چھٹی کا دن تھا۔ بریرہ اور سعد بہت دنوں سے اپنی سکول کی چھٹیوں کا انتظار کر رہے تھے۔ کیونکہ ان دونوں کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ گزشتہ دنوں سے اپنے والد سے قریبی پارک جانے کی ضد کر رہے تھے۔ ابو نے بچوں سے کہا کہ آج چھٹی کا دن ہے، اپ لوگ پارک جانے کی تیاری کریں جب تک میں گاڑی نکالتا ہوں۔ بچوں کی خوشی کی تو کوئی انتہا ہی نہ تھی۔ دونوں نے خوشی خوشی اپنی امی کو بتایا اور تیاری کرنے لگے۔
سب مل کر گاڑی میں بیٹھے اور پارک کی طرف روانہ ہو گئے۔ پہنچنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ پارک بے انتہا خوبصورت ہے۔ یہاں پرندے چہچہا رہے تھے، پھول ،پودے کھلے ہوئے تھے جس میںتتلیاں اڑ رہی تھی، یہاں پر مختلف قسم کے جانور بھی تھے جیسے کہ: مور جو اپنے خوبصورت پروں کی وجہ سے نہایت خوبصورت لگ رہا تھا، مچھلیاں اور کچھوے جو پانی میں تیر رہے تھے، اسی طرح بندر ،طوطے اور خرگوش کو دیکھ کر بچے بہت متاثر ہوئے اور اپنے ابو اور امی سے ان سب چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگے۔
پارک میں بچوں نے خوب مزے کیے۔ جھولے جھولے، مختلف قسم کے کھیل کھیلے اور جانوروں سے لطف اندوز ہوئے۔ کھیل کود کر بچوں کو بھوک پیاس لگنے لگی۔ بریرہ اور سعد امی ابو کے پاس گئے اور کہنے لگے ہم کھیل کھیل کر تھک گئے ہیں، ہمیں بھوک لگ رہی ہے ہمیں کھانا دے دیں۔ ابو جان نے چادر بچھائی اور امی نے ٹوکری میں سے چپس، بسکٹ، نمکو، وغیرہ نکالے۔ بریرہ اور سعد چادر پر بیٹھے اور کھانے لگے۔ کھانے سے فارغ ہو کر امی نے کہا کہ ساری تھیلیاں اور ڈبے کوڑا دان میں ڈالیں، کوئی نیچے نہیں پھینکے گا۔
بریرہ اور سعد نے کچرا اٹھایا اور کوڑے دان میں پھینکنے گئے۔ کچرا ڈالتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ کوڑا دان تو خالی ہے اور تمام کچرا پارک کی سرسبز گھاس پر گرا ہے اور بہت گندی بدبو بھی آرہی ہے۔ انہوں نے یہ بات جا کر فورا اپنے والدین کو بتائی تو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ آپ اسے اٹھا کر کوڑا دان میں ڈالیں۔ اور اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھائیں کہ کچرا ہمیشہ کوڑے دان میں ڈالنا چاہیے اور اپنے پارک کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ بریرہ اور سعد نے سب بچوں کے ساتھ مل کر پارک کی صفائی کی۔ پارک کی صفائی کے بعد بریرہ اور سعد کے ابو نے بلند اواز میں بچوں سے کہا: پیارے بچو! ہمیشہ اپنے گھر، گلی، محلے اور وطن کو صاف ستھرا رکھیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے، ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔