گریٹر اسرائیل کا شور اور اسکرین کے قیدی

90

گریٹر اسرائیل :
ٹوئٹر پر اس ہفتے ایک ٹرینڈ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا بھی چلا، جس میں صیہونیوں کے اس تصور کو نمایاں کیاگیا کہ وہ کیا اور کہاں تک زمین چاہتے ہیں؟اسرائیلی وزیر خزانہ کا یہ بیان خوب دہرایا گیا جس میں اس نے کہاکہ،’’میں ایک ایسی یہودی ریاست چاہتا ہوں جس میں اردن ، لبنان اور مصر ، شام ، عراق اور سعودی عرب کے کچھ حصے شامل ہوں ۔ ہمارے مذہبی اسباق کے مطابق ، یروشلم دمشق تک پھیلنا مقصود ہے ۔ ‘‘اس کے بعد فرانس اور نیتن یاہو کے درمیان خاصا گرم ماحول بھی اسی ٹرینڈ میں ڈسکس ہوتا رہا۔ کچھ کا خیال ہے کہ ’’ہو سکتا ہے کہ یہ’’گریٹر‘‘ صرف ایک پروپیگنڈہ ہو، کیونکہ عملاً دُنیا میں اتنے یہودی وجود ہی نہیں رکھتے تو اتنی بڑی زمین کس کے لیے لے رہے ہیں؟نہ یہودی بڑھتےہیں، دنیا بھر میں ان کی آبادی بمشکل ڈیڑ ھ کروڑ کہی جاتی ہے اس میں 60 لاکھ تو امریکہ میں ہیںاور 70 لاکھ اسرائیل میں ہیں۔ باقی 20 لاکھ فرانس ، کینیڈا، برطانیہ، روس، جرمنی ، آسٹریلیا وغیرہ میں سکون سے رہتے ہیں۔وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس مجوزہ خطے میں کبھی آباد نہیں ہونا چاہیں گے۔بہرحال طوفان الاقصیٰ کے بعد یہ ایک موضوع اپنی جگہ ضرور بن گیا ہے ۔اس لیے کہ اسرائیل کو دُنیا کا کوئی ملک قابو نہیں کر پا رہا ، وہ بے قابو ہو کر لبنان، یمن، شام، عراق سب پر چڑھ دوڑا ہے۔اِس صورتحال میں امریکہ ،برطانیہ جس طرح مستقل اس کے ساتھ حمایتی بن کر کھڑا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی مخالف کیمپ یعنی روس و چین بھی اس صورتحال میں تماشہ ہی دیکھ رہے ہیں تواور کیا کہاجائے۔ویسے ایک بڑی اچھی پوسٹ امریکہ کی حمایت کے جواب میں نظر سے گزری کہ ’’اسرائیل کو اپنی زمین کے دفاع کا حق ہے‘‘ ، مگر ’’ جو زمین خود قبضہ کرکے لی گئی ہو اُس کے دفاع کا حق اسرائیل کے پاس کیسے ہوسکتا ہے ۔ یہ حق تو فلسطیینوں کا ہے جن کی زمین پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔‘‘

شام بھی نشانہ:
9ماہ یعنی جنوری سے اکتوبر کے درمیان شام پر اسرائیل نے اپنا 105 واں حملہ اس ہفتے کردیا۔ دمشق شہر کی عمارت کی تباہی اور معصوم خواتین وبچوں کی لاشیں ٹوئٹر ، انسٹا گرام و ٹیلی گرام پر چیخ چیخ کر اسرائیلی درندگی کا پھیلاؤ بتا رہی تھیں۔یہ کوئی 200 کلومیٹر تک کی فضائی مسافت ہے ، مگر یہ صرف مسافت نہیں ایک الگ ملک ہے۔ شام اور یمن کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں جو کچھ آیا ہے وہ الگ اہمیت کاحامل ہے ۔ یہ ہمارا موضوع نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ دائرہ بالکل ویسا ہی بن رہا ہے جیسا نبی کریم ﷺ نے اشارے دیئے۔

شام کے واقعی بہت برے حالات ہیں ،روسی کیمپ، ایرانی کیمپ، سنی کیمپ، امریکی کیمپ، سعودی کیمپ، ترکیہ کیمپ ، داعش کیمپ، سب یہاں کام کر رہے ہیں۔ لیکن اِس وقت مقابلہ ایک ایسے مشترکہ دشمن سے ہےجو انتہائی بھیانک عزائم رکھتا ہے ۔مزاحمت کرنے والے ، میدان عمل میں موجود ہی تعین کر سکتے ہیں کہ اس جنگ میں کون ہمارے ساتھ ہے اور کون نہیں۔ اس لیے حماس ، جس کے ساتھ ہیں اس اندھی، خوفناک، خطرناک جنگ میں ہم بھی اُن کے ساتھ ہیں۔

سوشل میڈیا پر حماس کے خلاف عالمی پروپیگنڈہ جاری ہے ،سال بھر سےسوشل میڈیا کو مانیٹر کرنے کے دوران یہ فرق محسوس ہوا ہے کہ لبنان، یمن، شام حملوں کے لیے کوئی مظاہرے نہیں ہوئے۔ یہ ہے وہ جعلی ’’ہیومن رائٹس‘‘ کی حقیقت۔لبنان ، شام ، یمن میں اسرائیلی میزائلوں کا نشانہ بننے والے ’ہیومن ‘ کیوں نہیں تھے؟ یہ جمعرات کو دمشق کی جس عمارت پر میزائل مارا گیا اُس میں 13 معصوم بچے و خواتین ’’انسان‘‘ کیوں نہیں تھے؟ یہ ہے وہ حقیقت جو ہم آپ کو بار بار سمجھاتے ہیں کہ ’انسان اور ہیومن ‘ دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔دمشق، ایران، شام ، یمن ، لبنان میں جتنے انسان نشانہ بنیں گے آپ کو کہیں سے بھی ’’انسانی حقوق‘‘ کی چوں بھی سُنائی نہیں دے گی۔ یہ بالکل وہی صورتحال ہے جو افغانستان میں ’’ڈیزی کٹر‘ ‘ برساتے وقت سب پر طاری ہوجاتی تھی اور وہ انسان کسی کو بھی ’انسانی حقوق ‘ کے دائرے میں نہیں آتے۔

اسکرین کے قیدی:
9اکتوبر 2024، کی صبح سے ہی دلخراش خبروں کی آمد سوشل میڈیا پر شروع ہوئی۔کراچی سے 2 معصوم بچوں کی لاشیں ملنے کی خبرتھیں۔ایک فیڈرل بی ایریا بلاک 11 قبائل کالونی کی گلی سے ، جس کی شناخت 4 سالہ آمنہ دختر عبدالباسط کے نام سے ہوئی۔ دوسری لاش منگھوپیر سیکٹر ایک میں مدرسے میں پانی کے ٹینک سے پانچ سالہ بلال ولد شیر خان کی لاش ملی۔بلال 3 دن سے لاپتا تھا اور گھر سے مدرسے جانے کو نکلا تھا۔بلال کے کیس کی تفتیش جاری ہے البتہ قبائل کالونی کی گلی میں سی سی ٹی وی اور دیگر شواہد سے جو مبینہ قاتل گرفتار ہوا ہے وہ اُن کا اپنا پڑوسی نکلا ہے۔یہ محض دو قتل نہیں ہیں، بلکہ معاشرے میں پھیلتی بڑھتی سفاکی و درندگی کی علامت ہیں۔میڈیا کے زہریلے اثرات کا کوئی انکار نہیں، میڈیا جس طرح ان سب کی تربیت دےرہا ہے اُس پر کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔جب پوری معاشرت میں آپ جنسی ہیجان و حیوانیت کو پیدا کرنے کے اسباب باآسانی مہیا کریں گے تو ہر قسم کی حیوانیت ہی پیدا ہوگی۔اس وقت 6 انچ سے لیکر 72 انچ کی اسکرینیں اذہان پر قابو پا چکی ہیں۔ اتنی تباہی بربادی دیکھنے کے بعد آج بھی لوگ یہ جملہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ،’’یہ میڈیا برا نہیں بس جو مواد آتا ہے وہ برا ہے۔‘‘ایسی بودی، بے کار دلیل دیتے وقت وہ اس اہم واقعاتی حقیقت سے منہ چُرا لیتے ہیں کہ ،’’ جو لوگ معصوم بچیوں کو قتل کر رہے ہیں وہ یہ اچھا مواد دیکھتے ہی کب ہیں؟ صرف دروس قرآن اور دینی لیکچر ، نعت و تلاوت سننے والا ایسے کام کبھی نہیں کرےگا۔اس لیے اگر وہ کوئی اچھا مواد دیکھتے تو یہ کا م ہی نہ کرتے؟‘‘پاکستانی ڈرامے ہوں یا بھارتی یا کسی بھی زبان کے ڈرامے سب کے سب ’’گلیمر ‘‘پر کھڑے ہیں۔ جو تہذیب وہ لانچ کر رہے ہیں ، جوموضوعات ، جو نت نئے طریقے وہ کہانیوں ، کرداروں کی صورت پیش کر رہے ہیں وہ معاشرے کو خاص سانچے میں ڈھال رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک دن یہ رونا گانا اور تبصرے چلے مگر کسی کو اس بات کی، اس کی وجوہات کے اندرجانے کی ہمت نہیں تھی کیونکہ وہ سب بھی اسکرین کے اسیر ہی تھے۔

جب اس معاملے پر بات کریں تو فوراً ایک ہی حل پیش کردیاجاتا ہے کہ یہ کام تو ریاست کو کرنا چاہیے۔ جب ریاست اپنے مقاصدکے لیے ‘ٹوئٹر‘ بند کر سکتی ہے۔ ایک سابق وزیر اعظم ، سیاسی جماعت کے لیڈر کے نام پر کامیابی سے پابندی لگا سکتی ہے ، جب چاہے فون سگنل ، انٹرنیٹ سگنل بند کردیتی ہے تو عریانی ، فحاشی روکنا تو اس سے کہیں زیادہ آسان ، آئینی گنجائش والا کام ہے۔اس حل کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہم تو روبوٹ سے بھی گئے گزرے ہیں، ہماری اپنی کوئی ہمت، دین، مذہب ، سوچ، فہم، فکر، نظریہ جیسے ہے ہی نہیں، جو کچھ ریاست دکھاتی رہے گی ہم دیکھتے رہیں گے پھر تو اِس اُصول کے تحت نتائج بھی اپنے بچوں کی قربانی کی صورت قبول ہی کرنے پڑیں گے ۔

ملک خداداد میں بچیوں، بچوں، لڑکوں، لڑکیوں سے زیادتی کے بعد قتل کی خبریں عمومیت اختیار کر چکی ہیں۔ سنگینی یہ ہے کہ سگے محرم رشتوں میں یہ ہولناک واقعات سامنے آرہے ہیں۔بچوں میں قتل کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ مجرم کو پہچان لیں گے اور دوسری وجہ یہ کہ تحقیقات کے بعد وہ کوئی قریبی رشتہ دار، پڑوسی ہی نکلتا ہے ۔ایسے میں اگر انسان اپنے پڑوسی، قریبی رشتہ داروں سے بھی محفوظ نہیں توکب، کہاں کیسے محفوظ ہوگا؟اس کے لیے بہرحال قانون سازی نہیں کردار سازی کی ضرورت ہے۔ 40 سال سے پڑوس میں رہنےوالے لوگوں کےدرمیان وہ کون سی شیطانی لکیر تھی جو یہ درندگی کروا گئی۔محلے داری، تعلق داری، ہمسائیگی ، خوف خدا، سمیت کتنے اہم انسانی معاشرتی معاملات Missing ہیں۔قاتل کو سزا مل بھی جائے تو بھی جان لیں کہ سفاکی پیدا کرنے کی وجہ اپنی جگہ برقرار رہےگی۔اس کے لیے کنوئیں سے کتا نکالے بغیر کام نہیں ہوگا۔اس تباہ ہوتی معاشرت میں ہمارا سوال اُن سب دینی،مذہبی، سیاسی، سماجی جماعتوں اور انسانیت کی خدمت کے نام پر قائم این جی اوز کی بھرمار سے بھی ہوگا، جن کے لیے یہ تباہی آج بھی موضوع کیوں نہیں بن رہی۔

ملٹن آگیا:
سوشل میڈیا پر ’ملٹن ‘نامی سمندری طوفان نے ٹکرا کر پور ی توجہ پالی ہے۔سوشل میڈیا پرطوفان کی طوفانی وڈیوز کی بھرمار ہے۔ کئی لوگ تو اس طوفان کو غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی بددعائیں قرار دے رہے تھے ۔ 10 لاکھ افراد کو شہری علاقے خالی کرنے کا کہہ دیا گیا۔30 لاکھ سے زیادہ افراد ،گھر اور کاروبار بجلی سے محروم ہو گئے ہیں۔ کچھ ہلاکتیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں ۔لاکھوں ساحلی باشندوں کو اندرون ملک نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔اس سال کا یہ تیسرا طوفان تھا، امریکہ رقبے کے لحاظ سے بھی بڑا ملک ہے ۔اس سے قبل 2017 میں ارنا طوفان میں 70 لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے۔امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ ساری تباہی کی وجہ کیا ہے مگرسرمایہ دارانہ نظام میں ترقی کا تصور اس کو ایسا کرنے سے روکتا ہے۔سائنس کی بنیاد پر ترقی کے باطل نظریے نے قدرت کے ساتھ جو کچھ کرایا ہے وہ آج دنیا کی تباہی کی صورت پوری دنیا کے سامنے ہے۔یہ بات سب ماننے پر مجبور ہیں کہ جدید سائنس کے منفی اثرات ماحولیاتی تباہی اور طوفانوں کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ صنعتی ترقی اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والے گرین ہاؤس گیسز نے گلوبل وارمنگ کو مزید تیز کیا، موسمیاتی تبدیلیاں اور غیر معمولی طوفانوں کا سامنا اسی کا نتیجہ ہے ۔2020 میں بحرِ اوقیانوس میں ریکارڈ توڑ طوفان پیدا ہوئے، جن کا تعلق درجہ حرارت میں اضافے سے تھا۔ اسی طرح، جنگلات کی کٹائی اور سمندری آلودگی جیسے عوامل ماحول کو مزید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہمارے قدرتی ماحول کو شدید خطرات سے دوچار کر رہی ہیں۔مگر یہ غلیظ سرمایہ دارانہ نظام اسی کے اندر مستقل جعلی حل نکال کر دیتا ہے جو مزید تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔جب یہ بات سادہ لوح مسلمانوں کو سمجھائی جاتی ہے تو کہتے ہیں ،’’واقعی یہ تو قیامت کی نشانی ہے ، مطلب قیامت آنے والی ہے۔‘ جس یقین سے وہ یہ بات بولتے ہیں تو اُن کو میں جب یاد کراتا ہوں کہ بھائی جب قیامت اتنی قریب آ لگی ہے تو اس کی تیاری تو کرلیں؟ بس پھر آئیں بائیں شائیں ہوجاتی ہے۔

حصہ