آبگینے

98

’’ارے… ارے… دعا کو ذرا ٹھیک طرح سے بٹھائیں، تھوڑا پیچھے ہوکر!!‘‘

’’پردے ڈالیں دروازوں کھڑکیوں پر، آسمان نہیں دکھنا چاہیے بیوہ کو، شیشے کو بھی اخبار یا کسی کاغذ سے چھپائیں، بیوہ شیشہ بھی نہیں دیکھ سکتی۔‘‘

’’ارے بہن! عدت کے دوران بڑی باریکیاں ہوتی ہیں، انہیں نبھایا نہ جائے تو گناہ گاروں میں شمار ہوںگے۔‘‘

محلے کی ایک بڑی بی اور چند خواتین نے میت کے گھر والوں کو عدت کے دوران نبھائے جانے والے تمام فرائض سمجھاتے ہوئے کہا۔

سنبل جو ابھی کچھ دنوں پہلے ہی یہاں شفٹ ہوئی تھی، اُس نے ناگواری سے ان کو دیکھتے ہوئے کہا ’’نہیں یہ بالکل فضول باتیں ہیں کہ عدت میں شیشہ نہ دیکھا جائے یا آسمان کی جانب نہ دیکھیں۔‘‘

’’دعا! سورہ بقرہ میں عدت کے احکامات ہیں، آپ بس ان کو پڑھ لیں۔ میں آپ کو تفسیر قرآن لادوں گی۔‘‘

وہ دعا کے چہرے پر پھیلی ناگواری دیکھ چکی تھی، اور وہ خواتین بھی گھڑی گھڑائی باتوں کو یقین سے بیان کررہی تھیں۔

دعا کے میاں کا اچانک ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا، ایک ہی گھر میں تین بھائی اوپر نیچے الگ الگ پورشن میں رہتے تھے۔ دعا گرائونڈ فلور پر اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ رہتی تھی جب کہ اوپر کے دو پورشن میں اس کے جیٹھ رہتے تھے۔ دعا کے دو بیٹے اور ایک بیٹی زیر تعلیم تھے۔ دعا کے شوہر مالی طور پر مستحکم تھے جب کہ دعا بھی شوقیہ جاب کرتی تھی اور اپنی تنخواہ کا آدھے سے زیادہ حصہ اپنے لباس، بنائو سنگھار میں خرچ کردیتی تھی۔ آئے دن گھومنا پھرنا، ہوٹلنگ کرنا تو جیسے میاں بیوی کا شوق تھا۔

’’ہائے بے چاری دعا! کیسے چار مہینے دس دن اس طرح ایک کمرے میں بند گھٹ گھٹ کرگزارے گی! اب تو جاب پہ بھی نہیں جا سکے گی، کیسے گھر کے اخراجات پورے کرے گی!‘‘ دعا کی سہیلیوں اور کولیگز کو دعا پر بڑا ترس آرہا تھا جو خود بھی کچھ ماڈرن سی دکھائی دے رہی تھیں۔

دعا بہت گھٹن محسوس کررہی تھی، اسے رہ رہ کر محلے کی ان خواتین پر بھی غصہ آرہا تھا جو عدت میں مزید پابندیوں کا درس دے رہی تھیں اور اسے بھی یہ سب مجبوراً کرنا پڑ رہا تھا۔ آخر شوہر کی وفات کے بعد عدت بھی ضروری ہے جس میں بیوہ نہ آسمان دیکھ سکتی ہے، نہ شیشے میں اپنا چہرہ۔

سنبل کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ ہمارا معاشرہ صرف عدت میں ہی پردہ کرنے پر زور دیتا ہے۔

سنبل کو اس محلے میں شفٹ ہوئے چند دن ہی گزرے تھے اور دعا کے پڑوس میں ہی اس کا گھر تھا۔ ابھی اس نے سوچا ہی تھا کہ گھر کی ترتیب کے بعد پڑوس کی خواتین سے ملاقات کروں گی کہ اچانک دعا کے شوہر کے انتقال کی خبر آگئی۔ دعا آفس آتے جاتے اکثر نظر آجاتی تھی مگر اب تک ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

دعا کی عدت کا آج دوسرا دن تھا، اسے نیند بھی نہیں آرہی تھی۔ فجر کی اذان اُس کے کانوں میں پڑی۔ آج سے پہلے کبھی اس نے فجر کی نماز ادا نہیں کی تھی اور باقی نمازیں بھی وقت ملا تو پڑھ لیں، مگر آج فجر کی اذان جیسے اس کی روح میں سرائیت کر گئی۔

فجر کی پکار کا جواب دہرا رہی تھی، دل میں سکون سا اتر آیا۔ اٹھ کر وضو کیا اور جائے نماز پہ کھڑی ہوگئی۔ نماز کے بعد ہاتھ اٹھائے اپنے شوہر کی مغفرت اور بچوں کے بہترین مستقبل کی دعائیں مانگنے لگی کہ ’’میرے مولا! میرے لیے آسانی پیدا کردے، آج تک کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، آئندہ بھی تُو مجھے اور میرے بچوں کو صرف اپنا محتاج رکھنا۔‘‘ اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔

رب کی قربت پاکر آج خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کررہی تھی۔ پھر اکثر ایسا ہونے لگا، اپنے رب سے سرگوشی اُسے ڈھارس دیتی۔

سنبل آج ہفتے بعد دعا سے ملنے آئی۔ اپنا تعارف کروایا۔ دونوں بہت جلد گھل مل گئیں۔ سنبل نے محسوس کیا کہ دعا اپنی عدت سے بے زار ہے، کب یہ دن ختم ہوں اور وہ آزادی کی سانس لے سکے۔

تھوڑے ہی عرصے میں دونوں کی دوستی بہت گہری ہوگئی۔ سنبل دوپہر کا کھانا ساتھ لے جاتی اور دونوں ساتھ مل کر کھاتیں، اور خوب باتیں کرتیں۔ باتوں باتوں میں دعا کو پتا چلا کہ سنبل نے چند سال قبل اپنے شوہر کو کھودیا تھا، اس کے شوہر کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ سنبل نے بتایا کہ میری دوسری شادی میرے کزن سے ہوئی ہے۔

’’سنبل! تم بھی اتنی چھوٹی عمر میں بیوگی کا دکھ جھیل چکی ہو جب کہ تمہارے تو ہنسنے کھیلنے کے دن تھے۔‘‘

’’نہیں دعا! میں جتنا آج ہنس کھیل رہی ہوں، پہلے اتنا خوش کبھی نہیں تھی۔ میرے سابقہ شوہر اور اُن کی فیملی بہت ماڈرن تھی جب کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو اُن کے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرتی رہی، کیوں کہ میرے شوہر کی خواہش تھی کہ اس کی بیوی نت نئے فیشن کے لباس زیب تن کرے، بنائو سنگھار کرے، کسی بھی محفل میں جائے توسب سے حسین دکھائی دے، سب اسے ستائشی نظروں سے دیکھیں اور سراہیں، اور میرے حُسن اور ذوق کی تعریف کریں، میرے انتخاب پر رشک کریں۔ اُن کی ضد پر شادی کے بعد بھی آفس جوائن کیا ہوا تھا۔ میں شادی سے پہلے انہی کے آفس میں جاب کرتی تھی اور ہم ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے، پھر ہم نے شادی کرلی، مگر مجھے یہ سب پسند نہیں تھا، میری خواہش تھی کہ میں شادی کے بعد ایک ہائوس وائف کی طرح زندگی گزاروں۔ شوہر کی خواہش پر میرے سجے سنورے وجود کو میرے دیوروں اور مخلوط محفلوں میں مردوں کا عجیب سی نظروں سے دیکھنا، میری والہانہ اور بے ساختہ تعریف کرنا مجھے زہر لگتا۔ میں اکثر ان سے کتراتی، مگر ان کی نظروں سے خود کو بچا نہیں پاتی تھی۔ کیسے ان کی نظروں سے بچاتی خود کو؟ آخر دعوتِ نظارہ بھی تو میں ہی پیش کررہی تھی۔

میرے شوہر کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ شکایت کرنے پر کہتے کہ ’’یہ سب عام باتیں ہیں، ہم جس سوسائٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہاں یہ سب چلتا ہے۔‘‘

دعا، سنبل کی باتیں بڑے غور سے سن رہی تھی، اسے بھی وہ مناظر یاد آنے لگے جب اس کے خاندان کے مرد اور آفس کے کولیگز اس کی تیاری پر اسی طرح چبھتی نظروں سے اسے دیکھتے تو اسے بھی بڑا غصہ آتا تھا۔ جی کرتا کہ سب کو کھری کھری سنا دے۔ مگر یہ تو آج سمجھ میں آیا کہ عورت خود ہی دعوتِ نظارہ پیش کرتی ہے۔

سنبل اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی ’’پھر ایک وقت آیا جب اعجاز کو بزنس میں بہت بڑا نقصان ہوا۔ وہ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور ہارٹ اٹیک نے ان کی جان لے لی۔ مجھے اپنے شوہر کی وفات کا بہت صدمہ تھا، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ مگر دعا! تم یقین کرو جب میں عدت میں تھی تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے چار مہینے دس دن چھٹی ملی ہو۔ میں کتنی محفوظ ہوگئی ہوں۔ یوں لگتا جیسے میں آزاد ہوگئی ہوں۔ اُن دنوں غیر محرم رشتوں سے پردے نے مجھے بہت محفوظ رکھا۔ میرے پورشن میں صرف گھر کی اور رشتے دار خواتین ہی مجھ سے ملنے آتی تھیں۔

میں نے اپنے رب کا بے حد شکر ادا کیا، عدت کے دوران ہی میں نے حجاب لینا شروع کردیا۔ میں ہر روز خود کلامی کرتی ’’سنبل! تم ایک خوب صورت اور قیمتی موتی ہو، لوگوں کی میلی نظروں سے خود کو بچائو، تمہاری عزت، تمہارا وقار تو پردہ ہے۔ صرف عدت ہی پردے کا نام نہیں، یہ تو اپنے رب سے پوری زندگی کی کمٹمنٹ ہے۔‘‘ بس پھر وہ دن اور آج کا دن، میں بغیر حجاب کے باہر نہیں نکلی، میرے موجودہ شوہر جمیل صاحب میری اور میرے حجاب کی بہت قدر کرتے ہیں۔‘‘

دعا تو جیسے سنبل کی باتوں میں کھو سی گئی، اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

سنبل نے دعا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا ’’میری پیاری دعا! میری پیاری بہن! ہم وہ آبگینے ہیں جنہیں ذرا سنبھل کے چلنا ہے۔‘‘

دعا نے ایک نئے عزم کے ساتھ سنبل کا ہاتھ دبایا اور دونوں مسکرادیں۔

حصہ