قابل اجمیری :جدید غزل کا فراموش شدہ نابغہ شاعر

165

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کے خالق قابل اجمیری کو وہ سب لوگ جانتے ہیں جو جدید اردو شاعری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی المیوں سے بھری ہوئی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی شاعری دل کو چھوتی ہے، اور کوئی ان کا شعر پڑھ کر یا سن کر وقتی طور پر اس کی گرفت میں چلا جاتا ہے۔ قابل اجمیری سے میرا غائبانہ تعارف دیواروں پر لکھے اس شعر سے ہوا:

ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

قابلؔ نے نظمیں بھی کہیں اور غزلیں بھی، لیکن ان کی شناخت غزل بنی، حالانکہ ان کی نظمیں بھی ان کے خیال کا عکس ہیں۔ تاہم، وہ تعداد میں کم ہیں اور وہ مقام حاصل نہیں کرسکیں جو ان کی غزلوں کو ملا ہے۔

قابلؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ٹھیرائے گئے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ان کی بیماری تھی۔ قابلؔ کو تپ دق جیسا مرض لاحق تھا، جس کے سبب ان کی صحت دن بدن بگڑتی چلی گئی۔ شاعر اور نقاد شہزاد احمد نے اپنی تحریروں میں قابل کی زندگی کو ایک ’’طویل المیہ‘‘ قرار دیا۔ ان کے پاس علاج معالجے کے وسائل نہیں تھے، یہاں تک کہ جب ڈاکٹر نے سیب کھانے کا مشورہ دیا، تو ان کے پاس سیب خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ قابل اجمیری کی ذاتی زندگی میں جو رنج و غم تھے، وہی ان کی شاعری کا محرک بنے، اور انہوں نے اس دکھ درد کو اپنی غزلوں میں اس قدر خوبصورتی سے پیش کیا کہ ان کا شمار جدید غزل کے اہم ترین شعرامیں ہوتا ہے۔ یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ اردو غزل کو نئی جہت اور نئے میلانات و امکانات بخشنے والے لوگوں میں آپ خاص تھے۔

راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا

قابل اجمیری کا اصل نام عبد الرحیم تھا، اور وہ 27 اگست 1931ء کو اجمیر شریف میں پیدا ہوئے۔ جب قابل اجمیری کی عمر صرف چھ سال تھی، تو یکے بعد دیگرے والد اور والدہ کے انتقال سے یتیم ہوگئے۔

اجمیر میں ان کے مکان کے عقب میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ تھی۔ وہ اسی درگاہ کے قریب پروان چڑھتے ہوئے وہاں کی محافلِ قوالی میں موجود رہتے تھے، اور پھر خود بھی شعری اظہار کی طرف مائل ہوگئے۔ قابلؔ نے ابتدائی دور میں ارمان اجمیری اور مولانا مانی اجمیری سے اصلاح لی، جن کی رہنمائی نے ان کی شاعری کو نکھارا۔ آپ 1948ء میں اپنے بھائی شریف کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔

ایک روایت کے مطابق مرحوم ماہرالقادری نے اپنے رسالے ’’فاران‘‘ کے دفتر میں غربت میں ڈوبے قابل اجمیری کو جگہ دی۔ اسی دوران وہیں جگر مراد آبادی کا ماہرالقادری کے ذریعے قابلؔ سے رابطہ ہوا۔ جگر صاحب نے قابل اجمیری سے اشعار سنے تو اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے قابلؔ کو اپنے ساتھ حیدرآباد سندھ کے ایک مشاعرے میں چلنے کی دعوت دی۔

قابلؔ نے صرف چودہ سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا تھا۔ انہیں حیدرآباد میں ادب دوستوں کا ایک وسیع حلقہ نصیب ہوا، جس میں کئی اہم شخصیات شامل تھیں۔

وہ مشاعروں میں اتنے مقبول ہوئے کہ صرف 21 سال کی عمر میں انہیں حیدرآباد کے دوسرے کہنہ مشق شعراء مثلاً اختر انصاری اکبر آبادی، محسن بھوپالی اور حمایت علی شاعر کی سطح کا شاعر تسلیم کیا گیا۔ لیکن ڈان میں قابلؔ پر لکھے ایک مضمون میں ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے لکھا تھا کہ ان کی کم عمری کی شہرت سے ان کے بعض ہم عصر ناراض اور حسد کرنے لگے، کیونکہ وہ، وہ شہرت حاصل نہ کرسکے جو قابلؔ کو فوراً ملی تھی۔

جیسا کہ میں نے ذکر کیا، حیدرآباد میں ادبی جریدے ’’نئی قدریں‘‘ کے مدیر و مالک اختر انصاری اکبر آبادی کے ساتھ قریبی تعلق رہا، جو ان کے استاد بھی تھے۔ اسی دوران قابل اجمیری نے روزنامہ ’’جاوید‘‘ میں قطعہ نگاری کا آغاز کیا، اور بعد میں ہفت روزہ ’’آفتاب‘‘ میں بھی قطعات لکھتے رہے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا دائرہ صرف قطعوں تک محدود نہ رہا، بلکہ انہوں نے غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں، جنہوں نے ان کے ادبی سفر میں اہم کردار ادا کیا۔

ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی لانے والی مسیحی خاتون نرگس تھیں، جو بعد میں شادی سے قبل مسلمان ہوگئی تھیں۔

1960ء میں کوئٹہ جہاں وہ علاج کی غرض سے موجود تھے، وہاں ریلوے کے سینی ٹوریم میں نرگس سوزن سے ان کی ملاقات ہوئی تھی، پھر انہوں نے قابل اجمیری کے ساتھ شادی یہ جانتے ہوئے کی کہ ان کے شوہر کی زندگی زیادہ طویل نہیں ہوگی۔ لیکن انہوں نے وہ کیا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے، ان کی قربانیوں کی بدولت قابلؔ کے دو شعری مجموعے ’’رگِ جاں‘‘ اور ’’دیدۂ بیدار‘‘ شائع ہوسکے۔ نرگس کا انتقال اگست 2001ء میں ہوا۔

قابل اجمیری کی غزلیں اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں زندگی کے دکھ درد، یاسیت، اور زمانے کے تغیرات کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ ان کی شاعری میں زندگی کے وہ پہلو نظر آتے ہیں جو ایک عام انسان کو متاثر کرتے ہیں۔

قابلؔ نے جس دور میں شاعری کی، وہ سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کا دور تھا۔ ان کی شاعری میں ان تغیرات کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ ایک طرف اپنے ذاتی المیوں سے نبرد آزما تھے، اور دوسری طرف زمانے کے بدلتے حالات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ کیا کہا تھا، قابلؔ نے کہ:

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
پھر کوئی کم بخت کشتی نذرِ طوفاں ہو گئی
ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں
تیرا اندازِ تغافل ہے جنوں میں آج کل
چاک کر لیتا ہوں دامن اور خبر ہوتی نہیں
ہائے کس عالم میں چھوڑا ہے تمہارے غم نے ساتھ
جب قضا بھی زندگی کی چارہ گر ہوتی نہیں
رنگِ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
اضطرابِ دل سے قابلؔ وہ نگاہِ بے نیاز
بے خبر معلوم ہوتی ہے مگر ہوتی نہیں

ایک موقع پر کہا:

تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیے
لیکن علاجِ تنگیِ داماں نہ کر سکے
اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیازِ ساحل و طوفاں نہ کر سکے

ناصر کاظمی کہتے تھے کہ ’’قابل اجمیری نے غزل کی دنیا میں جو نیا انداز متعارف کرایا، وہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنے گا۔ ان کا کلام وقت کی قید سے آزاد ہے اور ہر دور میں اس کی اہمیت برقرار رہے گی۔‘‘

سلیم جعفری حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے 1992ء میں ’’کلیاتِ قابلؔ‘‘ شائع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ قابل اجمیری کی شاعری ایک نئی جدت کی نمائندہ تھی۔ ان کے بقول: ’’قابل کی شاعری میں جدید زمانے کے درد و الم اور انسانی زندگی کے مسائل کی گہری عکاسی ملتی ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف ان کے ذاتی تجربات کا عکس ہے بلکہ اس میں وقت کے معاشرتی تغیرات کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔‘‘

پاکستان ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے ممتاز اداکار معین اختر مرحوم نے قابل اجمیری کے بارے میں 2005ء میں ان کی یاد میں منعقدہ پروگرام میں کہا تھا کہ وہ بہت بڑے شاعر تھے اور ہمیشہ بڑے رہیں گے، ان کے قد کو کوئی کاٹ نہیں سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا قابل سے پہلا تعارف ان کے شعر

مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد

سے ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’’میں نے قابلؔ کو ایسا پڑھا کہ جیسے میرے نصاب میں شامل تھا، اور مجھے ان کا تمام کلام کم و بیش ازبر ہے‘‘۔ انہوں نے اپنے ماضی کے واقعے کے ذکر میں کہا کہ میں نے ایک آٹوگراف میں لڑکی کو یہ مصرع لکھا اور اس نادانی پر شرمسار بھی ہوتا ہوں کہ:

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے

معروف صحافی اور ادیب توصیف چغتائی نے بیگم قابل اجمیری کا انٹرویو کیا تھا اور ان کا کہنا تھا: ’’قابل اجمیری کی زندگی کی کہانی ایک المناک داستان ہے، لیکن ان کی شاعری میں جو امید کا پہلو ہے، وہ انہیں دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔ قابلؔ کی شاعری میں جو درد اور سچائی ہے، وہ ان کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘

حمایت علی شاعر نے قابل اجمیری کے بارے میں کہا تھا کہ قابلؔ کا کلام اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک سچے شاعر کے الفاظ ہمیشہ دلوں میں گھر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں موجود سادگی اور گہرائی انہیں اردو شاعری کے اہم شعرا میں شامل کرتی ہے۔ حکومت ِسند ھ نے انھیں ’’شاعرِ سندھ‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔ قابل اجمیری کے صاحبزادے ظفر قابل اجمیری ہیں۔

قابل اجمیری کی زندگی مختصر لیکن بامعنی تھی، انہیں ہماری اردو کتابوں کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ قابل اجمیری پر کوئی بڑا کام تاحال دیکھنے کو نہیں ملا، شاید کسی نے ایک آدھ مقالہ لکھا ہو، اس سے زیادہ کی خبر نہیں۔ جب کہ وہ اپنی مختصر زندگی میں وہ کام کرگئے جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انہوں نے بیماری اور مشکلات کے باوجود اپنی شاعری میں گہرے جذبات اور انسانی تجربات کی عکاسی کی، اور زندگی کے خوابوں میں چھپا ہوا دکھ بکھیر دیا۔ آپ کا انتقال 3 اکتوبر 1962ء کو ہوا۔ دنیا سے جانے سے قبل بقول معین اختر اسی لیے وہ کہہ گئے کہ:

کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی آج تیرا قرض چُکا دیتے ہیں
حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار تجھے ہم تو دُعا دیتے ہیں
کوئے محبوب سی چُپ چاپ گزرنے والے
عرصہِ زیست میں اک حشر اُٹھا دیتے ہیں

حصہ