بزم محبان ادب کے زیر اہتمام تقریب پذیرائی اور مشاعرہ

67

گزشتہ ہفتے ادبی تنظیم بزمِ محبان ادب انٹرنیشنل پاکستان کے زیر اہتمام دبستان بار پاکستان کے اعزاز میں تقریب پزیرائی اور مشاعرہ آرگنائز کیا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی۔ اختر سعیدی اور انجم عثمان مہمانانِ خصوصی تھے۔ سہیل احمد اور ثمرین ندیم مہمانان اعزازی تھے۔سفیان ادریس نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل جب کہ یوسف صدیقی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ کشور عروج نے نظامت کیفرائض کی انجام دہی کیساتھ ساتھ خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ بزمِ محبان ادب ایک غیر سیاسی ادارہ ہے جو تواتر کے ساتھ ہر مہینے ادبی پروگرام ترتیب دے رہا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ممکن ہو۔ اس وقت کراچی میں کئی ادبی گروپ بن گئے ہیں جو کہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اس صورت حال سیاردو ادب کی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ اردو زبان و ادب پوری دنیا کی زبان میں چوتھے نمبر پر ہے۔ یہ ایک عالمی زبان بن چکی ہے۔ حکومتی اداروں کی زبان انگریزی ہے جب کہ عدالتی احکامات کے تحت اردو کو سرکاری زبان ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادبی تنظیم دبستان بار پاکستان کراچی وکیلوں کی تنظیم ہے جو کہ اردو ادب کی ترقی میں مصروف عمل ہیؤ۔ اس کے معتمد اعلیٰ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ ہیں۔ آج کا پروگرام ہم جناح آڈیٹوریم کراچی بار ایسوسی ایشن میں کر رہے ہیں تاکہ وکیلوں کی کثیر تعداد مشاعرہ گاہ میں آئے۔ عابد شیروانی نے کہا کہ وہ مذہبی‘ لسانی اور علاقائی گروہ بندیوں کے خلاف ہیں‘ ہم سب مسلمان ہیں‘ ہمیں متحد رہنا ہوگا ورنہ ہمارے دشمن کامیاب ہو جائیں گے۔

افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہوہ بزمِ محبان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے لیے یہ محفل سجائی۔ بات دراصل یہ ہے کہ اردو ادب کو پروان چڑھانے کے لیے ہمیں ایک ہی صف میں شامل ہونا پڑے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قلم کاروں کے ہاتھ مضَبولط کریں‘ ان کے مسائل حل کریں‘ حکومتی سطح پر قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

اختر سعیدی نے دبستان بار کے عہدیداروں اور اراکین کے بارے میں تفصیلی منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ کو بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے خوب داد و تحسین حاصل کی۔ بشریٰ اقبال ایڈووکیٹ نے کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترقی میں کراچی کی تمام ادبی تنظیمیں شامل ہیں جن میں دبستان بار پاکستان بھی ایک اہم حوالہ ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وکلاء میں بھیشاعری کے رجحانات بڑھ گئے ہیں۔ وکیلوں کی کئی ادبی تنظیمیں قائم ہیں جو مسلسل مشاعرے منعقد کر رہی ہیں۔ عامر نواز ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاعری سے ذہنی سکون میسر آتا ہے لہٰذا وکلا کی تعداد بہت زیادہ ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اردو ادب کی خدمت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔

پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ 1827ء میں ملکہ وکٹوریہ نے دنیا کے سامنے ایک نظریہ پیش کیا جس میں ترقی کرنے کے عوامل بتائے گئے تھے۔ میگنا کارٹرل ایک دانشور تھا اس نے اپنے وطن کے لیے بہت کام کیا ہم نے 1973ء میں ایک متفقہ آئین بنایا جس کے تحت پاکستان چل رہا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب ثقافتیں ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں تو ایک قوم بنتی ہے کسی بھی قوم کے لیے بیانیہ ضروری ہوتا ہے۔ زندگی کی پیچیدگیوں کا علم ہونا بہت ضروری ہے جب تک پاکستان میں اپنا بیانیہ رائج نہیں کرتے ہم دوسرے ممالک کے برابر نہیں آسکتے۔ پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اردو زبان کو ایک بیانیے کے طور پر نافذ کریں۔

اس پروگرام میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھے جو کہ ہر اچھے شعر پر خوب داد دے رہی تھی۔ مشاعرے میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ اختر سعیدی‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ فرح کلثوم ایڈووکیٹ‘ ایم ایم سرفراز ایڈووکیٹ‘ حنا سجاول ایڈووکیٹ‘ علی کوثر‘ کشور عروج‘ فرخ اللہ شاد‘ شاہ زین فراز‘ ففرح دانش ایڈووکیٹ‘ شبانہ تار‘ افتخار خان زادہ‘ منتشا اعلیٰ‘ نورین فیاض اور انیلہ نعمان نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

تحریکِ نفاذ اردو کے زیر اہتمام مذاکرہ اور مشاعرہ
تحریک نفاذ اردو نے معروف شاعر رشید خان رشید کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کیا۔ خالد عرفان کی صدارت میں ہونے والے اس پروگرام میں اختر سعیدی مہمان خصوصی اور مظہرہانی مہمان اعزازی تھے جبکہ مہمانِ توقیر سید صلاح الدین اختر تھے۔ شاہد اقبال نظامت کے فرائض انجام دیے موصوف ایک روڈ حادثے میں شدید زخمی ہوئے تھے اب کچھ بہتر ہیں ادبی پروگراموں کی زینت ہیں۔ سمیر رضا نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی یوسف چشتی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ قاسم جمال نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ تحریکِ نفاذِ اردو کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ عدالتی احکام کی روشنی میں اردو زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کرایا جائے اس سلسلے میں ہماری کوششیں بہت جلد رنگ لائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تنظیم اردو ادب کے لیے بھی کام کرتی ہے۔ آج ہم نے کراچی کے معروف شاعر رشید خان رشید کی یاد میں ان کی تیسری برس کے موقع پر یہ تقریب سجا کر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں رشید خان ایک ماہر تعلیم‘ شاعر اور اسکائوٹ لیڈر تھے۔ وہ نظامت کاری کے حوالے سے بھی معتبر تھے انہوں نے کئی عالی شان ادبی تقریبات کی نظامت کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ہم ایک اہم شاعر سے محروم ہو گئے ہیں۔

محمد علی گوہر نے کہا کہ رشید خان ایک نیک سیرت انسان تھے انہوں نے جہالت کے اندھیروں میں علم و فن کے چراغ روشن کیے۔ ان کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آئے ہیں۔ دوسری کتاب ان کے انتقال کے بعد پر مارکیٹ میں آئی تھی ان کی شاعری میںگہرائی اور گیرائی کے ساتھ ساتھ غنایت موجود ہے‘ وہ ایک بہترین نظامت کار بھی تھے‘ ان کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔

اختر سعیدی رشید خان کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ مظہر ہانی نے کہا کہ رشید خان ایک علم دوست شخصیت تھے‘ وہ ساری عمر زندگی کی مشکلات سے نبرد آزما ہوئے اور ہر مشکل وقت میں کامیاب رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے۔

خالد عرفان نے صدارتی خطاب میں کہا کہ اپنے لوگوں کو یاد کرنا ایک اچھی علامت ہے۔ آج رشید خان کے دوست اس محفل میں موجود ہیں اور ان کے بارے میں گفتگو سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ایک نیک سیرت انسان تھے‘ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا جو کہ خوش آئند اقدام ہے۔ اس موقع پر خالد عرفان نے اپنا کلام بھی پیش کیا۔ ان کے بعد اختر سعیدی‘ مظہرانی‘ سحر تاب رومانی‘ ڈاکٹر نثار‘ محمد علی گوہر‘ شاہد اقبال‘ یوسف چشتی‘ یاسین وارثی‘ انور انصاری‘ انجم جاوید‘ احمد اقبال‘ افضل ہزاروں‘ اسحاق خان اسحاق‘ کامران صدیقی‘ عاشق شوکی‘ کاوش کاظمی‘ زبیر صدیقی اور محمد طاہر نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ