اب خوراک کے عالمگیر بحران کی باری؟

98

دنیا بھر میں ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں بہت کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا ہے۔ کہیں گرمی بہت زیادہ پڑ رہی ہے تو کہیں بارشیں بہت زیادہ ہورہی ہیں۔ کہیں سردی بڑھ گئی ہے تو کہیں کچھ پتا ہی نہیں چلتا کہ کب سردی پڑے اور کب گرمی بڑھ جائے۔

ماحول میں رونما ہونے والی منفی تبدیلیوں نے تقریباً تمام ہی متعلقہ معاملات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ بہت سے شعبے شدید عدمِ توازن کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ ماحول کی گراوٹ زندگی کا معیار بھی گرا رہی ہے۔ یہ گراوٹ سبھی کچھ داؤ پر لگارہی ہے۔ ماہرین پریشان ہیں کہ اب معاملات کو درست کرنے کی سبیل کیسے نکالی جائے۔ ہر شعبہ اپنے اسٹیکز کو بچانے کے لیے فعال ہے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اُس کے مفادات کو ذرا سا بھی نقصان پہنچے۔ کسی بھی شعبے کی کارکردگی سے ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہا ہو تب بھی کوشش یہ کی جاتی ہے کہ یہ سلسلہ برقرار رہے، یعنی کچھ بھی نہ بدلے۔ اگر کسی شعبے کو محض حسنِ اتفاق سے کچھ مل جائے تو وہ اُسے دانتوں سے پکڑ کر رکھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ معاملات دوبارہ نارمل نہ ہوں، بگاڑ چلتا ہی رہے۔

ماحول کے معیار کے گرنے سے کہیں خشک سالی اتنی بڑھ گئی ہے کہ فصلیں خطرے میں پڑگئی ہیں اور کہیں پانی اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ فصلیں اگانا دوبھر ہوگیا ہے۔ یہ سب کچھ عدمِ توازن کا نتیجہ ہے۔ حکومتیں اصلاحِ احوال کے لیے جتنی کوششیں کر رہی ہیں اُن سے کہیں زیادہ کوششیں بگاڑ کو برقرار رکھنے کے لیے کی جارہی ہیں۔

ماہرین نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں پانی کا بحران گہر ہوتا جارہا ہے۔ کہیں پانی بالکل نہیں یا ضرورت سے بہت کم ہے، اور کہیں پانی بہت زیادہ ہے۔ بارشیں بہت زیادہ ہوں تو بھی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اور پانی کم برسے تب بھی فصلیں مطلوب معیار کے مطابق اگائی نہیں جاسکتیں، یا پھر اُن سے مطلوب حد تک پیداوار حاصل نہیں ہوسکتی۔

پانی کا عالمگیر بحران اب چونکہ فصلوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہورہا ہے اس لیے اگلے پچیس برس میں دنیا بھر میں خوراک کی پیداوار خطرناک حد تک کم ہوجانے کا خدشہ ہے۔

دنیا بھر میں پینے کے صاف پانی کے قدرتی ذخائر گھٹتے جارہے ہیں۔ گلیشیرز کے پگھلنے پر پہاڑوں سے بہتے ہوئے ندیوں اور دریاؤں میں گرنے والے پانی سے استفادہ کم ہو پارہا ہے اور ضیاع زیادہ۔ بارشوں کا پانی بھی دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندروں میں جا گرتا ہے۔ اس پانی سے بھی خاطر خواہ حد تک استفادہ ممکن نہیں ہو پارہا۔ دنیا بھر میں ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ گلیشیرز سے آنے والے اور بارش کے پانی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے، مستفید ہوئے بغیر اُسے سمندروں میں گرنے نہ دیا جائے۔ اس کے باوجود حکومتیں کچھ خاص کر نہیں پارہیں۔

دنیا بھر میں میٹھے پانی کے ذخائر شدید خطرات کی زد میں ہیں۔ حکومتوں کی منصوبہ بندی اچھی خاصی ہونے کے باوجود کم پڑ جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے معاملات کو بہت حد تک درس،ت کرلیا ہے، تاہم ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں اس حوالے سے کچھ خاص یا اطمینان بخش نہیں کیا جاسکا ہے۔ عوام میں شعور کی سطح بھی بلند نہیں۔ وہ اپنے نفع نقصان کے بارے میں زیادہ سوچ نہیں پاتے اور ماحول کو ایسا نقصان پہنچنے دیتے ہیں جس سے بالآخر اُنہی کو نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

آبی معاملات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں میٹھے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ گلیشیرز سے پگھل کر آنے والے پانی کو کنٹرول کرکے اُس سے زیادہ استفادہ ممکن نہیں ہوپارہا اور دوسری طرف بارشوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے پانی سے بھی خاطر خواہ حد تک استفادہ ممکن نہیں ہو پارہا۔ سب سے بڑا مسئلہ عوام کی تربیت کا ہے۔ اُن میں متعلقہ شعور خاطر خواہ حد تک بلند نہیں کیا جاسکا ہے۔

میٹھے پانی کے ذخائر کے نظم و نسق کا معاملہ درست نہ کیا جاسکا تو اگلے پچیس برس میں خوراک کا بحران انتہائی نوعیت کی شکل اختیار کرکے ہمارے سامنے کھڑا ہوگا۔ یہ بحران پوری دنیا کو لپیٹ میں لے چکا ہوگا۔ متعلقہ امور کا جائزہ لے کر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں میٹھے پانی کا مسئلہ خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس وقت بھی دنیا کی نصف آبادی پینے کے صاف پانی یعنی میٹھے پانی تک رسائی سے یا تو محروم ہے یا پھر انتہائی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔

گلوبل کمیشن آن اکنامکس آف واٹر نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا گراف بلند ہوتے جانے سے دنیا بھر میں میٹھے پانی تک رسائی محدود سے محدود تر ہوتی جارہی ہے۔ پس ماندہ ممالک میں اربوں افراد کو اس حوالے سے غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔

میٹھے پانی کی رسد میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ رواں عشرے کے خاتمے تک دنیا بھر میں میٹھے پانی کی رسد میں 40 فیصد کمی واقع ہوگی۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کس قدر خرابی پیدا ہوگی۔ پینے کی ضرورت کے علاوہ میٹھا پانی صنعتی اور تجارتی استعمال کے لیے بھی ہوتا ہے، اور اس سے بڑھ کر اس پانی سے فصلیں تیار ہوتی ہیں۔ میٹھے پانی کی کمی سے فصلوں کو پہنچنے والا نقصان دنیا بھر میں خوراک کی شدید قلت کا باعث بن سکتا ہے اور بنے گا۔ دنیا بھر میں میٹھے پانی کے ذرائع شدید دباؤ میں ہیں۔ گلوبل کمیشن آن اکنامکس آف واٹر کی رپورٹ کے مطابق اربوں انسانوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ اگر میٹھے پانی کے ذخائر پر دباؤ یونہی بڑھتا رہا تو خوراک کا بحران گہراتا جائے گا۔

کمیشن کی رپورٹ میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بیشتر حکومتوں نے عام آدمی کی میٹھے پانی کی یومیہ ضرورت کا تخمینہ غلط لگایا ہے۔ حکومتوں کا اندازہ ہے کہ عام آدمی کو صاف ستھری اور صحت بخش زندگی بسر کرنے کے لیے یومیہ 50 سے 100 لیٹر میٹھا پانی درکار ہوتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق یعنی ڈھنگ سے جینے کے لیے یومیہ کم و بیش چار ہزار لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسم و جاں کی راحت کے لیے پانی کی یہ مقدار ناگزیر ہے۔ یومیہ چار ہزار لیٹر میٹھا پانی صرف پینے یا ’’فطرت کی پکار‘‘ کا جواب دینے کے لیے نہیں بلکہ دیگر تمام لازمی امور کے لیے درکار ہے۔ اس میں فصل اگانے کے علاوہ صنعتی عمل بھی شامل ہے۔ لوگ گھروں میں مویشی بھی تو پالتے ہیں۔ انہیں بھی پانی درکار ہوتا ہے۔ مویشیوں کا چارا بھی تو میٹھے پانی ہی سے اُگتا ہے۔ جن خطوں کو میٹھا پانی کافی مقدار میں نہیں مل پاتا وہ خوراک، کپڑا اور دیگر اشیائے صرف درآمد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

بہت سے ملک سبز پانی سے استفادہ کرتے ہوئے معقول زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ زمین کی نمی ہوتی ہے جو ماحول کو خوش گوار بناتی ہے۔ زمین میں پائی جانے والی نمی خوراک کی فصلیں اگانے کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ اس کے مقابل نیلا پانی ہے جو دریاؤں اور تالابوں سے حاصل ہوتا ہے۔ گلوبل کمیشن آن اکنامکس آف واٹر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پانی ماحولی دریاؤں کے ذریعے گھومتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نمی بھی منتقل ہوتی ہے اور ایک خطے کو سیراب کرنے کے بعد دوسرے خطے کو فیض پہنچاتی ہے۔

دنیا بھر میں خشکی پر بارش کا نصف پانی ماحول میں پائے جانے والے مستحکم سبزے سے آتا ہے جو پانی کو دوبارہ فضا میں اُچھال کر بادلوں کی تشکیل کی راہ ہموار کرتا ہے اور یوں بارشیں ہوتی ہیں اور خطے سیراب ہوتے ہیں۔

نمی کی منتقلی سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ممالک میں چین اور روس نمایاں ہیں جبکہ بھارت اور برازیل اس نمی کو ’’برآمد‘‘ کرنے والے ممالک میں سب سے آگے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی زمین نمی کو بہت بڑے پیمانے پر ایک خطے سے دوسرے خطے میں منتقل کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کے حصے میں آنے والی بارش کا 40 سے 60 فیصد پڑوسیوں کی زمین کی معرفت ہوتا ہے۔

گلوبل کمیشن آن اکنامکس آف واٹر کے شریک چیئرمین اور پوٹسڈیم انسٹیٹیوٹ فار کلائمیٹ امپیکٹ ریسرچ کے ڈائریکٹر پروفیسر جوہان راکسٹرام کہتے ہیں کہ روس کی معیشت کا مدار بہت حد تک یوکرین، قازقستان اور بالٹک کے خطے میں موجود جنگلات کے برقرار رہنے پر ہے۔ یہ جنگلات جتنے توانا ہوں گے روسی علاقوں پر اُتنی ہی زیادہ بارش ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ نمی بھی منتقل ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی کیس ارجنٹائن کا بھی ہے جسے پڑوسی برازیل سے نمی کے ساتھ ساتھ میٹھا پانی بھی منتقل ہوتا ہے۔ اُن کے مطابق ملکوں اور خطوں کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہونے کی حقیقت ہمیں اس بات کی تحریک دیتی ہے کہ عالمی معیشت میں ایک مشترکہ مفاد کے طور پر میٹھے پانی کو غیر معمولی اہمیت دیں اور اس حوالے سے نئی پالیسی، نئی حکمتِ عملی تیار کریں۔

سنگاپور کے صدر اور گلوبل کمیشن آن اکنامکس آف واٹر کے شریک چیئرمین تھرمن شنمگا رتنم کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے ممالک کو مزید وقت ضایع کے بغیر اب میٹھے پانی کے حوالے سے باہمی تعاون کا گراف بلند کرنا چاہیے۔

شنمگا رتنم کہتے ہیں ’’میٹھے پانی کے ذرائع کو حقیقی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہمیں اب انقلابی انداز سے سوچنا ہوگا۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ہم مزید وقت ضایع کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ میٹھے پانی کو بروئے کار لانے کے حوالے سے سوچ تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ گھروں میں جو پانی استعمال ہو جاتا ہے اُسے دوبارہ قابلِ استعمال بنانے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی جانی چاہیے۔ میٹھے پانے کو ضایع ہونے سے بچانے یا دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے لیے لازم ہے کہ گھروں میں پانی کی لائنیں الگ الگ ہوں اور استعمال شدہ پانی الگ الگ جمع کیا جائے۔ پینے کا صاف پانی چونکہ انتہائی بنیادی ضرورت ہے اس لیے اِس کا ضیاع کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ جو لوگ میٹھے پانی کے ضیاع کے مرتکب پائے جائیں اُنہیں انتباہ کیا جائے یا پھر اُن کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ اگر گھروں میں استعمال ہونے والا میٹھا پانی استعمال کے بعد زیادہ آلودہ نہ ہوا ہو تو پیڑ پودوں کو دیا جاسکتا ہے، مویشیوں کو پلایا جاسکتا ہے۔ یہی پانی چھڑکاؤ کے کام بھی آسکتا ہے۔

گلوبل کمیشن آن اکنامکس آف واٹر 2022ء میں نیدر لینڈز (ہالینڈ) میں قائم کیا گیا تھا۔ درجنوں سائنس دانوں اور ماہرینِ معاشیات نے مل کر ایک بڑی تنظیم کا خاکہ تیار کیا تاکہ دنیا بھر میں میٹھے پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کی جامع حکمتِ عملی تیار کی جاسکے اور اس حوالے سے متعلقہ کمیونٹیز اور ممالک کو متحرک کیا جائے۔ دنیا بھر میں میٹھے پانی کے ذرائع پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث لازم ہوگیا ہے کہ حکومتیں اور خطے مل بیٹھ کر جامع حکمتِ عملی تیار کریں اور اشتراکِ عمل کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کریں۔

گلوبل کمیشن آن اکنامکس آف واٹر کی 194 صفحات کی رپورٹ میٹھے پانی کے ذخائر پر مرتب ہونے والے دباؤ کے مطالعے اور اصلاحِ احوال سے متعلق تجاویز کے حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی اور سب سے وقیع رپورٹ ہے۔

دنیا بھر میں ہائیڈرولوجیکل سسٹمز پر مرتب ہونے والے دباؤ کو سمجھنے کے لیے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں اشتراکِ عمل لازم ہے۔ میٹھے پانی کے ذرائع یا ذخائر چاہے کسی بھی ملک میں ہوں مجموعی طور پر پوری دنیا کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ ماحول کسی سرحد کا پابند یا محتاج نہیں۔ گلوبل کمیشن کی رپورٹ میں میٹھے پانی کے بحران سے نپٹنے سے متعلق تمام اہم تجاویز کا جائزہ لیا گیا ہے اور ایسی جامع حکمتِ عملی کی راہ ہموار کی گئی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے اس مسئلے کو بہت حد تک حل کرسکتے ہیں۔ پالیسی میکرز کی راہ نمائی کا بھی خاص اہتمام کیا گیا ہے۔

جوہان راکسٹرام کہتے ہیں کہ گلوبل کمیشن آن اکنامکس آف واٹر نے تحقیق کے نتیجے میں جو کچھ معلوم کیا وہ انتہائی پریشان کن ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی انتہائی نوعیت کی تبدیلیوں کا ہدف نمبر ایک ہے میٹھا پانی۔ دنیا بھر میں میٹھے پانی کی قلت اس لیے بڑھ رہی ہے کہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں سب سے زیادہ میٹھے پانی ہی کو نشانہ بنارہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں کرہ ارض کا پورا ایکو سسٹم ہی کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ خطرناک تبدیلی سب سے زیادہ خشک سالی اور موسلا دھار بارشوں کی شکل میں نمایاں ہوئی ہے۔ کہیں بالکل پانی نہیں اور کہیں اتنا زیادہ ہے کہ سنبھالا نہیں جاتا بلکہ نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔

شدید گرمی کی لہریں (ہیٹ ویوز) اور جنگلات میں لگنے والی آگ زمین کی قدرتی نمو کے لیے انتہائی خطرناک اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ جنگلات میں لگنے والی آگ سے پورے کے پورے علاقے نمی سے محروم ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں زمین کی زرخیزی خطرناک حد تک متاثر ہوتی ہے۔

جب درجہ حرارت بلند ہوتا ہے تو زمین کی نمی کے ماحول میں شامل ہونے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بارشوں کا نظام بگڑتا ہے اور یوں کہیں اچانک بہت زیادہ بارش ہونے لگتی ہے اور کہیں لوگ بادلوں کو دیکھ دیکھ کر صرف کڑھتے ہی رہتے ہیں۔ انسان قدرت کے قائم کردہ نظام کو بگاڑ کر ختم کو رہا ہے۔ جنگلات کے درختوں کی تیز رفتار کٹائی اور بھیگی ہوئی زمینوں کے خشک ہو جانے سے پورے ایکو سسٹم میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ درختوں کی شکل میں سبزے کے ذریعے اور زمین سے ملنے والی نمی کی شکل میں میٹھے پانی کے قدرتی ذرائع پروان چڑھتے ہیں۔ جب جنگلات بہت زیادہ کاٹے جاتے ہیں اور زمین تیزی سے خشک ہوتی ہے تو میٹھے پانی کے ذرائع بھی غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔

گلوبل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ زرعی شعبے کو دی جانے والی غلط سبسڈی بھی بگاڑ کا دائرہ وسیع تر کرتی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال زرعی شعبے کو کم و بیش 700 ارب ڈالر کی سبسڈی دی جاتی ہے اور اس کا بڑا حصہ غلط سمت میں چلا جاتا ہے جس سے ایکو سسٹم کو لاحق خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ میٹھے پانی کو ری سائیکل کرنے یعنی دوبارہ قابلِ استعمال بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ دنیا بھر میں صنعتیں جو پانی استعمال کرتی ہیں اُس کا 80 فیصد ندی نالوں سے ہوتا ہوا دریاؤں اور پھر سمندروں میں جا ملتا ہے۔

حصہ