نادان

50

سردیوں کی اندھیری رات تھی، ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ چاند بھی کبھی کبھار بدلیوں کی اُوٹ سے جھانک لیتا یا کسی آوارہ کتے کے بھونکنے کی آواز آجاتی… ایسے میں ایک گھر کا دروازہ آہستگی سے کھلا، کوئی ہاتھ میں چادر میں لپٹا کچھ سامان اور ایک بیگ لیے باہر آیا… دائیں بائیں محتاط انداز میں نظر دوڑائی اور ہلکے سے دروازہ بند کرکے تیز قدموں سے سڑک کی طرف جانے والے راستے پر آگیا۔

وہاں پہلے سے کوئی اس کا انتظار کررہا تھا۔ اس نے دیکھتے ہی پوچھا ’’کسی کو شک تو نہیں ہوا؟ سب چیزیں احتیاط سے رکھ لیں؟ کچھ رہ تو نہیں گیا؟‘‘یہ کہہ کر سامان اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔

’’ہاں رکھ لیں، لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ لرزتی آواز میں کہا گیا۔

’’گھبراؤ نہیں، مجھ پر بھروسا رکھو۔ اب جلدی یہاں سے نکلو، ہمیں اسٹیشن تک جانا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر سڑک سے تھوڑا فاصلہ رکھ کر تیز قدموں سے چلنا شروع کردیا۔

’’ہم کوئی رکشہ یا ٹیکسی کرلیتے ہیں۔‘‘ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بہ مشکل کہا گیا۔

’’بے وقوف مت بنو، ہم پر شک ہوجائے گا… ہمت سے کام لو بس تھوڑا ہی فاصلہ رہ گیا ہے، گاڑی تین بجے تک آئے گی، ہم اُس وقت تک پہنچ جائیں گے… یہ لو پانی پیو۔‘‘

اسی وقت ایک موٹر سائیکل سوار انہیں بغور دیکھتا ہوا پاس سے گزرا اور فوراً پلٹ کر واپس آیا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی تھا، گرج دار آواز میں بولا ’’کون ہو تم دونوں اور کیا چرا کر بھاگ رہے ہو؟ جان کی سلامتی چاہتے ہو تو سچ سچ بتادو۔‘‘یہ کہہ کر اس نے پستول نکال لیا اور لڑکی کے سر پر رکھ دیا۔

’’ہم چور نہیں ہیں اور اپنی مرضی سے گھر سے نکلے ہیں۔‘‘ لڑکی نے کپکپاتے ہوئے کہا اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔

اس شخص نے ساتھ کھڑے ہوئے لڑکے کو زوردار تھپڑ رسید کیا اور کہا ’’یہ سامان میرے حوالے کرو اور یہاں سے نو دو گیارہ ہوجاؤ، پلٹ کر دیکھا تو گولیوں سے چھلنی کردوں گا۔‘‘ اب پستول کا رُخ لڑکے کی طرف تھا۔

لڑکے نے اپنی جان بچانے کے لیے سامان اس شخص کے حوالے کیا اور بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔

’’ارے مجھے چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟‘‘ لڑکی اس کے پیچھے لپکی، لیکن اتنی دیر میں لڑکا خاصی دور جاچکا تھا۔

’’دیکھ لی اس لڑکے کی اصلیت، جو بیچ راستے میں تمہیں چھوڑ کر اپنی جان بچاکر بھاگ کھڑا ہوا ہے۔ تم اس کے بھروسے پر ماں باپ کی عزت داؤ پر لگاکر نکلی تھیں۔‘‘

لڑکی کی آنکھوں میں خوف اور حیرت کے ملے جلے تاثرات تھے۔

اس شخص نے بتایا’’میں ریٹائرڈ پولیس آفیسر ہوں اور تم دونوں کو دیکھ کر پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ کیا ماجرا ہے۔ میں چاہتا تو اس لڑکے کو پولیس کے حوالے کردیتا، لیکن اس طرح بات پھیل جاتی اور تم اس کو مظلوم سمجھتیں۔ اب مجھے اپنے گھر کا پتا بتاؤ تاکہ بحفاظت تمہیں چھوڑ آؤں۔‘‘
گلی کے کونے پر پہنچ کر اس شخص نے کہا ’’جہاں تک میرا اندازہ ہے کسی کو تمہاری غیر موجودگی کا پتا نہیں چلا، کیوں کہ ابھی تک اندھیرا اور خاموشی ہے، جس آہستگی سے آئی تھیں اسی طرح جلدی سے واپس چلی جاؤ، تم ابھی نادان ہو، آئندہ کبھی کسی کی باتوں میں آکر ایسی غلطی مت کرنا۔ میں بھی بیٹیوں والا ہوں اور مجھے پتا ہے کہ بیٹیوں کی عزت پر حرف آجائے تو ماں باپ جیتے جی مر جاتے ہیں۔ یقینا تمہارے ماں باپ کی کوئی نیکی تمہارے آگے آئی ہے جو آج تم غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ گئیں۔ اب جاؤ اور گھر جاکر شکرانے کے نفل ادا کرو۔ میں یہاں کھڑا ہوں جب تک تم گھر میں داخل نہیں ہوجاتیں… خدا حافظ۔‘‘

حصہ