امید کا جلتا دیا

64

کٹھن حالات میں جلتا امید کا دیا
یحییٰ اور معوذ نے اپنی امی سے کہا :

ہمیں پڑھنا ہے۔ ہم کیوں اسکول میں پناہ گزین ہیں ۔ ہمارا اسکول کب کھلے گا؟ یا امی۔

ماں ام عمارہ آنکھوں میں نمی دل میں دکھ سمیٹے بچوں کو امید دلانے لگی۔ ان شا اللہ جلد بس ذرا جنگ بند ہو جائے امن ہو جائے تو کھل جائے گا آپ کا اسکول۔

بچے یہ سن کر خوشی سے پکار اٹھے۔اللہ اکبر ان شا اللہ۔ اور ام عمارہ ہاتھ اٹھائے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنے غمزدہ دل کی گہرائیوں سے اپنی سر زمین فلسطین کے لیے گڑ گڑاا کر دعائیں مانگنے لگی۔

سب ہی دعا گو تھے ان سب کی امید کا دیا روشن تھا۔ کیسے نہ ہوتا؟اللہ کے بھروسے پر قبلہ اول کی حفاظت پر مامور اہل فلسطین آئےدن سخت حالات مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنوں کی جدائی کا غم سہتے ہوئے گھر بار چھوٹ جانے کے باوجود اور زخموں سے چور بدن کے ساتھ صیہونی دہشت گردی کا سامنا کررہے ہیں ۔ان کے دل اور عزائم فولادی ہوچکے ہیں۔ فلسطین میں ایک طرف ادویات، پانی اور خوراک کی قلت کے باعث آئے روز بچوں اور دیگرشہریوں کی اموات کی خبریں سامنے آر ہی ہیں۔ وہیں دوسری جانب غاصب صہیونی دشمن ریاست اسرائیل نے جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام بنا دی ہیں اور وہ غزہ میں فلسطینیوں کی منظم؟ اور مسلسل نسل کشی پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ قائم ہیں۔ صبح ہی محلہ الشریم کے ایک اسکول ابن الہیشم میں فضائی حملے اور بہت سے فلسطینیوں کی شہادت اور زخمی ہونے کی خبر نے ام عمارہ کے غمزدہ دل کا بوجھ اور بڑھادیا اسکے لبوں پر اللہ سے کسی صلاح الدین ایوبی جیسے مرد مجاہد بھیجنے کی دعا اور آنکھوں میں انتظار ہے۔ قرآن مجید سورہ آل عمران کی یہ آیت اسکے دل کو تقویت دینے لگی۔

دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

حصہ