امریکہ کے صدارتی انتخابات:انتخابی یا الیکٹرول ووٹ کیا ہیں؟

61

امریکا میں انتخابات نومبر میں منعقد ہورہے ہیں جن پر دنیا کی نظر ہے۔ ہم امریکا کے انتخابات، اہم شخصیات ،ایشوز ، وہاں کے نظام اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک خصوصی سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر ہفتے امریکا میں مقیم معروف تجزیہ نگار مسعود ابدالی کے مضامین ”سنڈے میگزین“ میں شایع کیے جارہے ہیں۔ ان مضامین کے ذریعے قارئین کو عالمی تناظر میں امریکی سیاست کو سمجھنے اور اہم معاملات کی تفہیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔آپ کے تبصروں اور آراء کا انتظار رہے گا۔

اب جبکہ امریکی انتخابات آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں، چند سطور امریک اکے کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeپر، جس کا ذکر اب آپ بار بار سنیں گے۔ یہ گفتگو ہم چار ماہ پہلے بھی کرچکے ہیں لیکن ممکنہ نتائج کی تفہیم کے لیے یہ سطور دوبارہ پیش کی جارہی ہیں۔ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ آبادی کا ایک فیصد ہونے کے باوجود امریکی مسلمانوں کے ووٹ کلیدی اہمیت اختیار کرچکے۔ اس کی وجہ یہی انتخابی کالج ہے۔

آپ کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ 5 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے لیے 17 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹورل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ مکمل ہونے پر نتائج مرتب کیے جائیں گے اور اسے ایک ڈبے میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائے گا۔ 6جنوری 2025ء کو سربراہِ سینیٹ (امریکی نائب صدر) کی نگرانی میں تمام ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر سرکاری نتیجے کا اعلان ہوگا۔

اب آتے ہیں انتخابی کالج کی طرف۔

امریکا 50 آزاد و خودمختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی ہر ریاست کا اپنا دستور، پرچم اور مسلح فوج ہے۔ کرنسی اور خارجہ امور کے سوا بین الاقوامی تجارت سمیت تمام معاملات میں ریاستیں پوری طرح بااختیار ہیں۔ امریکی صدر وفاق کی علامت اور اس کی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی ہے اور اس مقصد کے لیے ایک کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeتشکیل دیا گیا ہے۔ امریکا میں مرکزی الیکشن کمیشن یا مقتدرہ نہیں اور انتخاب کا انتظام اور نگرانی ریاستیں کرتی ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی بھی ہر ریاست میں الگ الگ جمع کرائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستوں کے بیلٹ پیپر پر امیدواروں کی فہرست مختلف ہوتی ہے۔

کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے اور یہ اس ریاست کے لیے ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کے لیے مختص نشستوں کے برابر ہے۔ امریکا میں ایوانِ نمائندگان کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے اور ہر ریاست سے دو دو سینیٹر منتخب کیے جاتے ہیں۔ امریکا کے ایوانِ نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے، جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹر منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا المعروف واشنگٹن ڈی سی کے لیے انتخابی کالج میں تین ووٹ ہیں۔ یعنی کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے اور 270 یا اس سے زیادہ انتخابی ووٹ لینے والے کے سر پر امریکی صدارت کا تاج رکھا جائے گا۔

الیکٹورل کالج کی ہیئت کو اس طرح سمجھیے کہ نیویارک سے ایوانِ نمائندگان کے 26 ارکان منتخب ہوتے ہیں، چنانچہ 2 سینیٹروں کو ملاکر انتخابی کالج میں نیویارک کے 28 ووٹ ہیں۔ انتخابی کالج میں سب سے زیادہ ووٹ کیلی فورنیا کے ہیں یعنی 54، جبکہ جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، مونٹانا، وایومنگ، الاسکا، ڈلوئر، ورمونٹ اس اعتبار سے بہت چھوٹی ہیں کہ ان کے صرف تین تین ووٹ ہیں۔ الیکٹورل کالج میں ’سارے ووٹ جیتنے والے کے لیے‘ کا اصول اختیار کیا جاتا ہے اور عام انتخابات میں ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی وہاں سے انتخابی کالج کے لیے مختص سارے کے سارے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ یعنی اگر کیلی فورنیا سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام 54 الیکٹورل ووٹ اسے مل جائیں گے۔ صرف ریاست مین (Maine) اور نیبراسکا میں ایک تہائی الیکٹورل ووٹ ایوان نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کیے جاتے ہیں، ورنہ باقی سارے امریکا میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔

یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ قانونی طور سے الیکٹورل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں، اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود گزشتہ ڈھائی سو سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ جب الیکٹورل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی ووٹ ڈالا گیا ہو۔

آٹھ برس پہلے 2016ء کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر 28 لاکھ ووٹوں سے زیادہ کی برتری حاصل تھی لیکن جب تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹ جمع کیے گئے تو صدر ٹرمپ کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد ہلیری کلنٹن سے 77 زیادہ تھی۔ اس سلسلے میں چند دلچسپ مثالیں پیش خدمت ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکا میں صدارتی انتخاب کی مہم سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے۔

گزشتہ انتخابات میں امریکی دارالحکومت میں صدر بائیڈن نے اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے 2لاکھ 98 ہزار ووٹ زیادہ لے کر یہاں مختص 3 الیکٹورل ووٹ اپنے نام کرلیے، جبکہ ایریزونا میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جہاں جناب بائیڈن کو جناب ٹرمپ پر صرف دس ہزار ووٹوں کی برتری کے عوض 11 انتخابی ووٹ ملے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ جارجیا میں ہوا جہاں 12 ہزار کی معمولی برتری حاصل کرکے بائیڈن صاحب نے 16الیکٹورل ووٹ اپنے نام کرلیے۔

جن 6 ریاستوں میں سخت مقابلہ ہے وہاں انتخابی کالج کے ووٹوں کی مجموعی تعداد 79 ہے۔ گزشتہ انتخابات میں یہ تمام ووٹ صدر بائیڈن کو ملے تھے اور اِس بار بھی کملا ہیرس کو کامیابی کے لیے ان ریاستوں سے جیتنا ضروری ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق ان کلیدی ریاستوں میں ٹرمپ اور کملا کے حامیوں کے درمیان فرق ایک فیصد سے بھی کم ہے، چنانچہ مسلمانوں کے ووٹ پلڑے کو اِدھر سے اُدھر کردینے کے لیے کافی ہیں۔

آج کی گفتگو ہم الیکٹورل کالج اور امریکی انتخابی نظام پر ختم کرتے ہیں۔ اس منفرد انتخابی نظام کی روشنی میں متوقع نتائج کا تجزیہ اِن شااللہ اگلی نشست میں۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

حصہ