تو دوسری طرف ان کی بڑی تعداد ایک عشرے کے اندر دارِ فانی سے کوچ کرگئی۔ اس مشاعرے کی نظامت قادرالکلام اور استاد شاعر حضرت راغب مرادآبادی کے حصے میں آئی تھی، جن کی برجستہ گوئی اور عروض پر قدرت کی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے، وہ بروقت شعراء کے نام پر مشتمل اشعار ڈھال کر انہیں دعوتِ سخن دے رہے تھے۔ حفظِ مراتب کو دیکھتے ہوئے میزبان مقامی شعراء کے کلام سے اس محفل کا آغاز ہوا۔ اردو مشاعرے کی روایت اس سے پہلے دبئی میں کہاں تھی! حاضرین میں سے ایک بڑی تعداد کو معلوم بھی نہیں تھا کہ مشاعرے کی بھی کوئی تہذیب ہوا کرتی ہے۔ اب آوازے کسے جانے لگے، ایسی ہوٹنگ ہونے لگی کہ الامان الحفیظ۔ ہڑبونگ ایسی مچی کہ منتظمین مشاعرہ آئندہ ایسی کوئی محفل سجانے سے توبہ کرلیں۔ اور جب یہ بے ہودگی اپنے عروج پر تھی اور کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ایسے میں ناظمِ مشاعرہ نے ایک ایسے شاعر کو آواز دی جس کی عمر چالیس سے کچھ ہی متجاوز تھی، چہرے مہرے پر جوانی کے آثار نمایاں تھے، اور غالباً مہمان شعراء میں وہ سب سے کم عمر تھے، یہ تھے اعجاز رحمانی، جن کا مکمل نام سید اعجاز علی رحمانی تھا۔ ناظمِ مشاعرہ نے سامعین کی آوازوں کی گونج میں مہمان شاعر کے بارے میں ایک شعر پڑھ کر صرف اتنا بتا یا کہ کراچی سے آئے ہیں، اور شاعرِ موصوف نے بغیر کسی تمہید ، دا د طلبی ، یا شاعرانہ تکلفات کے اپنی غزل پیش کردی، جس کے پہلے ہی شعر نے سامعین کو چوکنا کردیا، اور یک لخت ہوٹنگ بند ہوکر واہ واہ اور دوبارہ ارشاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ مشاعرے کا رنگ یکسر بد ل گیا۔ اعجاز رحمانی نے اپنی باری اس غزل سے شروع کی تھی:۔

جنوں کا رقص تو ہر انجمن میں جاری ہے
فرازِ دار پہ لیکن سکوت طاری ہے
مزید عرضِ تمنا کا حوصلہ ہے کسے
ابھی تو پہلی نوازش کا زخم کاری ہے
یہ رنگ و نور کی بارش، یہ خوشبوئوں کا سفر
ہمارے خون کی تحریک ہی سے جاری ہے
نصیب سایہ گل ہے جنہیں وہ کیا جانیں
ہمارے پائوں کی زنجیر کتنی بھاری ہے
سحر کو رنگ ملا ہے اسی کے صدقے میں
ستونِ دار پہ ہم نے جو شب گزاری ہے
ہمیں نے کل بھی بچایا تھا شیش محلوں کو
ہمیں پہ آج بھی الزامِ سنگ باری ہے
کسی کو پرسشِ احوال کی نہیں فرصت
وہ کون ہے جسے احساسِ غم گساری ہے
جگائیں سوئی ہوئی اپنی قوم کو اعجاز
تمام اہلِ قلم کی یہ ذمہ داری ہے

اپنی عمر کی نصف صدی سے زیادہ عرصہ قوم کو جگاکر یہ شاعر 26اکتوبر 2019ء کو کراچی میں ابدی نیند سوگیا۔

آپ نے اس دنیا میں 21 فروری 1936 ء کو شہر علی گڑھ کے محلہ اسرا میں آنکھ کھولی تھی،اس حساب سے آپ نے عمرِ عزیز کے 83سال اس دنیائے فانی میں گزارے۔آپ کے والدِ ماجد کا نام سید ایوب علی تھا، ابھی آپ کی عمر دو سال کی تھی کہ سایہ پدری سر سے اٹھ گیا ، آپ عمر کے نو یںسال میں تھےکہ والدہ نے بھی داغِ مفارقت دے دیا، اور آپ اپنی دادی ماں کے سایہ آغوش میں آگئے ، جو کہ بڑی باہمت خاتون تھیں، انہوں نے آپ کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بڑی حوصلہ مندی کا ثبوت دیا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ پرائمری اسکول میں ہوئی۔ آواز بڑی خوبصورت پائی تھی، بچپن ہی سے اسکول میں نظمیں پڑھنے کے لیے پیش ہونے لگے، یہاں علامہ اقبال کی نظموں ”چین و عرب ہمارا“ وغیرہ کا بہت چلن تھا، جس سے بچپن ہی میں شاعری کا چسکا لگ گیا، اور گیارہ سال کی عمر ہی میں ایک مصرع تخلیق پا یا جو یوں تھا:

رواں دواں ہے میری نائو بحرِ الفت میں

ابھی تعلیم جاری ہی تھی کہ تقسیم ہند کا واقعہ پیش آیا، گھر کے حالات اچھے نہیں تھے، نانِ شبینہ کی ضرورت پوری نہیں ہورہی تھی، نوزائیدہ مملکت کی شہرت سن کر گھر میں کسی کو بتائے بغیر 1954ء میں پاکستان کا رخ کیا۔ یہاں آپ کو چند سال تلاشِ معاش کے لیے جدوجہد کرنی پڑی، جس کے بعد 1958ء میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی میں آپ کو ملازمت ملی۔ اس ملازمت میں آپ نے پچیس سال گزارے۔ تنخواہ اچھی تھی، زندگی خوش و خرم گزر رہی تھی، گھر کی تربیت بھی اچھی تھی، اسکول میں ٹیچر بھی بہترین اور ہمدرد ملے تھے، وہ تعلیم و تربیت کے ہنر سے آگاہ تھے، ان میں آپ کی دادی کی ماموں زاد بہن قمر جہاں بھی تھیں، جو اسکول میں نمازوں اور وضع قطع وغیرہ کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ان کے اندازِ تربیت کی ایک مثال یہ تھی کہ ایک مرتبہ ڈرل کا کوئی مظاہرہ تھا، آپ کے کرتے کا بٹن ٹوٹا ہوا تھا، قمر جہاں صاحبہ نے ایک روپیہ اس بچے کو دے کر بٹن بنوانے کو بھیجا،چالیس کی دہائی میں یہ بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ ایسی ہی تربیت تھی کہ سگریٹ فیکٹری میں طویل ملازمت کے باوجود کبھی آپ نے سگریٹ منہ کو نہیں لگایا، حالانکہ مفت میں معیاری سگریٹ یہاں بہت دستیاب تھے۔

انہی دنوں آپ نے کراچی سے اردو فاضل کا امتحان پاس کیا، شاعری کی لت انڈیا ہی میں لگ چکی تھی، جہاں آپ فلمی طرز پر کلام پڑھتے تھے، کراچی میں آپ کے والد کے ماموں فلاح جلالوی صاحب، عالم فاضل آدمی تھے، انہوں نے آپ کو مشاعروں میں کلام پڑھنے پر آمادہ کیا، اور اُس دور میں اردو کے اعلیٰ پائے کے استاد شاعر قمر جلالوی سے کلام کی اصلاح کے لیے ملوایا۔ کچھ مدت یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن پھر اس کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ شعری ملکہ اللہ نے گھٹی میں ڈال رکھا تھا۔ قمر جلالوی صاحب کا انتقال 1968ء میں ہوا، جس کے بعد آپ کے کئی شاگردوں نے اصلاح کے لیے آپ سے رجوع کیا۔ اعجاز رحمانی کا پہلا مجموعہ کلام استاد کی رحلت کے پانچ سال بعد 1973 ء میں ”اعجازِ مصطفیٰ ؐ“کے نام سے منظر عام پر آیا۔1970ء میں الیکشن کے موقع پر آپ کی فکری وابستگی جماعت اسلامی سے ہوئی، 1972ء میں جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو اعجاز رحمانی جماعت اسلامی کی زبان بن گئے، اُس وقت ان کے کئی اشعار زبانوں پر عام ہوئے جن میں سے ایک شعر یہ بھی تھا:

جھوٹے ہیں سب دعوے ان کے، طوفان کا رخ موڑیں گے
دل تو ہمارا توڑ رہے ہیں کیا وہ ستارے توڑیں گے

اعجار رحمانی نے غزل، نظم سمیت ہر صنفِ سخن میں مشق آزمائی کی اور کامیاب ہوئے۔ آپ کی نظموں اور غزلوں کو مشاعروں میں ہمیشہ پذیرائی ملی۔ آپ نے بڑے بڑوں کی موجودگی میں خود کو منوا لیا، مثلًا1980ء میں ابوظہبی کانٹی نینٹل ہوٹل کے افتتاح کے موقع پر جو مشاعرہ ہوا تھا، اُس میں میزبان انہیں اہمیت نہ دے کر کنارے کررہے تھے، نعت کا مشاعرہ ہونے کے باوجود آپ کو موقع نہیں مل رہا تھا، اُس وقت آپ نے آگے بڑھ کر اپنی نظم پیش کی تھی، جس نے مشاعرے میں دھوم مچائی اور باربار اسے پڑھنے کی درخواست کی گئی تھی، اس کا مطلع یوں تھا:

چپ رہنے میں جاں کا زیاں تھا، کہنے میں رسوائی تھی
ہم نے جس خوشبو کو چاہا، وہ خوشبو ہرجائی تھی

آپ نے کامیابیوں سے بھرپور زندگی گزاری۔ ”خوشبو کا سفر“، ”سلامتی کا سفر“، ”لہو کا آبشار“، ”جذبوں کی زبان“، ”آخری روشنی“، ”پہلی کرن“، ”اعجازِ مصطفیٰؐ“،” کاغذ کے سفینے“،”افکار کی خوشبو“ ، ”غبارِ انا“، ”لمحوں کی زنجیر“،”چراغِ مدحت“، ”گلہائے سلام ومنقبت“ کے عنوان سے نعتوں اور غزلوں مجموعے شائع ہوئے، اور حمد و نعت اور کلام کی کئی کلیات شائع ہوکر مقبول ہوئیں۔ آپ کے ترانوں کو بھی بڑی مقبولیت ملی۔ آپ نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منظوم پیرائے میں ڈھالا، اور سیرت پر ایک ضخیم کتاب لکھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منظوم سیرت ”رفیقِ رسولؐ“، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی ”دعائے رسولؐ“، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ”ضیائے رسولؐ“ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ”برادرِ رسولؐ“ کے عنوان سے مرتب کیں۔ امہات المومنین کی منظوم سیرت پر کام جاری تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کئی سو بند تیار ہوگئے تھے۔ بعد میں اس کی اطلاع نہیں ملی۔ہمیں ایک طویل عرصے تک اعجاز صاحب سے ملاقات کا موقع نہیں ملا، البتہ جسارت وغیرہ میں آپ کے قطعات پر نظر پڑتی تھی، لیکن 1986ء میں نشتر پارک کے اجلاس میں پڑھی ہوئی نظم نے ہمیں آپ کا گرویدہ بنایا، اس کے ابتدائی بند کو ہماری ترتیب کردہ ویڈیو سیریز کی نمبرنگ میں بطور ٹائٹل استعمال کیا گیا ہے۔ نظم یہ تھی:

امن و اخوت، عدل، محبت
وحدت کا پرچار کرو
انسانوں کی اس نگری میں
انسانوں سے پیار کرو
آگ کے صحرائوں سے گزرو
خون کے دریا پار کرو
جو رستہ ہموار نہیں ہے اس کو بھی ہموار کرو
دین بھی سچا ،تم بھی سچے
سچ کا ہی اظہار کرو
تاریکی میں روشن اپنی عظمت کے مینار کرو
نفرت کے شعلوں کو بجھادو
پیار کی ٹھنڈک سے
ہمدردی کی فصل اگائو

حصہ