’’چاچو! مجھے آپ انگلش سکھائیں گے؟‘‘ مصعب نے صوفے پر اپنے چچا کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’بالکل! کیوں نہیں؟ مگر تمہارے بابا تو کہہ رہے تھے کہ تمہارے انگلش میں اچھے مارکس آتے ہیں۔‘‘ عارف نے کتاب کو بند کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے نہیں! سبجیکٹ نہیں… انگلش لینگویج۔‘‘ اس نے ہاتھ کو سر پر مار کر کہا۔
’’اوہ…!اچھا۔‘‘ اُس کے اس انداز پر چچا مسکرائے۔
’’جی، تاکہ جب ہم باہر جائیں تو میں بھی وہاں کے لوگوں کی طرح فرفر انگلش بولوں۔‘‘ اس نے کسی دانشور کی طرح بات کی وضاحت کی۔
’’باہر…؟‘‘چچا چونکے۔
’’امریکا…!‘‘ عاکف کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ ’’امریکا جانے کا پلان ہے ہمارا۔‘‘
’’گھومنے پھرنے کا؟‘‘عارف نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’نہیں بھئی! سیٹل ہونے کا۔‘‘عاکف نے فوراً تصحیح کی۔
’’کیا واقعی؟‘‘عارف حیران ہوا۔
’’بالکل!‘‘عاکف نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’مگر کیوں؟‘‘عارف کی حیرانی ختم نہیں ہوئی تھی۔
’’کیوں مطلب؟‘‘ عاکف اس کی حیرانی پر حیران ہوا۔
’’میرا مطلب ہے کہ سب کچھ ہے آپ کے پاس۔ اچھی جاب، گھر، گاڑی۔ بچے اچھے اسکول میں پڑھتے ہیں … اور کیا چاہیے؟‘‘عارف نے حیرت کی وضاحت دی۔
’’ہر انسان کو بہتر سے بہترین مقام کی تلاش ہوتی ہے، اور جب وہ نظر آتا ہے تو انسان اس کو پالینا چاہتا ہے۔‘‘عاکف نے دلیل دی۔
’’آپ کو اپنا بہترین مقام اپنے وطن سے باہر نظر آتا ہے؟‘‘ عارف نے سوال کیا۔
’’وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں… ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے وہاں جانے کی، اس ترقی کا حصہ بننے کی۔ مجھے یہ موقع مل رہا ہے تو اس کو کیوں گنواؤں میں؟‘‘عاکف جذباتی ہوگیا تھا۔
’’ہم دوسروں کی ترقی میں حصے دار کیوں بننا چاہتے ہیں بھائی؟خود ترقی کیوں نہیں کرنا چاہتے؟‘‘عارف کے سوالات جاری تھے۔
’’یہ تو تم بتاؤ! تم بھی تو انگلینڈ سے پڑھ کر آئے ہو؟‘‘عاکف کو اس کی دروغ گوئی پسند نہیں آئی۔ ’’تم کیوں حصے دار بنے اُن کی ترقی میں؟‘‘
’’میں اُن کی ترقی میں حصے دار بننے نہیں بلکہ ترقی کا طریقہ کار لینے گیا تھا۔‘‘عارف نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا! اور تم نے حاصل کیا وہ طریقہ کار؟‘‘اس کے بھائی کو اس کی مسکراہٹ کھل رہی تھی۔
’‘بالکل! تعلیم ہی وہ طریقہ کار ہے جس پر اُن کی ترقی کا دارومدار ہے۔‘‘ اس نے اعتماد سے کہا۔ ’’کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ترقی کا راز کیا ہے؟ اور آپ جانتے ہیں! انہیں یہ راز کہاں سے ملے؟‘‘ اس نے بڑے بھائی کی جانب دیکھ کر کہا۔
’’کہاں سے چاچو؟‘‘ مصعب کے سوال پر اس نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ وہ بڑی بے صبری سے جواب کا منتظر تھا۔
’’راہ پر چلنے والے تو اپنے تمام تر جذبے کے ساتھ تیار ہیں، مگر کوئی صحیح راہ دکھانے والا بھی تو سامنے آئے۔‘‘ عارف اس کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔
’’ہمارے اسلاف سے۔‘‘ اس نے ایک آہ بھر کر کہا ’’علامہ اقبال کہتے ہیں نا کہ:
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا‘‘
’’تو تمہارا مطلب ہے کہ پڑھنے لکھنے کے لیے تو جا سکتے ہیں مگر رہنے یا نوکری کرنے کے لیے نہیں۔‘‘ عاکف نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’علم تو مومن کی گمشدہ میراث ہے بھائی! جہاں سے بھی ملے حاصل کرنا چاہیے۔‘‘عارف نے طنز کا جواب دلیل سے دیا۔ ’’مگر اس بات پر عمل ہم سے پہلے ان باہر کی اقوام نے کیا۔‘‘ اس نے بات جاری رکھی۔ ’’وہ عقل رکھتے تھے کہ علم وہ چیز ہے جو کہیں سے بھی حاصل کیا جائے مگر وہ صحیح اور غلط میں فرق سکھاتا ہے۔ علم سکھاتا ہے کہ کیسے اپنی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہتے ہوئے ترقی کی جاسکتی ہے، اپنے اقتدار کے ساتھ کیسے دنیا میں اپنا نام بنایا جا سکتا ہے، اور ان اقوام نے یہی کیا۔ جس سے بھی لیا، علم لیا۔‘‘ اس کا انداز جذباتی ہوگیا۔’’اور ہم کیا سمجھتے ہیں کسی کی تہذیب کو نقل کرلینے سے، اُن کے ساتھ رہنے سے، اُن کی زبان بولنے سے ہم ترقی یافتہ بن جائیں گے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔ ’’درحقیقت کسی زمین پر کھڑے مضبوط، تناور اور پھل دار درخت کو دیکھ کر ہم اس سے متاثر ہوجاتے ہیں اور اس پر اپنا آشیانہ بنانا چاہتے ہیں، جب کہ اس سرزمین کی آب و ہوا ہمارے لیے بہتر ہے نہ اس درخت کا پھل ہمارے کھانے لائق ہے، اور وہ درخت کسی اور کا مسکن اور ملکیت ہے۔ سو ہمیں اگر میسر آئے گی بھی تو کمزور شاخ، جس پر بنا ہوا آشیانہ ناپائیدار ہوگا، جس کے گر جانے کا خوف ہمیشہ ہمارے دل کو لاحق ہوگا۔‘‘ اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
’’اپنی زمین پر آشیانہ بنانے کے لیے درخت ہی میسر نہ ہو تو کیا کریں؟‘‘ عاکف نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
’’درخت کیسے اُگانا ہے، یہ سیکھنا ہے۔ بیج کیسے بوتے ہیں، اس کی تربیت لینی ہے۔ کون سے پھل ہمارے لیے بہتر ہیں، یہ دیکھنا ہے۔ درخت کو مضبوط اور تناور کیسے بنایا جائے، یہ راز معلوم کرنا ہے تاکہ ہماری زمین پر ایسے پھل دار اور مضبوط درخت اُگیں جن پر ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اپنا آشیانہ بنائیں اور جن کے گرنے کا کوئی خوف نہ ہو۔‘‘عارف نے امید بھرے لہجے میں کہا۔
’’مطلب یہ کہ ہمیں دنیا بھر میں گھوم کر اچھے بیج تلاش کرنے ہیں اور پھر اپنی زمین پر مضبوط درخت اگانا ہے تاکہ ہمارے آشیانے بھی مضبوط اور ہمیشہ قائم رہنے والے ہوں۔‘‘ مصعب نے سر ہلاتے ہوئے کہا جیسے بات اُسے مکمل طور پر سمجھ میں آگئی ہے۔
’’مستقبل کے معماروں کو یہی تو سمجھنا ہے۔‘‘عارف نے سوچا تھا۔