مسلم دنیا کے رنگیلے حکمران

165

مسلم دنیا کی تاریخ اگر درخشاں ہے تو دردناک بھی ہے۔ مسلمان ایک ہزار سال تک عروج و زوال کا شکار ہونے کے باوجود حکمرانی کرتے رہے۔ مگر برطانوی اور یورپی سامراج کے عروج کے بعد گزشتہ تین صدیوں سے محکومی کا شکار ہیں۔ اس زوال پذیری کا خلاصہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلم دنیا خوش حال تھی جس کی وجہ سے بادشاہوں اور عوام دونوں میں تن آسانی اور عیش و عشرت کی لت پڑ گئی۔ بادشاہوں کے حرم سیکڑوں لونڈیوں اور باندیوں سے بھرے رہتے تھے۔ زن اور زر پرستی نے حکمرانوں کو اسلام اور مسلمان دشمن یہود و نصاریٰ اور ہنود کی سازشوں سے ایسا غافل کیا کہ بے خبری میں سب مارے گئے اور غلامی مقدر بنی۔

جو تلوار کے دھنی تھے وہ طاؤس و رباب کے اسیر ہوکر رہ گئے۔ دورِ عباسی کا ایک واقعہ ہے کہ عباسی خلیفہ کے سپاہی ایک باج گزار عیسائی علاقے میں جزیہ، خراج وصول کرنے گئے جو کہ آراستہ گھوڑے اور بہترین لباس میں ملبوس تھے، جن کی تلواروں پر سونا چاندی جڑی ہوئی میانیں تھیں۔ جب انہوں نے جزیہ، خراج طلب کیا تو عیسائی سردار نے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘ سپاہیوں نے کہا کہ ’’ہم خلیفہ کے سپاہی ہیں۔‘‘

سردار نے کہا ’’وہ کہاں ہیں جو پہلے آتے تھے، جن کے پیروں میں گھاس کی چپلیں ہوتی تھیں، جن کی تلواروں پر چیتھڑے لپٹے ہوتے تھے مگر ان کی آنکھوں سے انگارے نکلتے تھے۔‘‘

سپاہیوں نے کہا ’’وہ اب نہیں رہے، ان کی جگہ ہم آئے ہیں۔‘‘

سردار نے جواب دیا ’’جاؤ ہم تمہیں خراج نہیں دیں گے، اگر لڑ کر لے سکتے ہو تو لے لو۔‘‘ اور وہ نا کام واپس لوٹے۔

سقوطِ بغداد کے بعد جب ہلاکو خان نے خلیفہ مستعصم باللہ کو پابہ زنجیر اپنے سامنے بلایا تو اس وقت وہ تین دن کا بھوکا تھا۔ ہلاکو خان نے اس کے سامنے سونے کی طشت میں ہیرے موتی جو اُس نے شاہی خزانے سے لوٹے تھے، کھانے کے لیے پیش کیے تو خلیفہ نے روتے ہوئے کہا ’’یہ چیزیں کھانے کے لیے نہیں ہے۔‘‘ اس پر ہلاکو خان نے کہا ’’اگر یہ چیزیں کھانے کے لیے نہیں ہیں تو ان کو جمع رکھنے کے بجائے تم نے ان کے ذریعے اپنے سپاہیوں کے لیے ہتھیار کیوں نہیں بنوائے؟‘‘ پھر خلیفہ کو چمڑے کے تھیلے میں لپیٹ کر گھوڑوں سے روندوا دیا۔

آخری تاجدارِ غرناطہ ابوعبداللہ جو سہل پسند اور عیش و عشرت میں ڈوبا رہتا تھا، جب ہسپانیہ (اندلس) کی کنجی ملکہ ازابیلا اور شاہ فرنینڈس کے حوالے کررہا تھا تو رو رہا تھا۔ اُس وقت اس کی ماں نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ ’’تُو مردوں کی طرح مقابلہ نہ کرسکا تو اب عورتوں کی طرح روتا کیوں ہے!‘‘ اس کے بعد مسلمانانِ اندلس پر جو قیامت ٹوٹی وہ تاریخ کی ایک خونچکاں داستانِ عبرت ہے۔

اسی طرح چھ صدیوں اور تین براعظموں پر محیط ترک خلافت کا خاتمہ درباری کشمکش اور ملکائوں اور لونڈیوں کی اولادوں میں جاں نشینی کی رسّاکشی کی وجہ سے ہوا جس نے خلافت کو اتنا کمزور کردیا کہ عیسائی اتحادی فوجوں کی یلغار کے سامنے پے درپے شکست کا سامنا ہوتا رہا۔ بالآخر پہلی جنگِ عظیم میں ترکی کی شکست کے بعد 1922ء میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔

مغل شہنشاہوں کی عیش کوشی کی داستانیں تو قابلِ ملامت بھی ہیں اور قابلِ شرم بھی۔ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد 27 سال تک حکمرانی کرنے والا محمد شاہ اپنے عیش و عشرت اور بے حیائی کی وجہ سے تاریخ میں ’’رنگیلے شاہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

یہ اتنا بدقماش اور عورت پسند تھا کہ دربار میں عورتوں کے لباس میں آتا تھا۔ ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا تھا۔ قاضی کو شراب سے وضو کرنے پر مجبور کرتا۔ اکثر وزرا خسروں پر مشتمل تھے۔ اس نے زندگی میں کوئی جنگ نہیں لڑی، اور جب نادر شاہ درانی نے حملہ کیا تو محمد شاہ رنگیلے کو خبر ملتی رہی مگر وہ یہی کہتا رہا ’’ہنوز دلی دور است‘‘ جو تاریخ کا مشہور جملہ بن گیا۔ اس کی فوج ایک لاکھ سے زائد تھی اور نادر شاہ درانی نے صرف 50 ہزار فوجیوں کی مدد سے محض تین گھنٹے میں اسے شکست دے دی اور محمد شاہ رنگیلا گرفتار ہوا۔ تین دن تک دہلی میں قتلِ عام ہوا، شاہی خزانہ لوٹ لیا گیا۔ تاریخ میں آتا ہے کہ اتنی دولت لوٹی گئی کہ نادر شاہ درانی جب ایران لوٹا تو اپنی رعایا سے تین سال تک کوئی ٹیکس نہیں لیا۔

اس کے بعد مغل تاجداروں میں سب عیش پرست اور تن آسان گزرے جو مرہٹوں اور سکھوں کی سرکوبی نہ کرسکے۔ آخر میں بہادر شاہ ظفر اور ان کا پورا خاندان 1857ء میں عبرت ناک انجام کو پہنچا۔

شہزادیوں کو کوٹھوں پر بٹھا دیا گیا، شہزادے جو زندہ بچے وہ دہلی میں گھوڑا گاڑی (تانگہ) چلا کر گزر بسر کرنے لگے۔ آج بھی دہلی میں خونیں دروازے پر بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کے لٹکائے گئے سروں کی کہانی درج ہے۔

کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

360 بیگمات رکھنے والے لکھنؤ کے نواب واجد علی شاہ کس کو یاد نہیں! تمام مسلمان نوابوں اور رجواڑوں کی عیش پرستی کی داستانِ عبرت موجود ہے۔

اب آتے ہیں موجودہ وقت کے مسلمان جمہوری حکمرانوں، بادشاہوں اور آمرانِ وقت جرنیلوں کی رنگیلی داستانوں کی جانب، کہ کس طرح 57 مسلم ممالک کے حکمرانوں کی عیاشیوں اور زن پرستی نے مسلم عوام کو طاغوت کے سامنے ذلیل وخوار کرکے رکھ دیا ہے اور خونِ مسلم کی ارزانی ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال عرب دنیا کے حکمرانوں کی ہی نہیں بلکہ عوام کی عیش و عشرت پر مبنی ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ مسلم عوام غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں مگر ان کی دولت سے یورپ اور امریکا کے عیش کدے آباد ہیں۔ اللہ نے اسلامی دنیا کی سرزمینوں کو معدنی دولت سے مالامال رکھا ہے۔ یہ ممالک دنیا کی تمام بحری، بری گزرگاہوں پر آباد ہونے کے باوجود یہود و نصاریٰ اور ہنود کے ظلم اور جارحیت کا شکار ہیں۔

برصغیر کے ایک ایسے ملک کے جمہوری اور جرنیلی حکمرانوں کی رنگین مزاجی کا ذکر کیے بغیر یہ کالم تشنہ ہی رہے گا جو لاکھوں قربانیوں کے بعد کلمے کی بنیاد پر وجود میں آیا، جس کے نام سے پاکیزگی جھلکتی ہے، جس کا نام پاکستان ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ 1947ء کے بعد سے اب تک کوئی حکمران صاحبِ کردار نہیں آیا۔ ان کی رنگین مزاجی کے قصے عالمی سطح پر آشکار ہیں۔ ظہیر احمد بابر کی ایک تصنیف جو کہ 2000ء میں شائع ہوئی تھی، اس میں پاکستان بننے سے لے کر اب تک کے تمام حکمرانوں کی عیاشیوں اور رنگین داستانوں کا ذکر تصاویر کے ساتھ موجود ہے۔ یہ کتاب عملاً تو بینڈ ہے مگر انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس کتاب کے مطابق کوئی ایرانی ڈانسر کا اسیر بنا اور تختۂ دار تک پہنچا، کوئی جرنیل مارلن منرو کے حسن میں گرفتار ہوا، کوئی جنرل رانی کے حسن میں ایسا گرفتار ہوا کہ پورا ملک ہی گنوا بیٹھا۔ سب سے گھناؤنا کردار جنرل یحییٰ خان کا بیان ہوا ہے کہ 15 دسمبر 1971ء کی رات بھی سوات کی ریزیڈنسی میں شراب پی کر ایسا بدمست ہوا کہ برہنہ حالت میں ہاتھ میں پستول لے کر سڑک پر نکل آیا اور ہندوستان کو شکست دینے کی بڑھکیں مارنے لگا۔ مگر 16 دسمبر 1971ء کو چرخ کہن نے مسلم دنیا کی عزت و آبرو کے سورج کو ڈھاکہ میں ڈوبتے دیکھا جب ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا کرب آج بھی غیرت مند مسلمان محسوس کرتے ہیں۔ یہ جب ایرانی شہنشاہ کے ہزار سالہ جشن میں شرکت کے لیے گیا تو اس قدر شراب پی کہ بھری محفل میں مہمانوں کے سامنے اس کی پتلون پیشاب سے گیلی ہوگئی۔ ایک بڑبولے میڈیائی لیڈر سے جب شادی کی بات پوچھی جاتی ہے تو کہتا ہے ’’بھینس پالنے کی ضرورت کیا ہے، جب دودھ باڑے سے مل جاتا ہے!‘‘

اس کتاب کے آخر میں بہت ہی شرم ناک واقعہ لکھا ہے۔ جب یہ مصنف لاہور کے بازارِ حسن میں جاتا ہے اور وہاں کے سب سے بڑے دلال سے پوچھتا ہے کہ یہاں روز پولیس کے چھاپے پڑتے ہیں، آپ یہ بازار بند کیوں نہیں کردیتے، یہاں تو اچھے کاروباری مراکز کھولے جا سکتے ہیں؟ تو جواب سن کر کانوں میں سنسناہٹ دوڑ جائے گی، وہ کہتا ہے کہ ہمیں نہ کہیں، جاکر حکمرانوں کو نصیحت کریں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو یہاں سے لے جائیں، اس لیے کہ وہ یہاں آتے ہیں تو ان کی ناجائز اولادیں بھی ہوتی ہیں۔ اگر وہ غیرت پکڑیں تو یہ بازار بند ہوجائے گا۔

اب ذرا تبدیلی سرکار اور حقیقی آزادی کے علَم بردار عمران الومیناتی کی بات کرلیں جو عالمی طاقتوں اور پاکستانی عوام کے ایک بڑے طبقے کا لاڈلا ہے، جس کے عشق و مستی کے قصے چہار دانگ عالم میں مشہور ہیں۔ بھارتی اداکارہ زینت امان، سیتا وائٹ، جمائما سے لے کر ریحام خان اور اب جادوگرنی بشریٰ بی بی کے علاوہ آڈیو وڈیو کی صورت رنگیں داستانیں سند کے طور پر موجود ہیں۔ پھر مسلم امہ اللہ کی نصرت و تائید کی کس طرح سزا وار بنے! کبھی زرداری کے زر اور زن کے قصے اور کبھی لیگی رہنما کی دل شاد بیگم۔ یہ تمام گندے کپڑے یہ خود پارلیمنٹ کے مباحث میں دھوتے ہیں اور عدالتی چارہ جوئی بھی کرتے ہیں۔ حریم شاہ تو وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ گئی۔

متحدہ عرب امارات ایک مسلم ملک ہے مگر آج دبئی پوری دنیا کے اوباشوں، جواریوں اور اپنے ملک سے فراڈ کرکے بھاگنے والوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سرزمینِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقدس بھی رقاصاؤں کو بلاکر پامال کیا جارہا ہے۔ دبئی سے لے کر قاہرہ تک، تیونس سے لے کر مراکش تک، ملائشیا سے لے کر انڈونیشیا تک، اسلام آباد سے لے کر وسط ایشیا کے تمام مسلم ممالک عیش و عشرت کی رنگینی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور نتیجتاً غزہ سے لے کر بیروت تک، کشمیر سے لے کر برما تک، عراق، شام ، یمن سے لیبیا تک مسلمان عوام یہود ونصاریٰ اور ہنود کی جارحیت سے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

سنگِ راہ و سنگِ در بننے سے بہتر ہے یہی
سنگ سر کہتے ہیں جس کو وہ اگر ہو جایئے
اپنا چہرہ اک نظر اپنی کھینچی تلوار میں
دیکھیے اور خود شناس و خود نگر ہو جایئے
دیکھیے رنگیں قباء میں ہے کتنا بانکپن
جب کبھی اپنے لہو میں تر بتر ہو جایئے
دشمنوں سے مانگیے کیوں عمر بھر جینے کی بھیک
سر کٹا کر اس سے بہتر ہے امر ہو جایئے

حصہ