تخلیقِ آدم سے لے کر تاقیامت شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اور چہار جانب سے انسان کو خدا سے بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے لالچ، خوف اور گناہوں کو خوش نما بناکر پیش کرتا ہے۔ جب کوئی شخص اس کے بہکاوے میں آکر گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا ضمیر اس پر ملامت کرتا ہے جس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انسان اپنے گناہوں پر نادم ہوتا ہے اور توبہ استغفار کرتا ہے تو اس عمل کو ’’خود احتسابی‘‘ کہتے ہیں اور اللہ کو یہ عمل بہت پسند ہے۔
دیانت یہ ہے کہ آدمی امانت میں خیانت نہ کرے اور اپنے فرائضِ منصبی شفافیت کے ساتھ ادا کرے۔ جھوٹ، مکاری، سستی، کاہلی سے کام نہ لے اور بہانے نہ بنائے۔ یہ کام اور فرض کی ادائی میں شفافیت ہے۔ یہ آدمی کے اوصافِ حسنیٰ ہیں جس سے وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں سرخرو اور کامیاب ہوگا۔
خود احتسابی اور حقیقی توبہ انسان کو گناہوں سے پاک کردیتے ہیں۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک صحابی ماعز بن مالکؓ سے شیطان کے بہکاوے میں آکر ایک لونڈی سے زنا سرزد ہوجاتا ہے مگر جیسے ہی ضمیر کی ملامت پر ہوش آتا ہے وہ خود احتسابی کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوگیا ہے، مجھ پر حد جاری کرکے مجھے پاک کردیجیے۔ آپؐ اپنا منہ دوسری جانب کرلیتے ہیں، مگر بار بار اعترافِ جرم کرنے پر آپؐ اُن کو رجم کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جب سنگساری سے ان کی موت ہوگئی اور لوگ واپس لوٹ رہے تھے تو راستے میں دو صحابی آپس میں یہ تبصرہ کررہے تھے کہ کیا ضرورت تھی، جب کوئی گواہ نہیں تھا تو اعتراف کیا تاکہ لوگ متقی سمجھیں۔ یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی اور دونوں صحابیوں کو اپنے پاس بلا کر پاس مرے ہوئے گدھے کا گوشت کھانے کو کہا۔ جب صحابیوں نے کراہت کا اظہار کیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’ابھی ابھی تم لوگ ماعز بن مالک کے بارے میں جو تبصرے کررہے تھے وہ اس مُردار کے کھانے کے مترادف ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا ’’ماعز بن مالک کی توبہ کو پوری امت پر تقسیم کردیا جائے تو سب کی بخشش ہوجائے۔ ماعز بن مالک اپنی اس حقیقی توبہ کی وجہ سے جنت میں داخل کردیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث الحدود 6820، صحیح مسلم حدیث الحدود 1696، سنن ابوداؤد 4428)
خود احتسابی کے بغیر سچی توبہ ممکن نہیں۔ مومن کے تقویٰ کا دار و مدار خوداحتسابی پر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دن میں سو سو بار استغفار کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ تو عن الخطا ہیں، آپؐ اتنا استغفار کیوں کرتے ہیں؟‘‘ تو آپؐ نے فرمایا ’’کیا میں اپنے رب کا شکر ادا نہ کروں؟‘‘ استغفار دراصل اپنے رب کے سامنے اپنی کم مائیگی اور مجبور ہونے کا اعتراف ہے۔ توبہ اور استغفار انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
خود احتسابی، دیانت، شفافیت… یہ وہ انسانی اوصاف ہیں جو زندہ ضمیر انسان کی پہچان ہیں۔ جب تک فکرِ آخرت اور دل میں خوفِ خدا نہ ہو، اور روزِ محشر پرسشِ اعمال کا ڈر نہ ہو یہ اوصاف پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ریت کے ذرے کے برابر نیکی اور ریت کے ذرے کے برابر گناہ کا حساب لیا جائے گا۔‘‘ (سورہ زلزال)
اے دلِ زندہ کہیں تُو نہ مر جائے
یہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے
انسان کی فطرت ہے کہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اُس کا ضمیر اس پر ملامت کرتا ہے۔ اگر وہ اس کی آواز پر لبیک کہتا ہے تو وہ خود احتسابی کرتا ہے اور توبہ استغفار کرکے اپنے رب سے معافی مانگتا ہے۔ پھر جو کام بھی کرتا ہے دیانت اور ایمان داری سے کرتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک مسلمان سے ہر طرح کا گناہ سر زد ہو سکتا ہے مگر وہ جھوٹا اور خائن نہیں ہوتا۔‘‘
لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تمام اوصاف ہم سے دور ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے:
مسلماں آج بھی دنیا میں بے پندار ہے آقا
ذلیل و خوار ہے مست مئے اغیار ہے آقا
جو دیکھو مرد عیسائی تو عورت ہندویانی سی
یہ اپنی وضع میں بے حیا بے زار ہے آقا
جب خود احتسابی کا عمل ختم ہو جاتا ہے تو دل سے خوفِ خدا ختم ہو جاتا ہے۔ آدمی اپنے نفس کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ:
بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا
نہنگ و اژدھا و شیرِ نر مارا تو کیا مارا
دنیا کی چمک نفس کو ابھارتی ہے اور آدمی آرزوؤں کے جنگل میں گم ہوکر آخرت کو بھول جاتا ہے۔ لہٰذا جس نے بھی اپنے نفس کی پیروی کی، وہ گمراہ ہوگیا۔
سورۃ الناس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے اللہ! شر اور وسوسوں سے اپنی پناہ میں لے لے۔ وہ وسوسے جو خناس کی صورت میں ہیں جو انسان اور جن ڈالتے ہیں۔‘‘
احساس مرتا ہے تو ضمیر بھی مر جاتا ہے
یہ وہ موت ہے جس کی کوئی خبر نہیں ہوتی
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگو! تمہارے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جس کو دل کہتے ہیں، اگر یہ گناہوں سے پاک ہے تو تم دنیا و آخرت میں کامیاب رہو گے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے، اگر وہ صدقِ دل سے توبہ کرتا ہے تو وہ صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ شخص توبہ بھی نہ کرے اور مسلسل گناہ کرتا رہے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اس پر نیکی کی کوئی بات اثر نہیں کرتی۔ وہ گمراہی کی دلدل میں گرتا جاتا ہے اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔‘‘
دنیا ہر کام میں شفافیت کو پسند کرتی ہے۔ ملاوٹ کرنا قابلِ سزا جرم ہے۔ یہ توقانونِ فطرت ہے کہ جیسا کروگے ویسا ہی بھروگے۔ اگر دودھ والا دودھ میں پانی ملاتا ہے تو اس کو چاول میں کنکر کھانے کو ملے گا۔ کم تولنے والے کے ساتھ معاشرہ بھی ویسا ہی سلوک کرے گا۔
شعیب علیہ السلام کی قوم ناپ تول میں ڈنڈی مارتی تھی تو اللہ نے ان پر عذاب نازل کردیا۔ آدم و حوّا علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام کی توبہ ہر مسلمان کے لیے اعلیٰ ترین مثال ہے، بخشش اور خوشنودیِ رب کے ذرائع ہیں۔ یونس علیہ السلام کی قوم نے جب اجتماعی توبہ کی تو اللہ نے اپنا عذاب ٹال دیا۔ مگر جب صالح علیہ السلام کی قوم اصرارِ جرم پر قائم رہی تو اللہ نے سب کو ہلاک کردیا۔ گناہ گار اعترافِ جرم کرتا ہے مگر گمراہ اصرارِ جرم کرتا ہے اور پھر ابلیس بن کر لعنتی ہوجاتا ہے۔ اصحابِ سبت گناہوں پر ڈٹے رہے اور اللہ کو دھوکا دینے کے سبب بندر اور سور بنا دیے گئے۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی توبہ کا سب سے زیادہ انتظار رہتا ہے۔ نیکی کو تو فرشتے فوراً لکھ لیتے ہیں مگر گناہ کو اُس وقت تک نہیں لکھتے جب تک بندہ سونے سے پہلے توبہ نہیں کرتا، پھر فرشتے اس کے نامۂ اعمال میں لکھ لیتے ہیں۔
ندامت کے آنسو سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کو دو قطرے پسند ہیں، ایک خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جائے، دوسرا ندامت کے آنسو کا قطرہ۔‘‘
آنسو ندامتوں کے دامن بھگو رہے ہیں
رقت ہے مجھ پہ طاری دربارِ مصطفی میں
آئینہ یہ کہتا ہے مجھ سے سنو
پہلے خود دیکھ لے پھر دکھا آئینہ
ہم جب ایک انگلی کسی کی جانب اٹھاتے ہیں تو چار انگلیاں اپنی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو دوسروں کی آنکھ کا شہتیر تو نظر آجاتا ہے مگر اپنی آنکھ کا تنکا نظر نہیں آتا۔
آئینے کی ضرورت نہیں ہے تجھے
اپنے کردار کو تُو بنا آئینہ
آپ ؐنے فرمایا ’’ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔‘‘
آج کے دورِ جدید میں ترقی یافتہ ممالک کے حکمران جب کسی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں اور قوم اُن کا محاسبہ کرتی ہے تو وہ اعترافِ جرم کرکے مستعفی ہوجاتے ہیں، مگر یہ کردار ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش میں قطعی نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں عوام بھی بے خوف ہوکر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمرانوں کے جرائم کا حوالہ دے کر خود کو بے گناہ ثابت کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ریاست اپنی سرپرستی میں جرائم کو فروغ دے گی تو عدالتیں بھی مجرموں کو سزا دینے میں ناکام رہیں گی۔
’’سیّاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا؟‘‘ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔