لفظ ’’کاپی‘‘ کو کچھ وقت پہلے تک ایسے چند صفحات کا بنڈل سمجھا جاتا تھا جن کے ساتھ گتا لگا ہو اور ان صفحات پر کچھ لکھا جا سکے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس سے ’’پیسٹ‘‘ کا لفظ بھی جڑ گیا ہے اور وہ خواتین جو بے چاری ادرک، لہسن کے پیسٹ، ٹماٹر کے پیسٹ اور بقرعید کی آمد پر کچے پپیتے کے پیسٹ سے ہی واقف تھیں اب اُن کی اس نئے پیسٹ سے بھی جان پہچان ہوگئی ہے بلکہ پکی دوستی ہوگئی ہے۔ اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس کاپی پیسٹ سے پہلے ’’سلیکٹ‘‘ کرنا ہے تو وہ جو بھائیوں کی شادی کے لیے لڑکیاں سلیکٹ کرنے کا کام جانتی تھیں، یہی سلیکشن سمجھ بیٹھتی ہیں، اور ان میں سے بعض بے چاری کمزور دل کی اچھی خواتین جنھیں لفظ ’’ریجیکٹ‘‘ سے بڑا ہی ڈر لگتا، وہ صرف شادی ہالوں یا دیگر تقریبات میں ہی اپنی بھابھیوں کی تلاش کا کام کرلیتی تھیں کہ گھر گھر جاکر کسی کو ’’ریجیکٹ‘‘ نہ کرنا پڑے، وہ سب سے پہلے یہی پوچھتیں کہ کہیں اس سلیکٹ کے ساتھ ریجیکٹ کا لفظ تو موجود نہیں؟ اور جب انھیں بتایا جاتا کہ نہیں یہ تو نہیں ہے البتہ لفظ ’’کٹ‘‘ موجود ہے تو وہ بہت بڑاسا لفظ ’’اوووووووو‘‘ نکالتیں، اور اس سے پہلے کہ ان کے ذہن میں ابھرنے والا مزید کوئی سوال جاگتا انہیں سمجھایا جاتا کہ ’’کٹ آل‘‘ کا آپشن بھی موجود ہے اور صرف ایک لفظ کو بھی کٹ کیا جا سکتا ہے، تو وہ اس وقت اسے سمجھنے سے قاصر نظر آتیں اور ان کے ذہنوں میں ایک لمبی قطار میں موجود لڑکیوں کو ریجیکٹ کرنا آجاتا،یا پھر ایک ایک لفظ کو کٹ کرنے سے ایک ایک کرکے ریجیکٹ کرتی لڑکیاں نظر آتیں اور وہ کہہ دیتیں کہ اسی لیے تو کہتے ہیں یہ طریقہ صحیح نہیں۔ اس پر سمجھانے والا بے چارہ پریشان ہی ہوجاتا۔
اب ایک خاتون جو کہ واٹس ایپ استعمال کرنا شروع کرتی ہیں اور پھر شادی بیاہ کی آئی تصویروں کو ’’زوم‘‘ کرکے دیکھنا شروع کرتی ہیں، کہ انہیں اپنے سات سمندر پار بھانجے کی شادی میں شرکت ’’زوم‘‘ پر کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اب تو یہ بے چاری اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں اور خود زوم کی اصطلاح سے واقف لفظ کا بتاتی ہیں تو پھر انہیں اس سے آگے کی چیز کا بتایا جاتا ہے کہ اب ’’یہ زوم ایپلی کیشن‘‘ بھی آگئی ہے۔
اور اس سے متعلق بہت سارے سوالات کرکے اپنے بھانجے کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے بیٹھ جاتی ہیں اور شادی والے دن پھر پوچھتی ہیں کہ یہ سب کی تصویریں کیوں نظر نہیں آرہیں؟ اب سمجھانے والا شخص کہتا ہے کہ ’’ہوسٹ‘‘ نے ابھی ہمیں داخل نہیں کیا، اس لیے ہم ابھی اندر نہیں گئے ہیں۔ اب تو وہ یہ سن کر بڑی خوش ہوتی ہیں اور کہتی ہیں کہ پھولوں کا ہار تیار کررہے ہوں گے مجھے پہنانے کے لیے، یا پھر ساتھ میں گجرے بھی لے رہے ہوں گے، آخر کو میں خالہ ساس جو ہوئی، تو ایسے تو خالی خولی خالہ ساس کو اندر نہیں بلالیں گے، پہلے گجرے بھی تو پہنائیں گے، اور ہاں میں تو دونوں ہاتھوں کے لیے لوں گی، بھئی خالہ ساس کی اتنی تو ویلیو ہونی چاہیے نا۔ اور اس موجود شخص کو لفظ ’’ساس‘‘ سن سن کر ایسے لگتا ہے کہ شاید اسے سانس ہی نہیں آرہی۔ اور وہ میزبان کو موبائل پر کال کرکے کہتا ہے کہ بھئی ہمیں اندر داخل کرلو۔
یہی خاتون جب لیپ ٹاپ استعمال کرنا سیکھتی ہیں تو ’’کنٹرول سی‘‘ اور ’’آلٹر ٹیپ‘‘ کے چکر میں کہ وہ جو صرف قمیصوں کو آلٹر کرانا جانتی تھیں اور درزیوں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتی تھیں کہنے لگتی ہیں کہ ہائے آلٹر کرنا اتنا آسان ہوجائے گا، یہ تو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ پھر انہیں یاد آتا ہے کہ ابھی وہ شادی کی قمیص کو آلٹر نہیں کررہیں بلکہ آلٹر کا بٹن دبا رہی ہیں اور یہ کنٹرول بھی ایک بٹن ہی ہے، جبکہ وہ تو زبان اور نہ جانے کس کس کو کنٹرول کرنے کے کئی کئی طریقے سیکھتی تھیں۔ آج اس ایک ’’کنٹرول‘‘ کے بٹن کو دبانے پر خوشی کا اظہار کرتی ہیں۔
اور جب انہیں شفٹ بٹن دبانے کو کہا جاتا ہے توفوراً اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں کہ ہائے نہیں، یہ شفٹ نہیں دبانا، مجھے کہیں شفٹ نہیں ہونا۔ ہائے کتنا مشکل کام ہے یہ شفٹنگ۔ اُف توبہ۔ نہیں بھئی اس شفٹ سے تو مجھے دور ہی رکھو۔ اور سکھانے والا اب ان خاتون کے سر کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے سر کو دیوار پر دے ماروں یا اپنے سر کو؟ اور پھر آپ کے سر میں تو کچھ ہے ہی نہیں جو نکلے، لہٰذا اسے تو مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور پھر سے باقی بہت کچھ سکھانے کی کوشش کرتا ہے اور ان خاتون کو بتاتا ہے کہ اس لمبے سے بٹن کو ’’اسپیس بار‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی یہ خاتون ’’واؤؤووو‘‘ کہتی ہیں اور بتانا شروع کرتی ہیں کہ اس نام کی تو ہمارے زمانے میں لمبی سی ٹافی آیا کرتی تھی، کیا خوب صورت رنگ کا اس کا کور ہوتا تھا کہ اسے ہی دیکھ کر بندہ فوراً اٹھا لے۔ آنکھیں بند کرکے پھر بولنا شروع کرتی ہیں کہ جامنی رنگ کے ساتھ سفید رنگ کا امتزاج کیا خوب صورت لگتا تھا اور پھر اس کور کو کھولنے پر اس میں نکلنے والی مزیدار سی ٹافی… اس کا ذائقہ ابھی بھی منہ میں پانی لارہا ہے۔ اب وہ ہاتھ سے اس بٹن کو دبائے جارہی ہیں تو زبان سے اس کے ذائقے کو ایسے محسوس کررہی ہیں جیسے اسی بٹن سے یہ ٹافی نکل آئے گی۔ اور وہ سکھانے والا کہتا ہے: ہم آپ کو نہیں سکھا سکتے، آپ کو کچھ سکھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیوں کہ آپ کو سکھاؤ چاول اور آپ سیکھتی چنا ہیں۔ یہ سُن کر تو وہ خاتون تلملا اٹھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ٹھیک ہے ہمیں بھی نہیں سیکھنا، جب سکھانے والے کے اتنے نخرے تو ہمارے بھی کچھ کم نہیں۔
اتنے میں ان کی سہیلی جو دو سگنل آگے رہتی ہے، اس کا فون آتا ہے، وہ کہتی ہے کہ سگنل پر آجاؤ فوراً۔ اور وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں اور سگنل پر پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن وہاں تو ان کی دوست موجود ہی نہیں ہوتی۔ اب تو یہ خاتون شدید جھنجھلاتی ہیں کہ مجھے کہا فوراً سگنل پر آؤ اور خود موجود نہیں۔ اب پھر موبائل پر کال کرکے کہتی ہیں کہ میں تو آگئی لیکن تم مجھے نظر ہی نہیں آرہیں۔ اس پر ان کی دوست بھی حیران ہوتی ہے کہ ہاں میں تمہیں سگنل پر کال تو کررہی ہوں لیکن تمہاری کال تو مل ہی نہیں رہی۔ اب یہ خاتون چکرا جاتی ہیں کہ سگنل پر کال…! اور پھر بڑی مشکل سے انھیں سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں تو ’’ایپلی کیشن۔ سگنل‘‘ پر آنے کا کہا جا رہا تھا۔
اور یہی سکھانے والا ایک دن انہیں دوبارہ لے کر بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ’’فائل‘‘۔ اور اس لفظ سے تو انہیں اپنے ابا جی یاد آتے ہیں کہ میرے ابا جی کو ایک ایک فائل کی لاکھوں کی آفر ہوتی تھی لیکن مجال ہے جو انہوں نے کبھی اوپر کی کمائی لی ہو۔ ہمیشہ حلال کھلایا، اسی لیے آج بھی کبھی کچھ غلط کرنے لگیں تو ابا جی کی شکل سامنے آجاتی ہے کہ بیٹا ہمیشہ حلال کھلایا ہے لہٰذا حرام سے بچنا۔ اور وہ سکھانے والا کہتا ہے کہ یہ اور یہ ’’آپشن‘‘ بھی سلیکٹ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سن کر وہ بٹنوں کی دکان پر پہنچ جاتی ہیں کہ مجھے تو جب بھی دکان دار آپشن دیتا کہ لال رنگ کی کناری کے ساتھ گولڈن رنگ والے پھول دوں یا سلور رنگ والے؟ تو مجھے تو ہمیشہ گولڈن رنگوں والا آپشن بہتر لگتا۔ اور یہ سکھانے والا جب لفظ ’’سیو‘‘ پر پہنچتا تو یہ خاتون بھی چھٹو خالہ کی یادوں میں پہنچ جاتیں کہ کیسے وہ سارے محلے کی خواتین کی قیمتی چیزوں کو سیو کیا کرتی تھیں، جو سب کی کمیٹیوں کو ایمان داری سے رکھتیں اور سیونگ کے سارے طریقے بھی انھوں نے ہی سکھائے۔ پھر یہ سکھانے والا غلطی سے ان کے سامنے ’’اینی ڈیسک‘‘ کا ذکر کر بیٹھتا ہے اور پھر افسوس کرتا ہے کہ اس ڈیسک سے تو انہیں اپنے اسکول کے قصے یاد آجاتے ہیں کہ ٹیچر کی غیر موجودگی میں اپنی سہیلیوں کی ڈیسک پر بھاگ بھاگ کر جانا اور مانیٹر سے ڈانٹ کھانا، اور اسی دوران ٹیچر کا بھی کلاس میں آجانا اور ایسے میں دوڑتے ہوئے اپنی ڈیسک پر آنا… کیا مزے تھے اُس وقت کے، کیا شرارتیں تھیں اُن دنوں کی کہ دوسرے کی ڈیسک کے پیچھے بیٹھی اس کی سہیلیوں کی قمیصوں پر گرہ لگا دینا کہ ایک اٹھتی تو دوسری بھی اٹھ جاتی اور پھر ان خاتون کا معصومیت سے پوچھنا کہ کیا اس اینی ڈیسک پر بھی ایسی شرارتیں کی جا سکتی ہیں؟ یا اس وقت میں پھر سے جایا جا سکتا ہے؟ اس سے پہلے کہ سکھانے والا شخص کچھ کہے، وہ کہتی ہیں کہ میں تو اپنا ہنر کڑھائی اور سلائی کو ہی سمجھتی تھی کہ مجھے ڈنڈی ٹانکہ، زنجیری ٹانکہ، چار سوتی سلائیوں میں انگرکھا سینا اور غرارہ کاٹنا آتا ہے، لیکن یہاں آج کی دنیا میں ’’cut‘‘ اور ’’seen‘‘ کے الفاظ سے بھی واقف ہوگئے۔ اور کہتی ہیں کہ ان ساری چیزوں کے ساتھ ان ایپلی کیشنز سے واقفیت اورلیپ ٹاپ اور پرنٹر کا استعمال سیکھنا ہی پڑے گا کہ ہاں یہ سب آج کی ضرورت ہے تو پھر مثبت کاموں کو کرنے کے لیے ان کا استعمال آنا بھی ضروری ہے۔