نسل نو کا مستقبل؟

142

ہم ایک زمانے سے سُنتے آئے ہیں کہ کسی بھی ملک کا مستقبل اُس کی نئی نسل ہوتی ہے۔ اِس میں تو خیر کوئی شک بھی نہیں اور دو رائے بھی نہیں مگر سوال یہ ہے کہ نئی نسل کا مستقبل کیا ہے۔ کیا نئی نسل کو یونہی چھوڑا جاسکتا ہے کہ اپنے طور پر جو چاہے کرے، اپنے لیے کوئی راہ چُنے اور سوچے سمجھے بغیر اُس پر گامزن رہے؟ کیا دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے؟

انتہائی دل خراش حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کے حوالے سے سنجیدہ ہیں نہ متفکر۔ یہ سوچ لیا گیا ہے کہ جسے جو کرنا ہے وہ کر ہی لے گا۔ معاشرہ سمندر کی طرح ہوتا ہے۔ ہم سب اِس سمندر میں تیر رہے ہیں۔ کہتے ہیں مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سِکھائے۔ یعنی یہ کہ جو بھی کسی معاشرے میں پیدا ہوا ہے اُسے جینا سِکھانے کی کیا ضرورت ہے، وہ تو جیے گا ہی۔ بالکل ٹھیک مگر جناب، سوال جینے کا نہیں بلکہ ڈھنگ سے جینے کا ہے۔

معاشرے کے سمندر میں ہم سب تیر رہے ہیں۔ ہماری اولاد بھی تیرنے لگتی ہے مگر اُسے مگرمچھوں اور بڑی مچھلیوں سے بچانا بھی تو لازم ہے۔ یہ کام تو خود بخود نہیں ہوسکتا۔ نئی نسل کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اُسے مستقبل کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہی نہیں کیا جاتا۔ بچوں کی پرورش یعنی اسے کھلانے پلانے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ اِس بات کی عمومی سطح زیادہ اہمیت نہیں کہ بچوں کو پوری سنجیدگی اور اعتماد کے ساتھ توجہ بھی درکار ہوا کرتی ہے۔

دنیا بھر میں معاشرے اپنے بچوں کا مستقبل تاب ناک اور محفوظ بنانے پر متوجہ رہتے ہیں کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ اِسی صورت پورے معاشرے کی ترقی و خوش حالی اور تحفظ کی راہ ہموار ہوگی۔ نئی نسل کی حقیقی ترقی کا مدار اس بات پر ہے کہ والدین اور بزرگ اُن پر متوجہ ہوں، اُن کی تعلیم و تربیت اور کریئر کے بارے میں سوچتے رہیں اور اُن کی بھرپور راہ نمائی اور مدد کرتے رہیں۔

کیا ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے؟ پاکستان کا شمار اُن چند معاشروں میں ہوتا ہے جہاں عمومی سطح پر نئی نسل کے حوالے سے جامع منصوبہ سازی کی سوچ پائی جاتی ہے نہ حکومتی سطح پر ایسی پالیسی کہ نئی نسل کو بہتر طور پر تیار کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ اِس کے نتیجے میں معاشرتی اور معاشی سطح پر جو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں وہ ہوچکی ہیں اور معیارِ زندگی کا گراف نیچے لارہی ہیں۔

ترقی یافتہ معاشروں پر ایک اُچٹتی سی نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن میں نئی نسل کو تیار کرنے کی باضابطہ سوچ پائی جاتی ہے۔ والدین ہی نہیں پورا معاشرہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے۔ جب کوئی معاشرہ منظم سوچ کا حامل ہوتا ہے اور اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے تب وہ ہر معاملے کو درست رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں یہی ہو رہا ہے۔

ترقی یافتہ معاشروں کو بغور دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم اور تربیت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اس حقیقت کو دیگر (یعنی ترقی پذیر اور پس ماندہ) معاشرے کم ہی محسوس کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ معاشروں میں بچوں کی بنیادیں مضبوط بنانے اور جڑیں گہری کرنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے یعنی ابتدائی سطح کی تعلیم کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے زندگی کی بنیادی حقیقتیں بچوں کو بتائی اور سکھائی جاتی ہیں۔ اُن میں اس بات کا شعور پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے کے لیے زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت ہوں، اپنی صلاحیت و سکت سے سب کو مستفید کریں۔

ابتدائی تعلیم اگر مستحکم ہو تو نئی نسل کی بنیاد ایسی مضبوط بنتی ہے کہ پھر وہ زندگی بھر کچھ زیادہ الجھن محسوس نہیں کرتی۔ یہی سبب ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں ابتدائی تعلیم بہت مہنگی ہے اور ابتدائی جماعتوں کے اساتذہ کو غیر معمولی مشاہرے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ نئی نسل کو تیار کرنے کے حوالے سے زیادہ وقت دے سکیں، پُرسکون اور بے فکر ہوکر پڑھاسکیں۔

امریکا، یورپ، جاپان، چین، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، کینیڈا، تائیوان، ملائیشیا اور دیگر بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو نظر انداز کرنے کا چلن نہیں پایا جاتا۔ ذہنوں میں یہ غلط فہمی بھی موجود نہیں کہ محض دولت کے ذریعے بچے اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ انتہائی مالدار افراد بھی (جن کے بچوں کو بظاہر کمانے کی ضرورت نہیں ہوتی) بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے بچوں کو کمانا تو نہیں ہے مگر جو کچھ وہ خود کماچکے ہیں اُسے بچانے کے لیے تو بچوں کو تیار کرنا لازم ہے!

ہمارے ہاں یہ سوچ عمومی سطح پر پوری توانائی کے ساتھ پائی جاتی ہے کہ اگر کسی نے بہت زیادہ کمالیا ہے، کئی مکان بنالیے ہیں، بزنس کھڑا کرلیا ہے تو اب اُس کی اولاد کو پڑھنے لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ انتہائی درجے کی احمقانہ سوچ جس سے چُھٹکارا پانا لازم ہے۔ ذہنوں میں ایک عمومی تصور اور تاثر یہ ہے کہ کسی بچے کو پڑھانے کا بنیادی مقصد اُسے کمانے کے قابل بنانا ہے۔ تعلیم و تربیت کا کمانے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے اپنے معاشرے میں وہ لوگ زیادہ کماتے پائے گئے ہیں جنہیں نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا۔

تعلیم اور تربیت دونوں ہی مراحل انسان کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ کسی بچے کو اسکول اس لیے نہیں بھیجا جاتا کہ وہاں سے کمانے کے بارے میں سیکھ کر نکلے گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر بچے کو اسکول بھیجنے کے بجائے کسی دُکان پر لگانا زیادہ مناسب ہوگا۔ اسکول کی تعلیم اور گھر پر دی جانے والی تربیت کسی بھی بچے کو شعور بخشتی ہے، اُسے بتاتی ہے کہ عملی زندگی میں کس معاملے کو کس طور لینا ہے۔

سوال اسکول، کالج یا یونیورسٹی کا نہیں بلکہ تعلیم اور تربیت کا ہے۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ لکھنا پڑھنا سکھاتا ہے، زندگی بسر کرنے کے ڈھنگ تربیت سے آتے ہیں۔ بعض اساتذہ کی ذہنی سطح بلند ہوتی ہے۔ وہ بچوں کو غیر محسوس طور پر عملی زندگی کے حوالے سے بہت کچھ سکھادیتے ہیں۔ سیکنڈری کی سطح پر بھی چند ایک اساتذہ اپنے طلبہ کو آنے والی یعنی عملی زندگی کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔ وہ سب کچھ بتاتے جاتے ہیں تاکہ طلبہ کے ذہنوں میں اشکال نہ رہے اور وہ جب عملی زندگی میں قدم رکھیں تو زیادہ خوف محسوس نہ کریں۔

ہم جن چند بنیادی مسائل کو حل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور حل کرنے کا سوچ بھی نہیں رہے اُن میں بچوں کی بہتر مستقبل کے لیے تیاری بھی نمایاں ہے۔ نئی نسل اپنے طور پر بھی بہت کچھ کرسکتی ہے اور کرتی ہی ہے لیکن اگر اُس کی بروقت اور موزوں راہ نمائی کی جائے تو معاملات کو اچھی طرح نپٹایا اور درست کیا جاسکتا ہے۔

نئی نسل میں جوش و خروش غیر معمولی نوعیت کا ہوتا ہے۔ جو عملی زندگی ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ہوتی اُس کے حوالے اُس کے ذہنوں میں بہت سے تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف امیدیں اور جذبے ہوتے ہیں اور دوسری طرف اشکالات۔ ذہن تھوڑے سے الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ بہت کچھ سمجھ میں آرہا ہوتا ہے مگر دوسرا بہت کچھ سمجھ میں نہیں بھی آرہا ہوتا۔ ایسے میں اُس کے ذہنوں میں الجھن کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ ایسے میں اگر بڑے کچھ بتائیں، سمجھائیں تو اُس کا اثر نمایاں ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں کسی زمانے میں خاندانی نظام نہ صرف یہ کہ تھا بلکہ پوری دیانت، خلوص اور مٹھاس کے ساتھ تھا۔ لوگ ایک گھر میں محض ساتھ نہیں رہتے تھے بلکہ واقعی ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیتے تھے۔ خاندانی نظام بہت حد تک برقرار ہے مگر دلوں کے درمیان فاصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی مکان کے پورشنز میں ایک شخص کی اولاد رہتی ہے مگر اُن لوگوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے نہ یگانگت۔ وہ ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہتے ہیں۔

جب خاندانی نظام توانا اور درست راہ پر تھا تب بچوں کی تربیت عمدگی سے ہو پاتی تھی۔ گھر کے بڑے واقعی گھر کے بڑے ہوتے تھے اور بچوں کو اُن کی طرزِ فکر و عمل سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ بڑے اپنی ذمہ داری بھی محسوس کرتے تھے۔ صرف تایا ہی نہیں بلکہ چاچا بھی اپنے بھتیجوں کو اولاد کے درجے پر رکھتے تھے، اُن کے بڑے بن کر دکھاتے تھے۔ دادا دادی کا کردار بھی کم اہم نہ تھا۔ تایا اور چاچا عملی زندگی یعنی معاش کے حوالے سے زیادہ سکھاتے تھے اور دادا دادی بچوں کو حُسنِ اخلاق اور معاملت کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔ وہ گزرے ہوئے زمانوں کی کہانیاں سُناکر بھی بچوں کو بہت کچھ سکھانے کی کوشش کرتے تھے۔

ایسے ماحول میں بچے کچھ نہ سیکھیں یہ تو ممکن ہی نہ تھا۔ آج بھی کسی معمر فرد سے پوچھیے کہ اُس نے زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ کہاں سے سیکھا تھا تو وہ بتائے گا کہ گھر اور خاندان کے بزرگوں نے یہ ہنر سکھایا تھا اور اس لیے سکھایا تھا کہ وہ خود بھی ڈھنگ سے جینا جانتے تھے۔ گھر اور خاندان کے بزرگوں کی تو خیر بات ہی کیا ہے، اُس دور میں تو پڑوس اور گلی کے بزرگ بھی دوسروں کے بچوں کو اپنے بچوں جیسا ہی سمجھتے تھے اور اُن میں کسی بھی خرابی کو دیکھ کر بے چین ہوجایا کرتے تھے۔ سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس تھا۔ وہ جانتے تھے کہ بچوں کو اگر ڈھیلا یا کُھلا چھوڑا جائے تو اُن کے ذہنوں میں کجی پیدا ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اُس دور میں بھی ایسے گھرانے تھے جو اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایسے لاپروا اور بے نیاز ہوتے تھے گویا وہ لاوارث ہوں۔ ایسے بچوں کو دور سے پہچان لیا جاتا تھا کیونکہ اُن کی طرزِ فکر و عمل میں انتہائی نوعیت کی کجی پائی جاتی تھی۔ خیر، ایسے گھرانے یا خاندان کم تھے جو اپنے بچوں کے معاملے میں انتہائی درجے کے لاپروا واقع ہوتے تھے۔

فی زمانہ ایسے گھرانوں اور خاندانوں کی تعداد زیادہ اور ہے اور وہ اپنی طرزِ فکر و عمل کے اعتبار سے نمایاں ہیں جو اولاد کی معقول تربیت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔ ایک دور تھا کہ بچے جب جوان ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھتے تھے تب یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا تھا کہ وہ کیا کریں، کیسے اور کتنا کمائیں جس سے معیاری زندگی بسر کرنا ممکن ہو۔ تب ٹیکنالوجیز کی گرم بازاری نہ تھی۔ کریئر کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ یوں تھا کہ کرنے کو کچھ زیادہ تھا ہی نہیں۔ چند شعبے تھے جن میں پُرکشش معاوضہ یا مشاہرہ ممکن ہو پاتا تھا۔ ایسے شعبوں میں مسابقت بہت زیادہ تھی۔ جنہیں آگے بڑھے کا موقع نہ مل پاتا تھا وہ عمومی شعبوں میں اپنے آپ کو، بلکہ زندگی کو کھپا دیا کرتے تھے۔

فی زمانہ شعبے بہت زیادہ ہیں اور کرنے کو بھی بہت کچھ ہے۔ ایسے میں انسان اپنی صلاحیت و سکت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بہترین مواقع پاسکتا ہے مگر اب بھی وہی مشکل ہے جو مواقع نہ ہونے پر تھی۔ تب بھی سوال یہ تھا کہ انسان اپنے آپ کو منوانے کے لیے کیا کرے اور آج بھی سوال یہی ہے کہ انسان کس طور اپنے آپ کو منوائے، کس شعبے میں قدم رکھے تاکہ زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی گنجائش پیدا ہو اور وہ بھی معقول طریقے سے۔ جب زیادہ موقع نہ تھے تب بھی مسابقت تھی اور اب جبکہ بہت زیادہ مواقع ہیں تب بھی ذہنوں میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ انسان کیا کرے، کس سمت جائے، کس شعبے کو اپنائے، کس طور اپنے آپ کو زمانے سے ہم آہنگ رکھے۔

ترقی یافتہ دنیا علاوہ بہت سے ابھرتے ہوئے معاشروں میں بھی اِس الجھن کا ایک اچھا حاصل کریئر کاؤنسلنگ کی صورت میں تلاش کرلیا گیا ہے۔ بچوں کو مڈل یا سیکنڈری کے لیول ہی پر اچھی طرح پرکھا جاتا ہے تاکہ اُن کے بنیادی رجحانات کا اندازہ ہو اور یہ بھی کہ وہ کس شعبے کو حتمی طور پر اپناکر اپنے لیے بھرپور ترقی و خوش حالی کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی بچے کے بارے میں اندازہ ہو جائے کہ وہ پائلٹ، انجینیر، ڈاکٹر، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، بینکر، ایکٹر، سنگر، ڈائریکٹر، پلے رائٹ، معلم، درزی، ترکھان، میکینک یا کچھ اور بننا چاہتا ہے تو بہت پہلے سے اُس کے لیے موزوں ماحول تیار کیا جاسکتا ہے۔ فی زمانہ پیشہ ورانہ تعلیم کا بنیادی مقصد بھی حتمی کریئر کا انتخاب ہی ہے۔

بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ بچہ وہ کام کرے جو اُسے اچھا لگتا ہو، جس میں اُس کا دل ہو۔ اگر محض زیادہ دولت کمانے کے خیال سے وہ اپنی مرضی کے خلاف کوئی کام کرے گا تو زندگی بھر پریشان ہی رہے گا۔ کامیاب لوگ وہ ہیں جو اپنی مرضی یا پسند کے مطابق کوئی شعبہ منتخب کرتے ہیں اور پھر زندگی بھر اُس شعبے کو اپنا خونِ جگر پلاتے ہیں۔ بہت سوں کو آپ اس حال میں دیکھیں گے کہ اگر اپنی مرضی کا کام کر رہے ہوں تو اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ اُنہیں مل کیا رہا ہے۔ وہ معاوضے یا مشاہرے کی پروا کیے بغیر کام کرتے رہتے ہیں اور جو ملتا ہے اُسی میں خوش رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے شعبے کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور اِسی سے اُنہیں طمانیتِ قلب حاصل ہوتی ہے۔

نئی نسل ہم سے پوری توجہ چاہتی ہے۔ لازم ہے کہ ہم اُس کے رجحانات کا اندازہ لگاکر اُس کے لیے درست راہ کا تعین کریں اور اچھے مستقبل یعنی کامیاب کریئر کے لیے جو کچھ بھی درکار ہو وہ اُسے فراہم کریں۔ کھلانا پلانا کافی نہیں۔ بچوں کو تعلیم و تربیت کی بھی ضرورت ہے اور کریئر کاؤنسلنگ کی بھی۔ اِسی صورت اُن میں ڈھنگ سے جینے کا شعور پیدا ہوتا ہے اور وہ معاشرے کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔

آپ نے کیا سوچا ہے؟ آپ کی اولاد کو معاشرے کے لیے مفید ثابت ہونا چاہیے یا نہیں؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو لازم ہے کہ آپ اپنی اولاد کی معقول تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں، اُس کے مستقبل سے متعلق امور پر متوجہ ہوں۔ عملی زندگی ایسے تالاب کے مانند ہے جس میں مگرمچھ بھرے ہوئے ہیں۔ اپنی اولاد کو عملی زندگی کے تالاب میں مگرمچھ ثابت ہونے والی مشکلات سے بچانا آپ کا بنیادی فریضہ ہے۔ اس معاملے میں بے نیازی چلے گی نہ لاپروائی۔ زیادہ نہ سوچیے، یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔

حصہ