اوڑھنی

71

باقر جیسے ہی اپنی بائیک پر یونیورسٹی میں داخل ہوا اُس کی کلاس کی ایک لڑکی کو اُس کے والد چھوڑ کر واپس جارہے تھے۔ سفید کپڑوں اور شرعی داڑھی میں نیک انسان لگ رہے تھے۔ بائیک کھڑی کرکے کلاس روم کی طرف جانے لگا تو وہ لڑکی عبایا اتارکر بیگ میں رکھ کر، دوپٹہ شانے پر ڈالے دیگر لڑکیوں کے ساتھ کلاس کی جانب بڑھ رہی تھی۔

باقر کا اس یونیورسٹی میں ابھی داخلہ ہوا تھا، اس کا تعلق بھی دین دار گھرانے سے تھا، وہ لڑکیوں سے فری ہونا پسند نہیں کرتا تھا، ضرورت کے تحت بات کرلی تو کرلی، ورنہ اس کی دوستی لڑکوں سے ہی تھی۔ چار سال کی پڑھائی کے دوران اس نے یہی دیکھا کہ زیادہ تر لڑکیاں عبایا پہن کر آتیں اور پھر اتار کر بیگ میں رکھ دیتیں، اور جاتے ہوئے پہن لیتیں۔

باقر اور اس کا دوست فرحان ایک دوسرے سے یہی کہتے کہ اتارنا ہی ہوتا ہے تو پہن کر کیوں آتی ہیں! اپنے ماں باپ کو دھوکا دیتی ہیں، جبھی تو اکثر لوگ اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی نہیں بھیجتے۔

پڑھائی سے فارغ ہونے کی دیر تھی کہ باقرکی امی نے اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے لڑکیاں دیکھنی شروع کردیں۔

’’امی! مجھے اچھی جاب تو ملنے دیں، اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘ باقر چڑ جاتا۔

’’ارے جب سے تم پیدا ہوئے ہو میں تو تب سے تمہارے سر پر سہرا سجانے کے خواب دیکھ رہی ہوں، اب مجھ سے صبر نہیں ہورہا، مناسب تنخواہ ہے تمہاری، گھر ہمارا اپنا ہے اور کیا چاہیے؟ اب اچھی نوکری کے انتظار میں بیٹھے رہنا کہاں کی عقل مندی ہے؟‘‘ امی نے اس کی بات کو چٹکیوں میں اڑا دیا۔

روز لڑکی دیکھنے جاتیں کبھی خالہ کے ساتھ، کبھی پڑوسن کے ساتھ، کبھی پھوپھی کے ساتھ، کبھی سہیلی کے ساتھ۔ اللہ اللہ کرکے ایک لڑکی پسند آئی۔ بہن تو تھی نہیں باقر کی، خالہ اور پھوپھی نے بھی لڑکی کو ’’اوکے‘‘ کردیا۔

’’امی لڑکی پردہ دار ہونی چاہیے۔‘‘ باقر کی ایک ہی شرط تھی۔

’’بے فکر ہوجاؤ، ہم سے زیادہ دین دار ہیں۔‘‘ امی نے اطمینان سے کہا۔

آج اتوار کا دن تھا، باقر کو دیکھنے لڑکی کے گھر والے آرہے تھے، امی صبح سے گھر صاف ستھرا کرنے میں لگی تھیں، ابو شہر کی اچھی بیکری سے پیسٹری،پیٹیز وغیرہ لینے چلے گئے۔ پھپھو گھر میں پیزا بنا رہی تھیں، باقر مین سیلون سے ہوکر آیا تھا، نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔

’’ارے بھابھی! آپ نے باقر کو لڑکی کی تصویر دکھائی؟‘‘ کچن سے پھپھو کی آواز آئی۔ باقر کا دل چاہا پھپھو کے ہاتھ چوم لے۔

’’نہیں میرا موبائل ہینگ ہورہا تھا، کچھ چیزیں ڈیلیٹ کیں تو وہ تصویر بھی ڈیلیٹ ہوگئی، ابھی ثنا (چھوٹی خالہ) آئے گی تو اس کے موبائل سے دکھا دوں گی، ویسے باقر کو میری پسند پر پورا بھروسا ہے۔ اس نے سب کچھ مجھ پر چھوڑا ہوا ہے۔‘‘ امی نے فخریہ کہا۔

دروازے کی گھنٹی بجی، سسرالی مہمان آگئے تھے۔ ابو نے مردوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا، امی خواتین کو اپنے کمرے میں لے گئیں، اتنے میں ثنا خالہ آئیں اور سیدھی امی کے کمرے میں چلی گئیں۔ ابو نے باقر کو آواز دے کر ڈرائنگ روم میں بلایا۔

’’السلام علیکم۔‘‘ باقر نے اندر داخل ہوکر سلام کیا۔ دو مرد تھے، ایک بڑی عمر کے تھے دوسرا جوان تھا۔ باقر کو لگا جیسے بڑے میاں کو کہیں دیکھا ہے۔

’’یہ ہمارا بیٹا باقر ہے، اور باقر یہ سمیکہ کے والد اور بھائی ہیں۔‘‘
باقر سمیکہ کے نام پر ٹھٹکا، پھر آگے بڑھ کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔ دو، چار باتیں کی تھیں کہ باہر سے ثنا خالہ نے آواز دی، باقر معذرت کرکے باہر آیا۔
خالہ لوازمات سے بھری ٹرے لیے کھڑی تھیں۔ ’’باقر! یہ مردوں میں رکھ دو، پلیٹیں اور ٹرے واپس لے آئو۔‘‘
باقر خالہ کا ہاتھ پکڑ کر کچن میں لے گیا ’’یہ ٹرے رکھیں اور مجھے لڑکی کی تصویر دکھائیں۔‘‘ باقر جلدی سے بولا۔
’’ارے بے صبری کیا ہے، مہمانوں کے جانے کے بعد دیکھ لینا۔‘‘
’’نہیں ابھی دکھائیں، بہت ضروری ہے۔‘‘
باقر کی بوکھلاہٹ دیکھ کر ثنا نے جلدی سے پرس سے موبائل نکالا اور ایک تصویر نکال کر باقر کو موبائل دیا۔
باقر نے جیسے ہی تصویر دیکھی موبائل اس کے ہاتھ سے نیچے گر گیا۔ یہ اس کی کلاس فیلو سمیکہ تھی جس کے ابو بائیک پر چھوڑنے آتے تھے اور وہ عبایا اتار کر بیگ میں رکھ لیتی تھی۔

حصہ