کوئی بھی ٹیکنالوجی اول و آخر ہمارے فائدے کے لیے ہوتی ہے۔ انسان نے جو کچھ بھی ایجاد یا دریافت کیا ہے وہ صرف اور صرف اس لیے ہے کہ زندگی زیادہ سے زیادہ آسان ہو، مشکلات راہ کی دیوار نہ بنیں۔ ہر دور کے انسان نے زندگی کو آسان تر بنانے کا سوچا ہے اور ایسا کرنے میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔
آج کی دنیا بھی یہی چاہتی ہے کہ زندگی کا سفر زیادہ سے زیادہ آسان ہوجائے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ممکن ہے جب انسان اپنی سوچ درست رکھے اور جو کچھ بھی ایجاد کیا جائے یا جو بھی پیش رفت یقینی بنائی جائے اُس سے کماحقۂ مستفید ہوتے ہوئے زندگی سے دشواریوں کو تڑی پار کیا جائے۔
کم و بیش دو صدیوں کے دوران انسان نے ایسا سبھی کچھ پالیا ہے جو اُسے ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے لیے ناگزیر تھا۔ ڈھنگ سے جینا کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ کوئی بے جا پریشانی ہماری راہ کی دیوار نہ بنے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر خراج مانگتی ہے۔ فطری علوم و فنون میں زیادہ سے زیادہ پیش رفت یقینی بناکر ہم زندگی کو خراج دیتے رہتے ہیں۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے یقینی بنائی جانے والی ہر پیش رفت ہمارے بھلے کے لیے ہوتی ہے۔ ہاں، اُسے ڈھنگ سے برت کر فائدہ اٹھانا ہمارا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔
کم و بیش پانچ عشروں کے دوران انسان نے جو کچھ فطری علوم و فنون کی سطح پر ممکن بنایا ہے اُس نے زندگی کا حلیہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ جو لوگ اس وقت عمر کی ساتویں دہائی میں ہیں اُنہیں یقین ہی نہیں آتا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں وہ حقیقی ہے یا نہیں۔ آج کے ماحول میں انسان کو ایسا بہت کچھ میسر ہے جو اگرچہ اصل ہے مگر اُس پر جادو کا گمان ہوتا ہے۔ جو لوگ پچاس سال پہلے دس بارہ سال کے تھے اُن کے لیے یہ سب کچھ انتہائی حیرت انگیز اور بعض صورتوں میں تو سوہانِ روح ہے کیونکہ جو کچھ بھی آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور جو ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ ہمارا ہوکر بھی بہت عجیب لگتا ہے، یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ حقیقت پر مبنی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں ہونے والی ترقی اتنی زیادہ اور اتنی عجیب ہے کہ یہ ہماری زندگی کا حصہ ہوکر بھی ہماری سمجھ میں نہیں آرہی۔ آئی ٹی اب آپشن کا معاملہ نہیں بلکہ زندگی کا ناگزیر حصہ ہے۔ ہم اس سے کسی بھی صورت جان نہیں چھڑا سکتے۔ زندگی کے ہر معاملے میں آئی ٹی سیکٹر اس حد تک مداخلت کا حامل ہوچکا ہے کہ ہم بہت کوشش کرنے پر بھی اِس سے الگ نہیں ہوسکتے، لاتعلق نہیں رہ سکتے اور اِس سے مستفید نہ ہونے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔
ڈھائی تین عشروں کے دوران سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ آئی ٹی نے ہماری زندگی کے ہر معاملے میں انٹری دے رکھی ہے۔ اور یہ انٹری ہے بھی ایسی کہ اب کبھی ختم ہونے کا نام نہ لے گی۔ فی زمانہ کسی بھی انسان کے لیے ممکن ہے کہ اچھی زندگی بسر کرنا چاہے اور اس کے پاس اسمارٹ فون نہ ہو۔ سوال تفریحِ طبع کا نہیں، زندگی کی بنیادی ضرورتوں کا ہے۔ اسمارٹ فون ہمیں انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے باقی دنیا سے جوڑتا ہے۔ اب کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں، سبھی آئی ٹی کے سمندر میں ہیں۔ دل نہ چاہے تب بھی آئی ٹی سیکٹر کی مداخلت کو قبول کرنا پڑتا ہے، اُس سے مطمئن رہنا پڑتا ہے۔
اسمارٹ فون نے زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ دنیا سمٹ کر انسان کی ہتھیلی پر آگئی ہے یا یوں کہیے کہ رکھ دی گئی ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، معیاری زندگی بسر کرنی ہو تو آئی ٹی کو نظرانداز نہیں کرسکتا، اسمارٹ فون کو خدا حافظ نہیں کہہ سکتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی صورت اپنے آپ کو الگ تھلگ، رابطے کے بغیر نہیں رکھ سکتا۔ معاشرتی معاملات، معاشی سرگرمیاں، ذاتی معاملات، تفریحِ طبع، علم کے حصول کی لگن… سبھی کچھ تو اسمارٹ فون کے ذریعے آئی ٹی سیکٹر سے جُڑ گیا ہے۔ اسمارٹ فون بھی ہمیں آئی ٹی سیکٹر کی فقیدالمثال پیش رفت نے دیا ہے۔
ایک سے ڈیڑھ عشرے کے دوران خود کاریت بڑھی ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ بہت سے کام اب خودبخود ہوا کریں، اور ہورہے ہیں۔ مشینی کلچر جاچکا، اب تو معاملہ ڈیجیٹل کا ہے۔ میکانیکی طرزِ زندگی کو ہم خیرباد کہہ چکے۔ یہ زمانہ آن لائن اور وائرلیس کلچر کا ہے۔ نیا ماحول ہے تو نئی زندگی ہے۔ یہ نئی زندگی ہمارے لیے کیا لائی ہے اِس کے بارے میں سوچنے بیٹھیے تو ذہن کام کرنے سے انکار کرنے لگتا ہے۔ ہم نے کبھی جن باتوں کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا وہ اب ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جس پر جادو کا گمان ہوتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جادو بھی کیا ہی ہوتا ہوگا۔ اگر گزرے ہوئے زمانوں کے جادوگر آج زندہ کیے جائیں اور انہیں ہماری آج کی زندگی کے بھرپور مشاہدے کا موقع ملے تو کیا وہ قدم قدم پر دانتوں تلے انگلیاں نہ دبالیں گے؟
اب بات مصنوعی ذہانت تک پہنچ گئی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے فروغ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی یعنی اصلی ذہانت سے کچھ خاص غرض رہی نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے بیشتر کام مصنوعی ذہانت کی مدد سے کیے جائیں، اور ایسا ہی ہورہا ہے۔ مصنوعی ذہانت زندگی کے ہرشعبے پر محیط ہوتی جارہی ہے۔ دنیا بھر کے کاروباری ادارے مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کیے گئے آلات اور مشینری کو بروئے کار لاکر اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔
مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لانا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ آسان اس لیے ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ آلات اور اوزار اب قدم قدم پر استعمال ہورہے ہیں، آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ مشکل اس لیے کہ مصنوعی ذہانت ایک طرف چند آسانیاں پیدا کررہی ہے تو دوسری طرف چند مشکلات کو بھی راہ دے رہی ہے۔ مشکلات مختلف النوع ہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں قدم قدم پر مصنوعی ذہانت سے ہمارا ٹاکرا ہوتا ہے۔ یہ ٹاکرا اچھا بھی ہے اور بُرا بھی۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والے بہت سے آلات اور اوزار زندگی کو آسان تر بناتے جارہے ہیں۔ اب انسان کو زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ وہ بہت سے معاملات میں زیادہ پلاننگ کرنے کی پابندی سے بھی آزاد ہوچکا ہے۔ مصنوعی ذہانت زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے لیے بانہیں پھیلائے کھڑی ہے اور ہم اُس سے مستفید ہو رہے ہیں۔
کیا واقعی مستفید ہورہے ہیں؟ ایسا لگتا تو نہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں معاشرہ مجموعی طور پر کسی بھی نئی ایجاد یا اختراع کو صرف ظاہری اور سطحی فوائد کے لیے بروئے کار لاتا ہے اور زندگی میں اصل یا ٹھوس تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے پر متوجہ نہیں ہوتا۔ ہم نے جو کچھ دوسری بہت سی ایجادات و اختراعات کے معاملے میں کیا ہے وہی مصنوعی ذہانت کے معاملے میں بھی کررہے ہیں۔ یہی کہ اس سے استفادہ ضرور کیا جارہا ہے مگر محض سطحی انداز سے۔ اِسے سمجھنے کی کوشش کرنے والے خال خال ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ مصنوعی ذہانت سے اپنے لیے آسانیاں تلاش کررہے ہیں مگر زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔
مصنوعی ذہانت اب ہر شعبے میں، ہر معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے پر تُلی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے۔ بیشتر ایپس اب مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی جارہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت کچھ ایسا بھی حاصل ہورہا ہے جس کی ہمیں ضرورت نہیں۔ تعلیم کے شعبے میں بھی مصنوعی ذہانت سے خوب مدد لی جاسکتی ہے اور لی جارہی ہے۔ کاروباری ادارے مصنوعی ذہانت سے کام لے کر اپنے لیے آسانیاں بھی پیدا کررہے ہیں اور اپنے بجٹ کو کنٹرول کرنے میں بھی کامیاب ہورہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے بہت سے معاملات میں ذمہ داری یوں سنبھالی ہے کہ اداروں کو زیادہ ملازمین کی ضرورت نہیں پڑ رہی اور یوں چھانٹیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
میڈیا اور دوسرے بہت سے شعبوں میں مصنوعی ذہانت کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ کیفیت کہیں معیار کی بلندی میں معاونت رہی ہے اور کہیں گراوٹ لارہی ہے۔ گراوٹ اس لیے واقع ہورہی ہے کہ مصنوعی ذہانت کو سوچے سمجھے بغیر بروئے کار لانے سے کام تو تیزی سے ہوجاتا ہے مگر اُس میں وہ بات نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر وہ خرابیاں حتمی تجزیے میں فائدے کے بجائے نقصان کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت محض اس لیے تو نہیں ہے کہ اس کی مدد سے ادارے اپنی لاگت گھٹائیں، ملازمین کی تعداد کم کریں اور سکون کا سانس لیں۔ چھانٹیاں ایک خاص حد تک کی جاسکتی ہیں۔ اگر سوچے سمجھے بغیر مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لایا جانے لگے تو معاملات صرف خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ کئی معاشروں میں ایسا ہوچکا ہے۔ پس ماندہ معاشرے مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کا معیار بلند کرنے کے بجائے محض لاگت گھٹانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بڑے ادارے جب لاگت گھٹانے کے نام پر چھانٹیاں کرنے لگتے ہیں تو وقتی طور پر بہت اچھا رہتا ہے کیونکہ منافع کمانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، منافع کی شرح بلند ہونے لگتی ہے، مگر آگے چل کر یہ اندھا دھند رجحان صرف خرابیاں پیدا کرتا ہے۔
کسی بھی ٹیکنالوجی کی آمد پر جب لوگوں کو فارغ کیا جانے لگتا ہے تو راتوں رات معاشرہ محض خرابیوں کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ کیفیت مسائل کو دوچند کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ جب ادارے راتوں رات اندھا دھند چھانٹیاں کرنے لگتے ہیں اور بے روزگاری کسی ٹھوس جواز کے بغیر بڑھنے لگتی ہے تب مجموعی کاروباری ماحول پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری اداروں پر لازم ہوتا ہے کہ صرف منافع کے بارے میں سوچنے کے بجائے لوگوں کو روزگار دینے کے بارے میں بھی سوچیں تاکہ اُن کی کمائی ہوئی دولت تیزی سے گردش کرتے ہوئے مزید دولت پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو۔ اگر تمام ہی کاروباری ادارے دن رات صرف بجٹ چھوٹا کرکے منافع بڑھانے کا سوچنے لگیں اور چھانٹیاں ہی کرتے چلے جائیں تو اِس کے نتیجے میں پورا معاشرہ شدید عدم توازن کا شکار ہوکر مزید الجھنوں سے دوچار ہوتا ہے۔
مصنوعی ذہانت ذاتی، معاشرتی اور معاشی تینوں ہی سطحوں کی زندگی کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ اس بڑی نعمت سے بہ طریقِ احسن مستفید ہونے کے لیے لازم ہے کہ اِسے سوچ سمجھ کر برتا جائے، ڈھنگ سے بروئے کار لایا جائے۔ بنیادی سوچ یہ ہو کہ اِس کی مدد سے کام کا معیار بلند کرنا ہے۔ کسی بھی ایجاد یا اختراع کو محض لاگت گھٹانے یا دل بہلانے کے لیے استعمال کرنا اُس کی توہین ہے۔ ہمارے ہاں مصنوعی ذہانت کو اب تک توہین آمیز سلوک ہی کا سامنا رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت چونکہ بیشتر معاملات میں اپنا عمل دخل بڑھارہی ہے اس لیے اِس کے بارے میں سنجیدہ ہونا لازم ہے۔ مصنوعی ذہانت کو سمجھنے میں عام آدمی کی مدد کرنا لازم ہے تاکہ اس کے شعور کی سطح بلند ہو اور وہ مصنوعی ذہانت کو برتنے کے معاملے میں معقول رویہ اپنائے۔ چھوٹے بڑے تمام ہی کاروباری اداروں کو بھی مصنوعی ذہانت سے مدد لینے کے معاملے میں تعقل کا مظاہر کرنا ہے۔ یہ معاملہ محض لاگت کم کرنے کا نہیں بلکہ معیار بلند کرنے کا ہے۔ پروڈکٹس کا معیار بلند ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو محسوس ہو کہ اُن کی زندگی میں کوئی بڑی اور حقیقی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
مصنوعی ذہانت کو برتنے اور استعمال کرنے کے معاملے میں تیزی اپنانے کے بجائے اُسے سمجھنے کی ضرورت زیادہ ہے۔ کسی بھی ایجاد یا اختراع کا بنیادی مقصد معیار بلند کرنا ہے، اس لیے مصنوعی ذہانت کے ذریعے بھی تعلیم و تدریس، میڈیا رپورٹنگ، تجزیے، شوٹنگ، ایڈیٹنگ، لین دین، تفریحِ طبع اور دیگر تمام معاشی و معاشرتی معاملات کا معیار بلند ہونا چاہیے۔ اس کے لیے سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ بڑے اور درمیانی حجم کے کاروباری اداروں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہیے، اُن کی راہ نمائی کرتے ہوئے شعور کی سطح بلند کرنے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ تعلیمی ادارے مصنوعی ذہانت کے ٹولز کی مدد سے تعلیم و تربیت کا معیار بلند کرسکتے ہیں۔ یہ نئی نسل کو عمدگی سے مستقبل کے لیے تیار کرنے کا معاملہ ہے۔ بات صرف لاگت گھٹانے تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ توجہ اس بات پر دینے کی ضرورت ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ سیکھیں، اپنی زندگی اور ماحول کو بدلیں۔
مصنوعی ذہانت کے معاملے میں اب تک ہمارا عمومی رویہ صرف یہ رہا ہے کہ اِس کے ذریعے کام تیزی سے کیے جائیں اور انسانوں پر انحصار کم کیا جائے۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی یا اختراع انسان کے عمل دخل سے بالکل آزاد رہنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مصنوعی ذہانت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ بھی ہماری توجہ چاہتی ہے۔ مصنوعی ذہانت بہت کچھ سوچ سکتی ہے اور سوچتی ہی ہے، مگر یہ کیا سوچے اور کیا کرے اِس کا تعین ہم کریں گے، یعنی انسان ہی اُس کا راہ نما ہوسکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اپنی راہ نمائی خود نہیں کرسکتی۔ اُس کے لیے اہداف کا تعین ہم کریں گے۔ یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مصنوعی ذہانت کو اندھا دھند بروئے کار لانے سے محض تیزی نہیں آئے گی بلکہ معاملات آپس میں الجھ کر ہمارے لیے مزید مشکلات کی راہ بھی ہموار کریں گے۔