حضرت ثوبانؓ مکے کے ایک کافرکے غلام تھے۔ لیکن کتنا شاندار تھا وہ ’’غلام‘‘ جس کی روح آزاد تھی! غلامی سے کچلے ہوئے جسم تک جو نہی یہ صدائے حقیقت پہنچی کہ انسان ایک خدا کے سوا کسی کا بھی غلام نہیں۔ تو ثوبان نے اسی لمحے اس حقیقت کی دل سے تصدیق کی اور زبان سے اس کا اعلان بھی کردیا۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس حقیقت کو زبان پر لانے کا انجام کیا ہو گا۔ وہ اس سے بے خبر بھی نہیں تھے کہ جن لوگوں نے یہ سچی بات مان کر اس کا اعلان کر دیا تھا، ان کو اس حقیقت کے بے رحم دشمنوں نے کس طرح آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ ان مظالم کی ہولناکیاں ان کی آنکھوں کے سامنے تھیں۔ ان مظلوموں کی درد ناک چیخوں کی آواز ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکرا رہی تھی، لیکن پھر بھی وہ ڈرے نہیں، سہمے نہیں، رکے نہیں۔ انھوں نے اس وقت یہ محسوس کیا کہ اس سچائی کو مان لینا اور فوراً مر جانا اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ کوئی اس سچائی سے محروم رہ کر عرصہ دراز تک ایک جانور سے بھی بدتر حالت میں بے کار جیتا رہے۔ ایک جانور سے بدتر حالت میں جینے اور جیتے رہنے کے بجائے وہ ایک انسان کی طرح مر جانا پسند کرتے تھے۔ کیسے حیات انگیز موت شکن تھے وہ الفاظ جن کو سنتے ہی ثوبان کے اندر زندگی سے بھی بڑی زندگی کا یہ طوفان موجزن ہو گیا تھا!
’’ خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں‘‘۔
ہاں میں تھے وہ الفاظ جنہوں نے ثوبان میں اچانک یہ حوصلہ پیدا کیا کہ اب وہ نہ ایک جانور سے بھی ذلیل تر زندگی بسر کریں گے اور نہ ایک شیطان کی طرح دوزخ کی آگ میں دھکیلا جانا پسند کریں گے۔ ایمان ان کے اندر پھوٹ پڑا تھا اور اسی دم دنیا کے تمام خطرات کی طوفانی منجدھار ان کی نظر میں محض ایک سراب ہو کر رہ گئی تھی جس کے اس پار جنت کے دروازوں سے ان کے خدا کی رحمت ایک حقیر بندے کی روح کو آواز پر آواز دے رہی تھی۔
اور…
اس آواز پر وہ چل کھڑے ہوئے۔ غلامی کی زنجیریں ان کے قدموں کو کہاں روک سکیں۔ ظلم و سفاکی کے کڑے تیور ان کا حوصلہ کہاں چھین سکے۔ خطرات، ٹھوس اینٹ پتھر بن کر ان کے اوپر برس پڑے لیکن مظالم سے سنگسار ہوتے ہوئے بدن سے خون اور آنسوؤں کا جو بھی قطرہ ٹپکا اس نے زمین کے ذرے ذرے میں اس حقیقت کا سوز بکھیر دیا کہ ’’خدا کے سوا اور کوئی نہیں‘‘۔
آزمائش شروع ہوئی۔ رفتہ رفتہ نقطہ عروج تک پہنچی اور پھر ہر بے کس کے غم خوار ، ہر مظلوم کے حامی رسولؐ خدا نے حضرت ثوبانؓ کو ان کے مشرک آقا سے خرید کر ظلم و قہرمانیت کے شکنجوں سے نجات دلادی، نجات دلا دی اور ارادہ فرمایا کہ ثوبانؓ کو خدا کی راہ میں خود بھی آزاد فرما دیں۔ ’’آزادی‘‘ جیسی نعمت کے لیے ترستے ہوئے ثوبانؓ کے لیے یہ خبر آزادی ہی کی خبر تھی۔ لیکن وہ اس خبر کو سن کر رو دیئے!۔ انھوں نے آنسوؤں کی جھڑی سے اس ’’خوشخبری‘‘ کا استقبال کیا۔ کیسا تھا وہ خدا کا آخری رسولؐ جس کی غلامی کو لوگ اپنی آزادی سے بھی زیادہ قیمتی سمجھتے تھے !!
’’ میں نے تمہیں آزاد کیا‘‘۔ اشرف المخلوقات کو تمام جھوٹے خداؤں کی بندگی کی لعنت سے نجات دلانے والے پیغمبر نے کہا ’’اب تم قطعاً آزاد ہو۔ اب تم چاہو تو اپنے وطن عزیز یمن میں واپس جا کر اپنے عزیزوں کے درمیان مزے سے رہ سکتے ہو اور اگر چاہو تو میرا گھر بھی تمہارا اپنا گھر ہے، لیکن یہاں اب میرے ’’غلام‘‘ نہیں بلکہ میرے اہل خانہ میں شمار ہو گے‘‘۔
ثوبان نے اپنی آزادی کی خبر سنی۔ مدتوں سے بچھڑے ہوئے وطن عزیز یمن کا نام بھی سنا۔ جہاں خون اور جذبات کے رشتوں کی ایک پوری فوج ان کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ ان میں ان کے ماں باپ بہن بھائی اور دوست احباب بھی تھے، عزیزوں کے گھر تھے، دوستوں کی دلچسپ مجلسیں تھیں، بازار اور
منڈیاں تھیں، سڑکیں اور گلیاں تھیں۔ ماضی کی سینکڑوں یادیں اور مستقبل کے ہزاروں خواب تھے لیکن خوابوں اور حقیقتوں کی اس پوری بستی میں محمدؐ عربی نہیں تھے اس لیے ثوبانؓ کو ایسا لگا جیسے وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ محمدؐ عربی، جن کی خاک پا ثوبانؓ کو اپنے وطن کی خاک عزیز سے بھی زیادہ پیاری تھی۔ وہ ان کو
چھوڑ کر کیسے چلے جاتے!۔ وہ اخوت ایمانی کے عزیز چہروں کو چھوڑ کر محض خون کے رشتوں کی طرف کیسے چلے جاتے!۔ حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ جہاں محمدؐ اور ان کے ساتھی ہیں وہاں زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں، وہاں تو زندگی کا ہر قدم جہاد زندگی کی پرخار وادی ہے، وہاں تو زندگی کا ہر سانس آزمائش و ابتلا کی خارا شکاف گھاٹی ہے۔ لیکن مصائب کی یہ خطر پوش وادی، آزمائشوں کی یہ سنگلاخ گھاٹی ان کو اپنے وطن عزیز سے زیادہ عزیز تھی۔ وہ خوشی سے بے قرار ہو گئے کہ جس چیز کا کبھی وہ خواب بھی نہ دیکھ سکتے تھے وہ خواب یہاں ایک حقیقت میں ڈھل رہا تھا۔ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر قریب ہو رہے تھے۔ جہاں ان کا شمار ایک لٹے پٹے غلام کا شمار رسول اللہ کے ’’گھر والوں‘‘ میں ہو رہا تھا۔ بشرطیکہ ان کا دل اس کی یہ قیمت دے سکے کہ اللہ والوں میں رہنا سہنا انہیں اپنے گھر والوں میں رہنے سہنے سے زیادہ پیارا ہو جائے۔ یہ تاریخ ہے کہ ثوبانؓ نامی شخص نے محمدؐ عربی کی بارگاہ میں یہی قیمت جی جان سے پیش کی اور اس طرح پیش کی۔ جیسے اتنی بڑی قیمت ایک بہت ہی چھوٹی سی قیمت تھی۔ جیسے یہ کوئی قیمت ہی نہ تھی۔ جیسے مفت میں انھیں دولت دو جہاں مل گئی ہو۔ خدا کی قسم! وہ نہیں گئے، کبھی نہیں گئے، کہیں نہیں گئے۔ وطن سے بچھڑا ہوا انسان محمدؐ سے بچھڑنے کو تیار نہ ہوا۔ وہ تو وطن جانے کی پیش کش پاکر آنحضرتؐ کے دامن رسالت سے لپٹ کر رہ گیا۔ سفر میں حاضر !۔ حضر
میں موجود، خلوت میں ساتھ ساتھ جلوت میں فرش راہ! ایک پروانے کی سپردگی بھی ثوبان کے عشق رسولؐ کے آگے ہیچ ہو کر رہ گئی۔ کوئی پروانہ بھی شمع کا طواف دن رات نہیں کر سکتا مگر ثوبانؓ کی زندگی کے تو شب و روز اس ہستی کا طواف کررہے تھے جو ایک مشت خاک تھا مگر خدا کی نظر میں ’’ سراج منیر‘‘ قرار پایا تھا۔
اسی دور ’’جذب و جنوں‘‘ میں ایک بار ثوبانؓ حضورؐ کو والہانہ تک رہے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ آنحضرتؐ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اپنے اہل بیت کے لیے اس ہستی سے سوال شروع کیا جس کے خزانوں میں کسی شے کی کمی نہیں۔ بظاہر یہ محض ایک دعا ہو رہی تھی مگر ثوبانؓ نے محسوس کیا کہ یہ تو دولت دو جہاں لٹ رہی ہے۔ وہی ثوبانؓ جس نے دین کے لیے دولت دنیا کی گرد کا آخری ذرہ تک اپنے دامن سے جھٹک دیا تھا، دامن پھیلائے ہوئے جھولی اٹھائے ہوئے والہانہ، بے تابانہ آگے بڑھے… وہ سچ مچ گڑ گڑانے لگے۔
’’حضور! …حضور !! میں بھی… میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں ہوں… حضور! میں بھی…‘‘
’’ہاں!‘‘ بے کسوں کی ڈھارس بندھانے والےؐنے کہا ’’ہاں تم بھی میرے گھر کے آدمی ہو مگر اسی وقت تک جب تک تم خدا کے آستاں کے سوا کسی دوسری چوکھٹ پر کھڑے نظر نہ آؤ۔ خدا کے سوا کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ‘‘۔
ثوبانؓ نے سراپا گوش بن کر حضورؐ کا فرمان سنا اور محسوس کیا کہ نبیؐ کے اہل بیت میں شمار ہونے کی یہ دوسری قیمت ہے جو ان کو دل و جان سے پیش کرنی ہے۔ یہ قیمت اس پہلی قیمت سے بھی زیادہ بڑی تھی جو وہ پیش کر چکے تھے۔ یہ عمر بھر کا ایک عظیم جہاد تھا یہ تو خدا کے لیے محض وطن ہی نہیں۔ ساری دنیا سے اپنی امیدوں اور آرزوؤں کے رشتے کاٹ ڈالنا تھا۔ یہ تو محض اللہ کے بھروسے پر جینا کے لیے جیتے جی مر جانا تھا۔
اور دنیا بھر لیکن حضرت ثوبانؓ نے یہ قیمت بھی بے دریغ پیش کر دی۔ اس واقعہ کے بعد انھوں نے ایک بالکل نئی زندگی شروع کی۔ اس نئی زندگی کے آغاز سے اپنی موت تک انھوں نے مخلوق سے کسی قسم کا کبھی سوال ہی نہیں کیا۔ اس زندگی کے پورے عرصہ میں وہ اس طرح زندہ رہے کہ اگر سواری کرتے ہوئے ان کا کوڑا بھی ہاتھ سے چھوٹ گرا تو پاس گزرنے والے یہ نہیں کہا کہ یہ کوڑا اٹھا دو۔ اس کے لیے وہ خود ہی مرکب کو روک کر نیچے اترے۔ اپنے ہاتھ سے اپنا کوڑا اٹھایا اور دوبارہ سوار ہو کر آگے بڑھے۔ آہ! یہ زندگی! کہ جس کا ہر سفر خدا ہی کی طرف ایک جلیل سفر تھا، جس کا ہر قدم اس سفر بندگی کی رفتار تیز کرتا ہوا اٹھتا تو مسافر اور منزل دونوں ایک دوسرے کی طرف بڑھنے لگتے۔ ایک بندہ اپنے خدا کی طرف بڑھ رہا تھا اور خدائے ذوالجلال بہ نفس نفیس اس حقیر بندے کی سمت میں اس بندے سے بھی تیز تر نزدیک آ رہا تھا۔
سنا ہے ہم بھی اسی ’’سفر‘‘ میں ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ ثوبانؒ خود خدا کی طرف بڑھ رہے تھے اور ہمیں وقت گھسیٹی لیے جا رہا ہے۔ وہ اپنے پیروں چل کر منزل تک پہنچے اور ہمیں انتظار ہے کہ دوسرے ہمیں اپنے کاندھوں پر سوار کر کے لے جائیں۔ وہ ایک سچے خالق کے سائل تھے۔ ہاں وہ ایک اکیلے غنی کے فقیر تھے اور ہم نہ جانے کس کس در کے فقیر ہیں۔ بے غیرت، ناشکرے اور ذلیل، پھر ڈھٹائی دیکھو۔ ہمیں یہ امید بھی ہے کہ ہماری اس پیشانی کو بھی انتہائی غیرت مند اللہ کی رحمت قیامت کے دن بوسہ دے گی۔ کاش! ہم ہمیشہ کی لیے بہرے ہو جانے سے پہلے کسی کی یہ آواز بھی سن سکتے:
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نوامیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟