آخر شب کے ہم سفر

49

’’نہیں، میں جتنا چاہتا ہوں، اس کی تعلیم کا انتظام ہوجائے۔ مگر رابعہ امی کے انتقال کے بعد گھر سنبھالنے میں جُٹ گئی۔ اگر مجھے کبھی ڈھاکے آنے کو ملا تو مکان لے کر اسے یہاں بلالوں گا۔ اگر میں ابا کو یہ یقین دلادوں کہ وہاں پردے کا مکمل انتظام ہے تو ابا شاید علی گڑھ گرلز کالج بھی بھیجنے کو تیار ہوجائیں‘‘۔

’’وہ ہنس پڑا‘‘۔ ابا کو اگر یہ معلوم ہو کہ میں دہریہ… دہریہ ہوگیا ہوں تو ان پر آسمان گرپڑے۔ میں اُدما جب بھی گائوں جاتا ہوں، تو باقاعدہ ابا کے ساتھ جمعہ گھر میں نماز پڑھتا ہوں‘‘۔

’’اوہ… ہائوفنی…‘‘ اُدما نے زور سے قہقہہ لگایا۔
نہ جانے کیوں ریحان کو ادما کا یہ قہقہہ ناگوار گزرا، وہ نظریں اُٹھا کر باغ کو دیکھنے لگا۔

ادما نے اس کی طویل خاموشی سے گھبرا کر پوچھا۔ ’’تمہارا گھر تو بڑا خوبصورت ہوگا۔ آرٹسٹک‘‘۔

ہاں بے حد خوبصورت ہے۔ تمہارے ووڈ لینڈز سے کہیں زیادہ خوبصورت۔ اس کی پھونس کی چھت زرد پھولوں کی بیل سے ڈھکی ہوئی ہے۔ سامنے سبزی باڑی ہے۔ اور گھنی، سرسبز بنسلی پیچھے ہمارا تالاب کنول کے پھولوں سے بھرا رہتا ہے۔ اس کے کنارے سپاری اور ناریل کے سڈول درخت کھڑے ہیں۔ باڑے میں گائیں رہتی ہیں۔ پچھلے برآمدے میں پالکی رکھی ہے۔ ندی پر ابا کی نائو بندھی رہتی ہے۔ اسی کو کھیتے ہوئے ابا پار کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھانے جاتے ہیں۔ نائو ہی میں ایک گائوں سے دوسرے گائوں جاتے ان کی عمر گزری۔ اس کے علاوہ وہ کوئی سواری نہیں جانتے… امی بتاتی تھیں کہ یہی نوکا کھیتے وہ ان کے چچا زاد بھائیوں کو پڑھانے اپنے گائوں سے نواب نور الزماں کی دیہاتی حویلی جایا کرتے تھے۔ کیسا زمانہ تھا… کیسے لوگ… ابا ساری عمر میں صرف تین چار مرتبہ ہی موٹر میں بیٹھے ہیں۔ جب میرا داخلہ اسکول میں کرانے ڈھاکے آئے تھے اور ماموں جان کی بیوک ان کی خدمت میں حاضر رہتی تھی۔

’’اور پھر ہمارا گائوں۔ کسانوں کے خوبصورت جھونپڑے۔ گائوں کا ٹول۔ کالی باڑی۔ نَٹ مندر۔ جمعہ گھر، چوپال، بازار، منڈی۔ برگد تلے گھاٹ۔ درگاہ… میرا گائوں دنیا کا حسین ترین گائوں ہے۔ اور میرا گھر دنیا کا حسین ترین گھر… کبھی میں تم کو اپنا گھر لے جا دکھائوں گا… اور دیپالی کو…

’’اور قبرستان جہاں امی کی قبر ہے…‘‘ وہ چپ ہوگیا۔ چند منٹ بعد اس نے اُدما کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میری امی اتنی کم عمر تھیں۔ وہ مجھ سے صرف سولہ برس بڑی تھیں، اور میری بڑی بہن معلوم ہوتی تھیں۔ اگر آج زندہ ہوتیں تو تم سے بھی زیادہ بڑی نہ لگتیں۔ بعض مرتبہ تم میں ان کی جھلک سی دکھائی پڑتی ہے۔ خصوصاً جب ڈانٹتی ہو… تو بالکل امی جیسی لگتی ہو‘‘۔

ادما کے چہرے پر کرب اور ناگواری کا بادل گندگیا۔ جسے ریحان نے نہیں دیکھا۔ وہ کہتا رہا۔

’’امی تو مر گئیں۔ اب کہیں تو نہ مر جانا ادما…‘‘

’’ریحان…‘‘ ادما ن درشتی اور تلخی سے اس کی بات کاٹی۔ ’’اب اُٹھنا چاہئے۔ تم جا کر تیار ہو‘‘۔

’’ہاں‘‘۔ وہ چونک کر بولا۔ ’’ابھی جاتا ہوں‘‘۔

’’کھانا کھاتے جانا‘‘۔

’’نہیں کھانا سریندر کے ساتھ کھائوں گا، اور اس کے بعد…‘‘ اس نے اُٹھ کر طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’ارجمند منزل میں نواب قمر الزماں چودھری سے سیاسی گفت و شنید… کل شام لیگ آفس کے سیکرٹری سے ان کے ساتھ ساڑھے پانچ بجے کا اپوانٹمنٹ کروایا تھا۔ ابھی سریند کے ہاں بیگم بازار جانا ہے۔ بھاگتا ہوں‘‘۔

وہ اپنے کمرے کی طرف لپکا۔

’’ارجمند منزل جاتے ہوئے ڈر تو نہیں لگ رہا؟‘‘ ادما نے پیچھے سے آواز دی۔ ’’اگر وہاں ٹھکائی وغیرہ ہو تو مجھے فون کردینا۔ تمہاری مدد کے لیے آجائوں گی‘‘۔

’’یو آر نوٹ بینگ ویری فنی ادما…‘‘ ریحان نے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔

ادما کھوکھلی سی ہنسی ہنسیں اور میز پر بیٹھی کانٹے سے لکیریں کھینچتی رہیں۔ پھر سیزر کو بلانے کے لئے باغ میں اُتر گئیں۔

(27)
جہاں آرا بیگم
اس وقت ارجمند منزل پر یک لخت ایسی خاموشی چھا گئی، جیسے ساگوان کے جھرمٹ میں چھپے کسی جادو گر نے چپکے سے کوئی منتر پھونک دیا ہو۔ اور چرند پرند، شجر حجر، انسان سب سکتے میں رہ جائیں۔

جہاں آرا اوپر کی منزل پر پچھلے برآمدے میں چق کے پیچھے آرام کرسی پر بیٹھی نوزائیدہ بھتیجے کے لیے موزے بن رہی تھی۔ اور اپنے پائوں جنگلے کی نچلی جالی میں اٹکا رکھے تھے۔ جنگلے کی سلاخوں میں سے اس نے ابا کی جھلک دیکھی۔ جو سوچ میں ڈوبے پائیں باغ میں ٹہل رہے تھے۔ اور پھر لیگ آفس کا بہاری کلرک ان کے نزدیک پہنچا اور ابا اس کے پیچھے باہر چلے گئے۔

باورچی خانے میں جا کر دعوت کی دیفوں کا معائنہ کرنا ہے، پلائو دم کروانا ہے۔ شاہی ٹکڑے تیار کرنے ہیں… دلہن بھابی اپنے کمرے میں آرام سے سو رہی ہیں۔ امی حسب معمول اپنے کمرے میں صاحب فراش ہیں۔ جانے ان کو اختلاج کے دورے اتنے کیوں پڑتے ہیں۔ ابا تو ان کا اتنا خیال رکھتے ہیں۔ امی کو ہر طرح سے خوش رہنا چاہیے۔ ان کے پاس کیا نہیں۔ سہاگ، اولاد، دولت و ثروت بہو بیاہ لائیں۔ پوتا کھلا رہی ہیں۔ کیا وہ اب تک نہیں بھول سکیں کہ ابا ان کے بجائے ملیحہ پھوپھی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ مگر وہ تو اتنی پرانی بات ہوگئی۔

بے چارے ابا۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں۔ صرف میں نے محسوس کی ہے۔ اور امی کو تو یقینا معلوم ہے… کہ ابا ملیحہ پھوپھی کو کبھی نہ بھلا سکے۔ وہ مر گئیں تب بھی نہیں۔ مرکے شاید وہ ابا کے دل میں زیادہ محفوظ ہیں۔ جہاں پھوپھا جان کا کوئی دخل نہیں۔

یا اللہ۔ کیسی دنیا بنائی تو نے، انسانی زندگیوں کے ساتھ ایسے بھیانک مذاق۔

انجم اور اختر آرا سگن بگیچے سے اب تک نہیں لوٹیں۔ ہر وقت اپنی دلچسپیاں۔ صرف میں ہی اس لیےہوں کہ ہائوس کیپر بنی رہوں۔ دلہن بھابی نیئر بھائی کو نخرے دکھاتی رہتی ہیں۔ شادی کو ایک سال ہوگیا مگر کیا مجال، جو ہل کر پانی بھی پی لیں۔ اب تو بھئی نئے ولی عہد کی ماں ہیں۔

بس میں سب کی دیکھ بھال کے لیے وقف۔ امی نے کل کیا منہ بھر کے شمسہ خالہ کے سامنے کہہ دیا کہ اپنا گھر تو نصیبے میں نہیں، اسی گھر کی ذمہ داری اچھی طرح سنبھال لو…

اچھا اللہ۔ ٹھیک ہے۔

ایک موزہ مکمل ہوگیا۔ اللہ رکھے میرا منور کتنا پیارا ہے۔ ماشاء اللہ۔ خدا بُری نظر سے بچائے۔ میں نے تو گلابی اون بھی اتنی خریدلی تھی۔ اس کی بھی چیزیں بُن ڈالوں گی۔ لڑکے کیا گلابی رنگ نہیں پہن سکتے۔

’’بی بی… بی بی‘‘۔
جہاں آرا نے چونک کر سر اُٹھایا۔ مالا سامنے کھڑی ہانپ رہی تھی۔ بھاگتی ہوئی اوپر آئی تھی۔
’’بی بی۔ وہ آئے ہیں‘‘۔
دل پھر دھک سے رہ گیا۔
’’کون…؟‘‘
’’رونومیاں‘‘۔
’’رونو… کیا کہہ رہی ہے؟‘‘
’’اللہ قسم۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ باہر بیٹھے ہیں‘‘۔
’’باہر تو روزی اور دیپالی کے بابا آئے تھے‘‘۔
’’وہ تو کبھی کے چلے گئے۔ ابھی بشیر چائے کی تریل لے کر باہر گیا تھا۔ اس نے آکر بتایا، تو میں بھاگی بھاگی گئی۔ باغ والی کھڑکی میں سے جھانکا۔ سرکار اور رونو میاں دونوں دفتر میں بیٹھے ہیں۔ دروازے بند کئے۔ دونوں جنوں میں مسکوٹ ہورہی ہے‘‘۔
ہاتھ پائوں ٹھنڈے پڑ گئے۔
’’جھوٹ مت بول مالا کی بچی‘‘۔
’’اللہ رسول کی قسم، چل کے دیکھ لیجئے‘‘۔
’’دونوں میں بڑی سنجیدگی سے باتیں ہورہی ہیں؟‘‘
’’ہاں ہاں بی بی‘‘۔
کیا دعائیں کامیاب ہوگئیں؟ دعائیں۔ نمازیں، وظیفے، اللہ اللہ۔
وہ اُون اور سلائیاں میز پر ڈال کر جلدی سے اُٹھی۔
’’ٹھہر۔ مالا۔ بھائی جان کہاں ہیں؟‘‘
’’نیئر میاں موٹر لے کر باہر گئے ہیں۔ چلئے‘‘۔

وہ مالا کے ساتھ زینہ اُتر کر کھانے کے کمرے میں پہنچی۔ جو کتب خانے سے ملحق تھا۔ درمیانی دروازہ اندر سے بند تھا۔ عموماً بند رہتا تھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ایک درز پر آنکھ جمادی۔

وہ عین سامنے بیٹھا تھا۔ بڑی میز کے اس طرف، بالکل نہیں بدلا تھا۔ وہی شکل، وہی آنکھیں وہی بال، وہی بات کرنے کا انداز۔ مقابل میں ابا بیٹھے تھے۔ چہرہ چٹان کی طرح سخت، درمیان میں کاغذات اور چائے کی کشتی۔ خالی پیالیاں۔ ہائے اللہ۔ مجھے معلوم ہوتا تو کشتی سجا کر بھیجتی۔ اس نے درز سے کان لگادیئے۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’جی ہاں۔ میں کامریڈ جوشی کو مفصل بتادوں گا‘‘۔

ابا نے عینک ماتھے پر چڑھائی۔ اور کچھ پڑھنے لگے۔ پھر انہوں نے کہنا شروع کیا۔ ’’جناح صاحب کے نکات‘‘۔

اس پر بجلی سی گری۔ وہ اس کے متعلق نہیں اس نامراد سیاست کے متعلق ’’مسکوٹ‘‘ کررہے تھے۔

بولتے بولتے ابا نے سر اُٹھا کر سامنے بند دروازے پر نظر ڈالی۔ وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مالا نزدیک ہی گیلری کے صدر دروازہ پر چوکس کھڑی تھی۔ اس نے وہاں سے اشارہ کیا۔ بیٹھی رہیئے۔ بیٹھی رہیئے۔

وہ پھر کواڑ سے لگ گئی۔

اب ابا کاغذ سمیت رہے تھے، وہ کھڑا ہوچکا تھا۔

’’اندر جا کر اپنی ممانی کو دیکھ آئو، بہت علیل ہیں‘‘۔ ابا ذرا رکھائی سے کہہ رہے تھے۔ مجھے معلوم ہے، مجھے معلوم ہے۔ ابا کی یہ سرد مہری مصنوعی ہے۔ ابا کی خود داری کی وجہ سے ہے۔
’’بہت اچھا‘‘۔

اللہ، اب بھی ان کا دل نرم کردے۔ ابا کا دل بھی نرم کردے۔ اللہ۔ ابا اُن سے میرے لیے بات کرلیں۔ مولا معجزہ دکھا دے۔

’’نیئر میاں۔ کہاں ہیں؟‘‘ ریحان پوچھ رہا تھا۔
’’معلوم نہیں کہیں باہر گئے ہیں‘‘۔ نواب نے جواب دیا۔
ابا انہیں رات کی دعوت کے لیے ہی روک لیجئے۔ ایک اجنبی مسافر کی طرح واپس نہ جانے دیجیے، ابا پلیز۔

’’ممانی جان… اپنے کمرے میں ہوں گی؟‘‘
’’ہاں ہاں۔ وہیں ہوں گی‘‘۔

’’اچھا ماموں جان۔ خدا حافظ‘‘۔ اس نے مصافحہ کے لیے دونوں ہاتھ بڑھائے۔ اور بڑے ادب سے جھک کر ابا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ ’’میں دتی پہنچتے ہی نواب زادہ لیاقت علی خان کو اطلاع کروں گا‘‘۔

’’ٹھیک ہے‘‘۔
’’آداب عرض ماموں جان‘‘۔
’’جیتے رہو‘‘۔

وہ فائل اُٹھا کر دروازے کی طرف بڑھا۔ گیلری میں مالا نے اشارہ کیا۔ جہاں آراء سرعت ڈائیننگ روم کے پچھلے دروازے سے باغ میں اُتر گئی۔ اگر کہیں مڈبھیڑ ہوجاتی۔ گیلری میں سے جانا چاہئے تھا۔ ضرور مڈبھیڑ ہوتی، اور پیچھے سے ابا آجاتے۔ تو کیا ہوتا؟ ابا کا حکم ہے کہ اگر کبھی بھی رونو ارجمند منزل آئے تو جہاں آرا کا اس سے سخت پردہ کرایا جائے۔ وہ تیر کی طرح پچھواڑے پہنچی۔ اور ہانپتی کانپتی سنسان تالاب کے کنارے شکستہ ’’راج سنگھاسن‘‘پر دھم سے جا کر بیٹھ گئی۔

چند منٹ بعد مالا دبے پائوں درخت کے پیچھے سے نمودار ہوئی۔ ’’میں نے اندر جا کر جھونکا تھا رونو میاں بیگم صاحب کے کمرے میں گئے تھے۔ مگر وہ سو رہی تھیں بے سدھ، وہ باہر نکل آئے۔ اب جانے کدھر سے…‘‘ یک لخت وہ چپ ہوگئی۔

وہ پچھلے برآمدے سے اُتر کر باہر جانے کے ارادے سے تالاب کی طرف چلا آرہا تھا۔ جس کا چکر کاٹ کر باغ کی سڑک سامنے کے پھاٹک کی طرف جاتی تھی۔

پھر وہ عین اس کے مقابل میں آن کھڑا ہوا۔ رنگین تخت کے پاس۔ بالکل اسی طرح، جیسے اس روز خواب میں آیا تھا۔ خواب میں دیکھا تھا۔

بارش شروع ہوگئی۔ وہ جلدی سے سیمل کے نیچے آگیا۔

اور تب اس نے جہاں آراء کو دیکھا۔ (جاری ہے)

حصہ