محمود غزنوی اور سومنات کا مندر

119

افغانستان کے صوبے غزنی میں پیدا ہونے والا ایک عظیم انسان جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی والی ِغزنی سبکتگین کا ہونہار بیٹا حافظِ قران، عالمِ دین ،فقیہ ِوقت ،بہترین سپہ سالار، میدان ِجنگ میں اس کی موجودگی علاّمہ اقبال کے اس مصرع کی تفسیر ہوا کرتی تھی…

’پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے‘

تاریخ گواہ ہے کہ اس مردِ مجاہد نے جتنی بھی جنگیں لڑی کبھی اسے شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا اس کی وجہ چونکہ وہ خود اللہ والا تھا لہٰذا ہمیشہ اللہ کی نصرت اس کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ اس جانباز مردِ مجاہد کو تاریخ محمود غزنوی کے نام سے یاد کرتی ہے۔

اپنے والد سبکتگین کے مرنے کے بعد جب محمود تخت ِشاہی پہ جلوہ افروز ہوا تو اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یا یوں کہہ لوں کہ سب سے بڑا خطرہ پنجاب کا راجہ جے پال تھا جس نے سبکتگین کے دور ِحکومت میں دو مرتبہ غزنی پر یلغار کی اور دونوں مرتبہ شکست سے دوچار ہوا محمود کو اندیشہ تھا کہ جے پال کی رگ ِشیطانیت پھر سے نہ پھڑک اٹھے لہٰذا وہ مستقل چوکنّارہا کرتا تھا اور یہی ہوا جے پال سمجھ رہا تھا کہ ضروری نہیں کہ سبکتگین کا بیٹا بھی سبکتگین کی طرح بہادر ہو لہٰذا اس نے تیسری مرتب اپنی حماقت دہرائی اور غزنی پر حملہ تو کر دیامگر بری طرح اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا بعد ازاں وہ فرار ہو کر لاہور پہنچ گیا تین بار مسلسل شکستِ فاش کھانے کے بعد راجہ جے پال کی احساس ِشرمندی نے اسے خودکشی کرنے پر مجبور کر دیا اور اس نے آگ میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔

راجہ جے پال نے مرنے سے پہلے تخت و تاج اپنے بیٹے آنندپال کے ُسپرد کر دیاتھااور وصیّت کر دی تھی کہ محمود کے خلاف کوئی قدم مت اٹھانا اور برابر سالانہ خراج بھیجتے رہنا مگر وہ باپ سے بھی زیادہ بے وقوف ثابت ہوا اس نے ہندوستان کے راجائوں سے مل کر ایک بڑی فوج تیار کی اور غزنی پر حملہ کرنے کے لیے پشاور پہنچ گیا۔ اس فوج میں بے شمار ہندو رضا کارانہ طور پر شامل ہو رہے تھے کیوں کہ مقابلہ ایک مسلمان سے تھا اور اس طرح ہر روز فوج میں اضافہ ہو رہا تھا لہٰذا تعداد بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اس کی اطلاع محمود کو مل چکی تھی لہٰذا وہ بھی اپنا لشکر لے کر میدانِ جنگ میں پہنچ گیا۔محمود نے اتنا بڑا لشکر پہلی بار دیکھا تھا مگر اللہ نے اسے ہمّت دی اور اس مردِ مجاہد نے اپنے سے تین گنا تعداد میں بڑی فوج سے ٹکرا نے کا عزم کر لیا اور’’ نعرہء تکبیر اللہ اکبر‘‘ کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ نتیجہ وہی نکلا جو آنندپال کے باپ کے ساتھ ہوا تھا آنندپال کو بری طرح شکست ہوئی اور وہ فرار ہو کر بجائے لاہور جانے کے نگر کوٹ چلا گیا یہ ایک پہاڑی علاقہ تھا محمود آنندپال کا تعاقب کرتے ہوئے نگر کوٹ پہنچ گیا مگر آنندپال وہاں سے بھی فرار ہو گیا نگر کوٹ کا قلع فتح کرنے کے بعد محمود کو معلوم ہوا کہ یہاں پر ایک مندر ہے جس میں بے انتہا دولت بھری ہوئی ہے محمود کی قسمت اچھی تھی شاید یہ دولت ہی اسے کھینچ کر یہاںلے آئی تھی محمود نے ساری دولت وہاں سے سمیٹی اور اُونٹوں پر لاد کر غزنی بھیج دی۔ آنند پال نے محمود سے معافی کی درخواست کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں دہرائے گا اور پابندی سے سالانہ خراج بھیجتارہے گا۔ محمود نے اسے معاف کر دیا اور پھر سے پنجاب اس کے حوالے کر دیا۔

ہندوستان کے راجاؤں کے دلوں میں محمود کے لیے بے انتہا نفرتیں تھیں اس کی وجہ راجہ جے پال اور اس کے بیٹے آنند پال کی میدانِ جنگ میں وہ شرمناک شکست تھی جس نے ان ہندئوں کا سر نیچا کر دیا تھا اور وہ موقع کی تلاش میں تھے کہ کب موقع ملے اوروہ سب متّحد ہو کر غزنی پر حملہ کر دیں محمود کے جاسوس پل پل کی خبریں اپنے بادشاہ کو پہنچایا کرتے تھے لہٰذا محمود نے فیصلہ کیا کہ اس سے قبل کہ ہندوستان کے راجہ غزنی پر حملہ کریں کیوں نہ ہم خود ان کے گھر میں گھس کر انہیں ماریں لہٰذا محمود نے ہندوستان پر حملوں کا آغاز کر دیا اور یکے بعد دیگرے 16 حملے کر ڈالے اور ہر بار اللہ نے محمود کو فتح سے ہم کنار کیا اور ہرمرتبہ وہ اچھی خاصی تعداد میں زر و جواہرات حاصل کر کے غزنی واپس گیا۔ اس کا مقصد قطعی طور پر زر و مالِ جہاں لوٹنا نہیں تھا بلکہ ہندوستان کی ان متعصّب ہندو راجاؤں کو سبق سکھانا تھا جو محمود بالفاظ دیگر مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے اور انہیں صفحہ ء ہستی سے مٹانے کے در پے تھے مگر ان بُت پرستوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ…

’’وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے‘‘

اب میں محمود کے اس حملے کا ذکر کرنا چاہوں گا جو گنتی کے اعتبار سے ہندوستان پر ستر ھواں حملہ تھا اور جس کی تاریخ میں ایک خاص اہمیّت ہے کاٹھیاوارگجرات میں واقع سومنات کا مندرجو ساحلِ سمندر پر تعمیر کیا گیا تھا، اس وقت ہندوستان کے بڑے مندروں میں شمار کیا جاتا تھا محمود نے اس مندر پر حملہ کیوں کیا اور اس دور دراز مقام پر فوج کشی کی محمود کو کیوں ضرورت پیش آئی …مؤرّخوں کے بیان کے مطابق ہندوستان کے برہمن اور مذہبی پیشواؤں نے سومنات کے مندر کو محمود کے خلاف سیاسی سرگرمیوں اور سازشوں کا مرکز بنا لیا تھا محمود نے ضروری سمجھا کہ اپنے مخالفین کے اس مرکز کو بھی ختم کر دیا جائے اور محمود کو یہ بھی اطلاع دی گئی کہ اس مندر میں بے اندازہ دولت ہے لہٰذا اس نے بہت بڑے لشکر کے ساتھ 1025 عیسوی میں سفر کا آغاز کیا اور ملتان کے کٹھن راستے کو طے کرتا ہوا ڈھائی ماہ کی مسافت کے بعد گجرات جا پہنچا ۔

گجرات کا راجہ محمود کے اس اچانک حملے سے سراسیمہ ہو گیا اور شہر چھوڑ کر فرار ہو گیا گجرات پہنچ کر محمود نے سیدھا سومنات کا رخ کیا اور سومنات کی فصیلوں کے قریب عین مندر سے متّصل اپنے خیمے ڈال دیے سومنات کا مندر کسی راجہ یا بادشاہ کے محل سے کم نہ تھا چھپّن ستون تھے جو جواہرات سے مرصّع تھے دوسو من سونے کی زنجیر لٹکی ہوئی تھی جس میں سینکڑوں گھنٹے آویزاں تھے اس مندر کے مصارف کے لیے دو ہزار گاؤں وقف تھے دو ہزار پنڈے مندر کی دیکھ بھال کے لیے متعیّن کیے گئے تھے پانچ سو نوجوان اور خوبصورت لڑکیاں بطور داسیاں مندر کی خدمات سر انجام دیا کرتی تھیں مندر کی حفاظت کے لیے دس ہزار راجپوتوں کی فوج بھی ہر دم تیار رہتی تھی۔

سلطان محمود نے جیسے ہی حملے کا آغاز کیا اس کے سامنے دس ہزار راجپوت آگئے اس کے علاوہ عام شہری بھی مسلّح ہو کر سلطان کے خلاف اس لیے کھڑے ہو گئے کہ وہ سب مندر کی عقیدت مندوں میں سے تھے اور انہیں اپنے مندر کو بچانے کی فکر تھی اس طرح ایک بہت بڑا لشکر جمع ہو گیا محمود جیسا بہادر شخص بھی ایسے غیر متوقع حالات دیکھ کر پریشان ہو گیا محمود مندر کی جانب آگے بڑھنے کی انتہائی کوشش کر رہا تھا مگر اسے سخت مقابلہ کرنا پڑ رہا تھا ابھی محمود کو اپنے ان دشمنوں سے جو مندر کے سامنے اس کا مقابلہ کر رہے تھے نجات نہیں ملی تھی کہ قُرب و جوار کے راجاؤں کی چالیس ہزار فوج نے پیچھے سے محمود کے لشکر پر حملہ کر دیا اب محمود کا لشکر چاروں طرف سے گھر گیا تھا آگے بھی فوج پیچھے بھی فوج اور دوسری طرف سمندر لہریں مار رہا تھامحمود نے سمجھ لیا کہ اس معرکہ کا سر ہونا ناممکن ہے اب محمود کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ پلٹ کر اس بڑی فوج پر پِل پڑے جو پشت کی جانب سے محمود کے لشکر کو کاٹتی چلی ا ٓرہی تھی محمود کا پلٹ کر حملہ کرنا تھا کہ پشت کی فوج کے پاؤں اُکھڑ گئے اس کے بعد مندر کی فوج نے بھی ہمّت ہار دی اور مندر میں لڑنے والے سپاہی سمندر میں کودنے لگے تھوڑی ہی دیر میں محمود کا سومنات کے مندر پر قبضہ ہو گیا۔

محمود مندر میں داخل ہوا اور اس جگہ پہنچ گیا جہاں بُت جس کا نام سومنات تھا ایک بڑے کمرے میں ہوا میں معلّق تھا نہ زمین پر ٹکا تھا اور نہ ہی کمرے کی چھت سے کسی طرح لٹکایا گیا تھا محمود یہ حیرت انگیز کرشمہ دیکھ کر حیران ہو گیا مندر کا پُجاری سامنے آگیا اس نے محمود کو متحیّر حالات میں دیکھ کر کہا ’’اگر تم نے ہمارے بھگوان کو ذرا بھی ہاتھ لگایا تو تم بھسم کر دیے جاؤ گے‘‘ محمود کے ساتھ اس کا چہیتا غلام ایاز بھی تھا ایاز نے سلطان کو مشورہ دیا کہ ایک طرف کی دیوار توڑ دی جائے۔ ایاز کا اتنا کہنا تھا کہ پُجاری سلطان کے پیروں پر گر پڑا اور کہنے لگا ’’سرکار یہ نہ کریں ہم بُت کے وزن کے برابر آپ کو سونا دے دیں گے مگر دیوار نہ توڑیں‘‘

دراصل بُت لوہے کا بنا ہوا تھا اس کا منہ کھلا ہوا تھا ہندو اس کے کھلے ہوئے منہ میں سونے چاندی جواہرات ڈالتے تھے بُت کے پیچھے چھوٹی سی کھڑکی تھی پجاری وہ جواہرات وہاں سے نکال لیتا تھا محمود کے ساتھ اس کا ماموں بھی تھا محمود نے اپنے ماموں کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا گویا پوچھ رہا ہو کہ ماموں کیا کیا جائے ماموں نے کہا’’ محمود اس وقت بُت تمہارے قبضے میں ہے تمہارے اختیار میں ہے جو چاہو کرو اگر تم اس کے بدلے سونا لے لو گے تو تاریخ میں تمہیں بُت فروش لکھا جائے گا اور اگر تم اسے توڑ دو گے تو بُت شکن کہلاؤ گے ‘‘محمود نے حکم دیا برابر کی دیوار توڑ دی جائے اور جیسے ہی دیوار توڑی گئی بُت ٹیڑھا ہو گیا اور جب دوسری طرف کی دیوار توڑی گئی تو بُت زمین پہ گر گیا۔

دراصل پُجاری نے چاروں دیواروں زمین اور چھت میں اس طرح چھ جگہوں پر بہت مضبوط قسم کے مقناطیسی پتھر لگا رکھے تھے جو دیواروں میں اس طرح نصب کیے گئے تھے جسے ایک عام انسان کی نظر نہیں دیکھ سکتی تھی چونکہ بُت لوہے کا تھا لہٰذا چھ اطراف سے مقناطیسی پتھروں کی کشش سے ہوا میں معلّق ہو گیا تھا عقیدت مندان اسے بھگوان کا چمتکار سمجھتے تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مندر کا پنڈت(پجاری) طبیعات کا ماہر تھا اور بہت ذہین انسا ن تھااس نے اپنی ذہانت اور کاریگری کو بھگوان کا چمتکار بنا کر بھولے بھالے انسانوں کو ایسا بے وقوف بنایاتھا مندر میں آنے والا عقیدت منداس بُت کے منہ میں اپنی استطاعت کے مطابق سونے چاندی اور جواہرات بطور ’دان‘ ڈال دیا کرتاتھااور جب بُت کا پیٹ بھر جاتا تھا تو مندر کا پنڈت پیچھے کی کھڑکی سے سارا مال نکال لیا کرتا تھا محمود نے بُت توڑ کر سارے چمتکار کو غلطکارثابت کر دیا اور سارا مال اس کے پیٹ سے نکال لیا…اب محمود کو اس خزانے کی فکر تھی جہاں پنڈت نے ہیرے جواہرات چھپائے ہوئے تھے یہ خزانہ تہ خانے میں تھا محمود نے سارا مال خزانہ سے نکال کر اپنے قبضے میں کر لیا ۔ مؤرّخوں کے بیان کے مطابق مندر میں اس قدر زروجواہرات تھے جو شاید کسی بڑی سے بڑی سلطنت کے خزانے میں بھی نہیں ہو سکتے تھے۔

غرضیکہ محمود نے پنڈتوں اور ہندو راجاؤں کے اس سیاسی سرگرمیوں کے مرکز کو جو انہوں نے محمود کے خلاف بنا رکھا تھا تباہ و برباد کر دیا ۔ یہ محمود کا ہندوستان پر سترھواں اور آخری حملہ تھا جو 1025عیسوی میں واقع ہوا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمود غزنوی ایک بہادر فوجی جرنیل تھا وہ ہندئوں کا دشمن نہیں تھا ،مگر ہندو راجائوں اور پنڈتوں کی محمود کے خلاف نفرتوں نے حالات ایسے پیدا کر دیے کہ محمود کو مجبوراً انہیں سبق سکھانے کے لیے شمشیر بکف ہونا پڑا۔ اب یہ اس کی قسمت تھی کہ اس نے جتنی بھی جنگیں لڑیں بے شمار زروجواہرات بھی اس کے ہاتھ آئے۔ پنجاب پر پہلے ہی اس کی حکومت قائم ہو چکی تھی جہاں محمود نے میں اپنے غلام ایاز کو بطور گورنر مقرر کیا ہوا تھا 1030 عیسوی میں محمود بیمار پڑ گیا اور یہی بیماری اس کی موت کا سبب بنی محمود غزنوی 63 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا مگر تاریخ کے اوراق نے آج بھی اس بُت شکن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

قوم اپنی جو زر و مالِ جہاں پر مرتی
بُت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی

حصہ