مسلم نوجوانوں میں اتداد کی لہر

217

ارتداد کے لغوی معنی اپنے مذہبی عقائد سے انحراف کرکے کسی دوسرے مذہبی عقائد کو اپنا لینا ہے۔ اسلامی شریعت کی رو سے اگر کوئی شخص قول و عمل سے ایمان، توحید و رسالت، آخرت، اور قرآن مجید کو آخری کتاب نہ مانے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیِ آخرالزماں نہ مانے، جنت اور جہنم کے عقیدے سے انکار کردے ، تمام الہامی کتابوں کو نہ مانے، تمام انبیا اور رسولوں کو نہ مانے، ایمان بالغیب اور تقدیر پر عقیدہ رکھنے سے انکاری ہو جس کا ذکر کلمہ ایمان مفصل میں بیان ہوا ہے، جو نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور قربانی سے انکار کرے، جو خانہ کعبہ کو قبلہ نہ مانے، جو ملائکہ کے وجود کو تسلیم نہ کرے تو وہ ارتداد کا مرتکب قرار پائے گا۔ قرآن مجید کی سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ایمان لائے اللہ پر، اس کے ملائکہ پر اور الہامی کتابوں پر اور رسولوں پر۔ اور رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ اے ہمارے رب ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہماری مغفرت فرما، ہمیں تیری طرف لوٹنا ہے۔ (البقرہ 285)

اسلام میں مرتد کی سزا اُس وقت موت ہے جب وہ تلقین کرنے کے باوجود توبہ سے انکار کردے۔ اور اس سزا میں کسی ائمہ و فقہاء اور مسالک کے علما کا اختلاف نہیں ہے۔ قرآن و سنت سے ثابت شدہ ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر خلفائے راشدین اور اب تک تمام اسلامی ممالک میں جہاں شریعت کے قوانین رائج ہیں، یہ سزا دی جاتی رہی اور اب تک دی جاتی ہے، اور جہاں یہ عمل نہیں ہوتا وہاں عوام قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں جسے احسن عمل نہیں کہا جاسکتا۔ میرا موضوعِ تحریر اس ارتدادی لہر پر شرعی نکتہ نگاہ سے نکات بیان نہیں کرنا بلکہ اس کا جائزہ لینا ہے کہ آج کے دور میں اس میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس کا سد باب کیسے کیا جا سکتا ہے؟ آپؐ کی رحلت کے فوراً بعد ہی منکرینِ زکوٰۃ اور نبوت کے دعویدار پیدا ہوئے اور ان کے خلاف خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اعلانِ جہاد کیا اور ان کی سرکوبی ہوئی۔

ہر وہ شخص موت کی سزا کا حق دار قرار پاتا ہے جو اپنے ملک سے، ملک کے آئین سے غداری کرتا ہے یا دشمن سے مل کر ملک کے خلاف سازش کرتا ہے، یا دشمن کو ملک کے راز بیچتا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ صاحبِ ایمان ہونے کے باوجود وہ اسلام کے دستور و آئین کو نہ مانے اور مسلمان بھی کہلائے؟

مسلم دنیا پر یورپی سامراج کے قبضے کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے۔ سرکاری مراعات، لالچ، جان و مال کا خوف دلایا اور مسلمانوں کی پس ماندگی اور یورپ کی ترقی کی چکاچوند کو دکھایا۔ دورِ غلامی میں تعلیم یافتہ طبقے کا ایسا گروہ بھی وجود میں آیا جو خود کو مسلمان کہلانے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ ایک طرف یورپ کی مادہ پرستی تھی تو دوسری جانب اشتراکی انقلاب کا غلغلہ۔ اور ہر طرف یہی نعرہ گونج رہا تھا ’’سرخ ہے سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے‘‘۔ مگر اس کے راستے میں برصغیر میں مولانا مودودیؒ کے جانشینوں نے ایسا بند باندھا کہ ان کی تمام تر کوششوں پر پانی پھر گیا۔ اگست 1947ء میں پاکستان اور ہندوستان دو ملکوں کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ ہندوتوا کے پجاری جو برطانوی دور سے ہی ویرساورکر کے نظریات کے تحت شدھی تحریک چلا رہے تھے یعنی مسلمانوں کو پھر سے ہندو بنایا جائے، وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن لبرل اور جدید تعلیم یافتہ نوجوان دین اور ایمان سے بے زاری کی وجہ سے نام کے مسلمان رہ گئے، اور پھر انگریزی تعلیم اور تہذیب کے زیراثر ان تعلیم یافتہ طبقات میں دین بے زاری تھی، اور جن کے اجداد نے انگریزوں کے ساتھ مل کر تحریکِ آزادی کے خلاف غداری کی تھی، ان کی نسلوں میں یہ دین بیزاری اور انحراف کے جراثیم اب بھی موجود ہیں۔

ایک طرف عیسائی مشنریوں نے پوری دنیا میں مختلف فلاحی اور تعلیمی اداروں کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کو تبدیلیِ مذہب کی جانب راغب کیا بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی عیسائی بنانے میں کامیاب ہوئے، دوسری طرف یہودیوں کی فری میسن تحریک نے تمام مذاہب کے اندر نہ صرف تفرقے پیدا کیے بلکہ ایک دوسرے کو باہم قتل و غارت گری پر اکسایا اور اس میں کامیاب بھی ہوئی، مثلاً عیسائیوں میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے سے لڑے۔ ہندوؤں میں سناتنی اور آریائی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ مسلمانوں میں شیعہ، سنی تو صدیوں سے باہم دست و گریباں ہیں، سکھوں میں اکالی اور نرنکاری ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔ اب تو مسلمانوں میں اتنے فرقے اور مسالک وجود میں آچکے ہیں جو ایک دوسرے کو کافر اور واجب القتل قرار دیتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ یہ بھی دین سے بے زاری کی ایک وجہ ہے۔ مسلم دنیا میں عوامی سطح پر بے چینی، عدم مساوات، بدانتظامی، بے روزگاری اور امریکا و یورپ میں روزگار اور بہتر سہولیاتِ زندگی کی چمک دمک کی وجہ سے نوجوانوں کا اپنے اپنے ملک سے ہجرت کر جانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ایمان و عمل کی کمزوریوں نے ارتداد کو آسان بنادیا ہے۔

جب ریاست کا کوئی دین اور بیانیہ نہ ہو تو اختلافات بڑھنا لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے بنیاد پرست ملک میں سندھی نوجوانوں میں ملحدانہ نظریہ تیزی سے فروغ پارہا ہے اور قوم پرستوں میں یہ رجحان زیادہ ہیں۔ مسلمان ہونے کے باوجود راجا داہر کو اپنا ہیرو قرار دینا اور محمد بن قاسم کو لٹیرا اور غاصب کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ارتداد کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ بلوچستان میں ذکریوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اب تو پنجاب اور ہندوستان کے کچھ علاقوں میں لوگ اپنا خانہ کعبہ بناکر طواف بھی کررہے ہیں۔ مزار پرستی اور پیر پرستی میں کھلے عام شرک کا ارتکاب ہورہا ہے۔ جو مسلمان لبرل، سیکولر اور اشتراکی نظریات کے حامل ہیں، وہ کھلے بندوں اسلام کے خلاف اور آخرت کے عقیدے سے انکار کرنے میں جھجھکتے نہیں ہیں۔ یوں تو ہندوتوا کے علَم بردار ایک زمانے سے مسلمانوں کو ہندو بنانے کے مشن میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کو اُس وقت تقویت ملی جب مغل بادشاہ اکبر نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے ایک نیا مذہب بنانے کی کوشش کی، لیکن یہ بہت جلد اپنی موت آپ مر گیا جس کے پجاریوں کے کھنڈرات آج بھی سکندر آباد کے شیطان پورہ میں موجود ہیں۔ اس کے بعد شاہ جہاں کے بڑے بیٹے نے وحدتِ ادیان کو فروغ دینے، ہندو مسلم کو ایک قرار دینے اور صوفی، سنت اور دیگر تارک الدنیا لوگوں کو ایک قرار دینے کا فلسفہ پروان چڑھانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے علما نے اسے کافر قرار دیا اور اورنگ زیب عالمگیر نے اسے موت کی سزا دی۔ وحدتِ ادیان بھی ارتداد کی قسم ہے جس کا چربہ ’’بھکتی تحریک‘‘ کی شکل میں ہندوستان میں پروان چڑھا، جس کے روحِ رواں پنجاب میں گرونانک، یوپی میں کبیرداس، بہار میں روی داس اور بنگال میں چیتن دیو تھے۔ آج بھی ہندوستان میں ہندو اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کبیرداس اور روی داس کے فلسفۂ وحدتِ ادیان کی پیروکار ہے۔ گرونانک نے سکھ مذہب کی بنیاد رکھی جس کے پیروکار پوری دنیا میں موجود ہیں اور ہندوستان کی بااثر قوم میں شمار ہوتے ہیں کیوں کہ یہ ایک مارشل قوم ہے۔

افریقہ کے مسلم اکثریتی ممالک میں عیسائی مشنریوں نے وہاں کے باشندوں کی غربت کا فائدہ اٹھاکر انہیں عیسائی مذہب کی جانب راغب کیا جس کے باعث بہت سے ممالک میں مسلم آبادی کا تناسب بدل گیا جن میں نائیجیریا ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید سائنسی ترقی اور اس کے موجدوں کی بڑی تعداد لادین افراد پر مشتمل ہے یہ تو خدا کے وجود سے انکاری ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز اور بیسویں صدی کے نصف تک یورپی سامراج کا مسلم دنیا پر غلبہ رہا اور روس میں اشتراکی انقلاب کے غلبے کے بعد وسط ایشیا کے تمام مسلم ممالک میں اسلام کی بنیادیں ہلا دی گئیں اور اسٹالن کی سربراہی میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ مساجد پر تالے ڈال دیے گئے، قرآن رکھنا اور پڑھنا جرم قرار پایا، مسلمانوں کے نام تک بدل دیے گئے۔ غفور ’’غفوروف‘‘ ہوگیا۔ اشتراکیت کے سوا کسی نظریے کو ماننا موت کو دعوت دینا تھا۔ ستّر سالہ جبر میں مسلمان اپنا سب کچھ کھو چکے۔ گورباچوف کے دور میں وسط ایشیا کے مسلم ممالک کو آزادی تو ملی مگر آج بھی ان تمام ممالک میں حکمرانی کمیونسٹوں کی باقیات کے ہی ہاتھ میں ہے اور اسلام کے فروغ کے راستے میں ریاستی جبر حائل ہے۔

ہندوستان میں مودی کی حکومت میں ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر دھن اور دھونس کے ذریعے غریب مسلم آبادیوں کے مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں قادیانیت اور مرزائیت کا نیا مذہب جنم دیا جس کی مخالفت تو برصغیر کے علما نے کی اور آج بھی کی جا رہی ہے، مگر یہ ارتدادی فتنہ عالمی طاغوت کے زیر سایہ مسلمان نوجوانوں کو یورپ اور امریکا میں نوکریوں اور بہتر زندگی کا لالچ دے کر مرتد بنارہا ہے۔

اس ارتدادی رجحان کے بڑھنے کا سبب مسلمانوں میں فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات ہیں، قرآن وسنت کی درست تعلیمات کا نہ دینا ہے، جدید دور میں ہوشربا سائنسی ترقی کی موجودگی میں اسلام کی آفاقی تعلیمات پیش نہ کرناہے۔ اسلام ایک فلاحی دین ہے مگر آج مسلم دنیا میں نظام شریعت کے مطابق حکومتوں کا دور دور تک پتا نہیں ہے اور نہ عوامی فلاحی ریاست موجود ہے۔ جب ایک پڑھا لکھا نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے یورپ، امریکا اور جاپان کی ترقی اور عوامی سہولیات کو دیکھتا ہے تو وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر دین سے بے زار ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں جب اس کو عیسائیت یا دیگر خدا دشمن نظریات کی جانب سے پیش کش ہوتی ہے تو اس کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔

اس تمام تر صورتِ حال میں جو قابلِ فکر بات ہے وہ یہ کہ جیسے جیسے خروجِ دجال کا وقت قریب آ رہا ہے فتنۂ دجال کے سائے مہیب ہوتے جا رہے ہیں۔ سر زمینِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی مرکز میں اسلامی تہذیب سے بے زاری حکمرانوں کی سرپرستی میں بہت تیزی سے شروع ہوچکی ہے۔ صہیونیت کا ظلم و جبر، غزہ میں نسل کُشی اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی عالمی سطح پر مسلم نوجوانوں میں بے چینی اور اضطراب پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ صاحبانِ کردار اور طلب گاران ِشہادت ہیں جو دجال کا مقابلہ کریں گے۔ اللہ ہمیں بھی ان میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں مُردار حکمرانوں اور جرنیلوں سے ایک دست بستہ گزارش:

اک خواجہ سرا نے دست بستہ سالار سے کہا
اب تو آپ اپنی تلوار میان سے نکالیے
ہم تو عبث بدنام ہیں نامردی کے نام پر
اب آپ اپنی کچھ تو مردانگی دکھائیے

حصہ