اسکرین کی غلامی

158

ہم مختلف غیر متعلق معاملات میں الجھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے پھر رہے ہیں

ہم غیر محسوس غلامیوں کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہر دور کی طرح آج بھی بہت سی اقسام کی غلامیاں برقرار ہیں۔ فرق اگر ہے تو بس شکل یا نوعیت کا۔ کبھی غلامی براہِ راست ہوا کرتی تھی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ گھوم پھر کر غلامی اختیار کرتے ہیں۔ کان اِدھر سے پکڑو یا اُدھر سے، نتیجہ تو ایک ہی برآمد ہوتا ہے۔

فی زمانہ ٹیکنالوجیز میں پیش رفت کے نتیجے میں ایسا بہت کچھ واقع ہوچکا ہے جو ہمارا ہے اور ہمارا نہیں۔ ہمارے لیے دکھائی دیتا ہے مگر ہمارے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیادہ ہوتا ہے۔ ہم غیر محسوس طور پر ایسا بہت کچھ اپناتے رہتے ہیں جو ہمارے کسی کام کا نہیں ہوتا، اور جب تک ہمیں ہوش آتا ہے تب تک ہمارا کام ہوچکا ہوتا ہے۔

بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر اپنائی جانے والی ہر غلامی ہمارے پورے وجود کو چاٹنے لگتی ہے۔ انسان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر بہت کچھ ہے جو اس کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہے۔ آج کی دنیا میں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ بہت کم ہے اور بہت کچھ نادیدہ ہے مگر ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ حیرت انگیز ترین امر یہ ہے کہ اب کچھ بھی ایسا نہیں رہا جس پر حیرت ہو۔ انسان بہت کچھ اپناتا جارہا ہے اور حیران ہونا بھولتا جارہا ہے۔

ڈھائی عشروں کے دوران انسان بالکل بدل گیا ہے۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اُس کے معمولات بدل گئے ہیں۔ بیشتر معمولات ایک ایسی چیز کے گرد جمع ہوگئے ہیں جو کہیں چھوٹی ہے اور کہیں بڑی۔ یہ ہے اسکرین۔ کبھی ہم سنیما جاتے تھے یعنی بہت بڑی اسکرین کے عادی تھے۔ اس اسکرین نے بھی ہمیں غلام بنائے رکھا، تاہم یہ غلامی ہمہ گیر نوعیت کی نہ تھی۔ تب زندگی میں اور بھی بہت کچھ تھا اور بھرپور انداز سے جینے کی پوری گنجائش موجود تھی۔

سنیما کی غلامی کو افورڈ کرنا سب کے بس میں نہ تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ لوگ روزانہ فلمیں دیکھنے جایا کرتے تھے۔ اس بڑی اسکرین کی غلامی کی ایک حد تھی اور یہ حد مالی سکت سے جُڑی ہوئی تھی۔

اس کے بعد لوگ گلی محلے میں پردے پر فلمیں دیکھنے کے عادی ہوئے۔ یہ بھی اسکرین کی غلامی تھی مگر سنیما ہال کی طرح محدود نوعیت کی۔ پردے پر فلمیں چلانا خاصا خرچیلا معاملہ تھا۔ اس کے بعد آیا منی اسکرین کا زمانہ۔ منی اسکرین یعنی ٹیلی وژن۔ یہ گھریلو معاملہ تھا۔ جس گھر میں ٹی وی سیٹ ہوتا تھا اس گھر کے لوگ اپنا بیشتر وقت ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر گزارا کرتے تھے، مگر خیر معاملہ بہت زیادہ خطرناک اس لیے نہ تھا کہ ٹی وی کی نشریات بھی محدود دورانیے کی ہوا کرتی تھیں اور تمام نشریات ایسی نہیں ہوتی تھیں کہ کوئی پوری دلچسپی سے دیکھے۔

ٹی وی کا زمانہ بہت حد تک گھریلو ماحول کی مضبوطی کا زمانہ تھا۔ تب ہمارے ہاں خاندانی نظام پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا۔ پھر ڈش اینٹینا آیا یعنی ٹی وی سیٹ کے ذریعے سیٹلائٹ چینل دیکھنا ممکن ہوا۔ یوں گھروں میں سیکڑوں چینل دیکھنے کی گنجائش پیدا ہوئی۔ تب ہمارے وقت پر ڈاکے پڑنے کا عمل شروع ہوا۔ یہ عمل پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔

بات سنیما گھر، پردے پر فلموں کے چلائے جانے اور ٹی وی اسکرین تک تھی تو بہت زیادہ بگاڑ پیدا نہ ہوا تھا۔ جب اسکرین چھوٹی ہوکر سیل فون کا حصہ بن گئی تب مشکل کھڑی ہوئی۔

اب معاملہ یہ ہے کہ اسکرین ہے اور ہم ہیں۔ ٹیکنالوجیز نے دنیا کو سمیٹ کر ہماری ہتھیلی پر رکھ دیا ہے۔ اربوں وڈیوز دستیاب ہیں جن سے ہم محظوظ ہوسکتے ہیں، بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ خواب کا سماں لگتا ہے۔ کبھی انسان جو کچھ جادو نگری کی داستانوں میں پڑھا کرتا تھا وہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ آج کسی بھی انسان کے لیے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے کسی بھی انسان سے رابطہ کرنا، اُس سے بات کرنا اور اُسے دیکھنا اس قدر آسان اور سستا ہوگیا ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔

اسکرین ہو یا کوئی اور شکل یا طریقہ، مسئلہ وقت کے ضیاع کا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اپنا وقت ایسے امور پر ضایع کررہے ہیں جن کا زندگی سے کوئی ٹھوس تعلق بنتا ہی نہیں۔ لوگ حِظ اٹھانے کے نام پر اپنی زندگی کو داؤ پر لگارہے ہیں۔ دنیا بھر میں روزانہ اربوں گھنٹے فضول معاملات پر ضایع کیے جارہے ہیں اور کسی کو تضیعِ اوقات کا احساس بھی نہیں۔

اسکرین کی غلامی محض استعارہ ہے۔ سوال وقت کے بڑھتے ہوئے ضیاع کو روکنے کا ہے۔ آج پاکستانی معاشرے میں وقت کے ضیاع کا معاملہ انتہائی خطرناک حدوں میں داخل ہوچکا ہے۔ ہم ایسے بہت سے افعال کے عادی ہوچکے ہیں جن کا ہماری زندگی کے معاشی اور معاشرتی دونوں ہی پہلوؤں سے کوئی تعلق نہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہم روزانہ سیل فون پر شارٹ وڈیوز دیکھ کر اپنا کتنا وقت ضایع کررہے ہیں؟ بچے ہوں یا بڑے، سبھی سیل فون کے غلام ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ غلامی زندگی کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے پر تُلی ہوئی ہے۔

آج ہمارا معاشرہ اس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے نکلنے والے تمام راستے وقت کے ضیاع کی طرف جاتے ہیں۔ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی چیزیں اِتنی زیادہ ہیں کہ اُن سے چھٹکارا پانا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ وقت سب سے بڑی دولت ہے مگر ہم وقت کو سب سے بڑی تو کیا، دولت بھی ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ تصور یا فرض کرلیا گیا ہے کہ معاملات ایک دن خودبخود درست ہوجائیں گے۔ زندگی قدم قدم پر ہمارے لیے امتحانات کھڑے کررہی ہے مگر ہم ہوش میں آنے کے لیے تیار نہیں۔

نئی نسل کا یہ حال ہے کہ اوّل تو اسکرین سے چمٹی رہتی ہے۔ سیل فون پر شارٹ وڈیوز نہ دیکھی جارہی ہوں تو میسیجنگ چل رہی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے دنیا بھر کے مواد کو کھنگالنے اور خواہ مخواہ محظوظ ہونے کی لت پڑگئی ہے۔ جس طور زیادہ کھانے سے بدہضمی یا فوڈ پوائزننگ ہوجاتی ہے بالکل اُسی طور تفریحی مواد بہت زیادہ دیکھنے سے مزاج میں ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے کہ کام میں جی نہیں لگتا۔ طلبہ و طالبات اپنا انتہائی قیمتی وقت اسکرین کی نذر کررہے ہیں، یعنی دن رات سیل فون کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔

وقت کے ضیاع کا سب سے بڑا نقصان نئی نسل کو پہنچتا ہے کیونکہ جو وقت اُنہیں اپنا مستقبل تاب ناک بنانے کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے اُسے وہ فضولیات میں کھپا دیتے ہیں۔ آٹھ سے بیس سال تک کی عمر کے دوران شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ اس دوران زیادہ سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئی نسل اپنے لیے کسی مناسب راہ کا تعین خود نہیں کر پاتی۔ اس معاملے میں اُسے راہ نمائی بھی درکار ہوتی ہے اور نگرانی بھی۔ بڑے اگر معاملات کو نئی نسل پر چھوڑ دیں تو صرف بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

آج کا پاکستان گوناگوں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ قدم قدم پر مشکلات ہیں۔ یہ مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں۔ ہم نے بہت سے معاملات میں معاشرتی اور معاشی خرابیوں کو خود راہ دی ہے، پنپنے دیا ہے۔ وقت کی تضیع کا معاملہ بھی اس حوالے سے نمایاں ہے۔ کیا ہم وقت کی قدردانی کے معاملے میں کسی اہم اور قابلِ ذکر مقام پر ہیں؟ کیا ہم اپنے وجود کو ضایع نہیں کررہے؟ وقت کا ضیاع دراصل وجود کا ضیاع ہے۔ وقت کی بہترین تطبیق ہی سے ہم کچھ بن پاتے ہیں، کچھ کر پاتے ہیں۔

ہم بہت سے معاملات میں الجھ کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضایع کررہے ہیں۔ اسکرین کی غلامی بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ کسی بھی غیر متعلق اور غیر اہم معاملے کا اسیر ہوکر وقت ضایع کرنا دراصل غلامی ہی کی ایک شکل ہے اور یہ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے بدتر ہے۔ وقت کے ضیاع کا نتیجہ صرف تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہم اس بات کو جانتے تو ہیں مگر خود کو بہتر معاملات کے لیے تیار کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ بات کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے سوچنے کی توفیق بھی کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

حصہ