آخر شب کے ہم سفر

70

قسط:42

اُس نے ہڑبڑا کر سر اُٹھایا۔ اور چوروں کی طرح اُدما پر نظر ڈالی۔ مائی لِٹل مدر۔
اُدما چائے گھولنے میں مصروف رہیں۔ وہ چپ چاپ اپنی پیالی کا انتظار کرنے لگا۔

’’ایک بات سنو۔ مذاق برطرف‘‘۔ اُدما نے اسے پیالی دے کر کہا۔ ’’تم نے اپنی غیر موجودگی میں دیپالی میرے حوالے کی ہے۔ فرض کرو وہ تمہارے اس قصے کے بارے میں مجھ سے پوچھے تو میں اسے کیا بتائوں؟‘‘

’’کوئی ایسی بات نہیں ہے، تم خواہ مخواہ اتنی دیر سے لمبا چوڑا میلو ڈرامہ بنارہی ہو‘‘۔ ریحان نے پھر جھنجھلا کر کہا۔

’’مگر مجھے پوری تفصیل تو معلوم ہونی چاہئے۔ فرض کر جہاں آرا اس سے کچھ کہے تو خود اُس کی پوزیشن کتنی نازک اور AWKWARD ہوگی۔ اور وہ تمہارے متعلق کیا سوچے گی کہ تم نے دو لڑکیوں کو جُل دیا۔ پہلے جہاں آرا کو دغا دی اور پھر اسے دھوکے میں رکھا۔ جبکہ وہ جہاں آرا کی اتنی گہری دوست ہے… مجھے یقین ہے وہ اسی وجہ سے تم سے بدک گئی تھی۔ نواب صاحب تم کو گھر داماد بنانا چاہتے تھے۔ مگر تم کو جہاں آرا سے خود کوئی دلچسپی نہ تھی؟ تم بالکل بے قصور ہو…؟‘‘

’’کیا میرا ٹرائل ہورہا ہے؟ تم کو تو واقعی بیرسٹر ہونا چاہئے تھا‘‘۔
’’تمہاری امی نواب قمر الزماں کی سگی چچا زاد بہن تھیں؟‘‘۔

میری امی… میری امی۔
بارش کی لطیف دھند باغ پر منڈلاتی رہی۔ ہوا میں پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔
’’پھر تمہیں جائداد میں حصہ کیوں نہیں ملا؟‘‘

’’اوہ ادما… اُدما… ڈونٹ بی سچ اے بور۔ تم کو بتلا چکا ہوں‘‘۔ ریحان نے اُکتا کر جمائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’مگر تم ساری الف لیلیٰ نہ جانے کیوں پھر سننا چاہتی ہو۔ آل رائٹ… مجھے جائداد میں حصہ نہیں ملا۔ جس کی مجھے مطلق پرواہ نہیں۔ میرے نانا نواب زادہ فخر الزماں چودھری نواب نور الزماں چودھری کے چھوٹے بھائی تھے۔ آیا خیال میں۔ یاد کرلو۔ گرہ میں باندھ لو۔ اور بار بار اپنے سوالوں سے مجھے بور نہ کرنا۔ میرے نانا فخر الزماں چودھری نواب قمر الزماں کے والد نواب نور الزماں کے اکلوتے چھوٹے بھائی تھے۔ اب رٹ کر سبق سنائو۔ چلو۔ تم بھی کیا یاد کرو گی‘‘۔

ادما قہقہہ لگا کر ہنسیں۔ ’’آگے بتائو۔ بڑا الف لیلوی قصہ ہے‘‘۔

’’لائیک ہل۔ الف لیلوی قصہ یہ ہے کہ نانا جان اپنے بڑے بھائی کی طرح بے حد رنگین مزاج تھے۔ صرف کلکتہ کی گوہر جان پر ایک گائوں نچھاور کردیا تھا۔ اور ایک وہ۔ بچپن میں سنا کرتا تھا۔ لکھنؤ کی ننوا بچوا اور دلّی کی چھپا اور بنارس کی بے نظیر۔ فیوڈل ڈیسٹینس کی بات کرتے ہیں آپ لوگ‘‘۔ اس نے پیالی ذرا زور سے طشتری میں رکھی۔

’’تم کو پتا ہے ہم بورژدا لوگوں کو تم فیوڈل لوگ بے حد فیسی نیٹ کرتے ہو‘‘۔ ادما نے مسکرا کر کہا۔

’’بکواس۔ بہرحال‘‘۔ ریحان نے ماچس کے لیے پہلے کرتے کی ایک جیب میں پھر دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا۔

’’سگریٹ پینے بند کردو۔ ہاں پھر کیا ہوا؟‘‘

’’پھر یہ ہوا کہ نانا جان نے ایک تھیٹر کمپنی میں روپیہ لگایا۔ مرحوم خود بھی ناٹک لکھتے تھے۔ ارجمند منزل میں باقاعدہ جلسہ گھر تھا۔ بہرحال۔ تھیٹر کمپنی کا منیجر سارا روپیہ غبن کرکے رنگون بھاگ گیا۔ نانا جان محض گزارے دار نہیں تھے ان کی اپنی زمینیں بھی تھیں۔ اور جب عین عالم جوانی میں نانا جان کا اچانک حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ اُس وقت ان کے حصے کی زمینداری مہاجن کے ہاں رہن رکھی ہوئی تھی۔

’’امی ان کی اکلوتی لڑکی تھیں۔ جب نانا جان مرے وہ شاید چھ یا سات سال کی تھیں۔ والد کے مرنے کے دوسرے سال کالرا کی وبا پھیلی اور اس میں ان کی والدہ بھی چل بسیں۔ امی اپنے تایا کے یہاں پلنے لگیں۔ نواب زادہ فخر الزماں کی جو جائداد فضول خرچی اور عیاشی سے باقی بچی تھی نواب نور الزماں نے رہن سے چھڑا کر بھتیجی کے قانونی سرپرست کی حیثیت سے اپنے قبضہ میں لے لی۔ قاعدے سے امی کی شادی اپنے تایا زاد بھائی یعنی نواب قمر الزماں سے ہونی چاہئے تھی۔ بیگم نور الزماں اب شوہر کی یتیم اور نادار بھتیجی کو کیوں خاطر میں لاتیں۔ وہ کشتیہ کے ایک نواب کی لڑکی کو دیکھ آئی تھیں جو جہیز میں گائوں، مکانات، باغات اور پٹ سن کے کھیت لے کر آئی‘‘۔

وہ سانس لینے کے لیے رکا۔ ماچس سے کھیلنے لگا۔ اور بولا۔ ’’امی ابھی پندرہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ نواب نور الزماں نے ان کی شادی ایک نوجوان غریب مولوی سے کردی… جو ان کے لڑکے کو عربی فارسی پڑھایا کرتے تھے‘‘۔

’’اوہ…‘‘

’’امی کا حمایتی یا پرسانِ حال ان کے ننھیال میں بھی کوئی نہ تھا۔ باقی رشتے دار حسب معمول آپس کی زمینداری کی مقدمہ بازیوں میں جٹے ہوئے تھے۔ ایک یتیم لڑکی کی ذمہ داری کون سنبھالتا۔ ان کے ماموں اور نانا وغیرہ سب مرچکے تھے۔ نواب نور الزماں کے قریبی رشتے دار ہی امی کے ننھیالی لوگ تھے۔ اور سب نواب کی مطلق العنانی اور دبدبے سے خائف تھے۔ نواب صاحب نے کہا لڑکا سیّد اور بے حد شریف ہے اور نکاح پڑھوادیا۔ اور واقعی ابا بہت فرشتہ صفت اور بھولے انسان نکلے۔ ابا کا گائوں شونا پور نواب صاحب کے علاقہ کے پڑوس میں تھا۔ ان کے ہاں کاشتکاری ہوتی تھی۔ میرے ابا، تینوں چچا اور ان کے لڑکے کاشتکار ہیں۔ خود کھیت بوتے اور جوتے ہیں۔ خود فصل کاٹتے ہیں۔ حُقہ لے کر چوپال پر بیٹھتے ہیں۔ ہم اصل انسان کسان ہیں۔ ادما‘‘۔

’’تمہاری امی خوش رہی تھیں؟‘‘

’’تم جدید لڑکی ہو ادما اور تم پچھلی نسل کی مسلمان اور ہندو لڑکیوں کو نہیں سمجھ سکتیں۔ صبر و قناعت اور شوہر کی خدمت جن کا دین ایمان تھا۔ امی کو تو اپنے تایا سے بھی شکایت نہ تھی، نہ اپنے باپ سے جن کی رنگ رلیوں کا اثر اس طرح ان کی اپنی زندگی پر پڑا‘‘۔ وہ چپ ہوگیا۔

’’کمال ہے۔ تم نے مجھے یہ سب اس مرتبہ لندن میں نہیں بتایا تھا۔ ہمیشہ کتراتے رہے‘‘۔

’’میرے ذاتی حالات سے کسی کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے‘‘۔

’’مجھے تو ہے رونو۔ کیا تم واقعی مجھے اپنا پُرخلوص دوست نہیں سمجھتے؟‘‘۔

جب لندن میں اس کے پاس ماموں جان … نواب قمر الزماں کا کیبل آیا تھا کہ اس کی امی کا گائوں میں نمونیہ سے انتقال ہوگیا۔ وہ خود بیمار پڑا ہوا تھا۔ اس زمانے میں ادما نے کس لگن سے اس کی دلجوئی کی تھی۔ دن رات وہ اس کے ارلز کورٹ کے ڈگز میں سرہانے بیٹھ کر اس کا ٹمپریچر لیتی۔ اسے دوا پلاتی۔ اس کے لیے کھانا پکاتی۔ اس کے کپڑے تک دھوتی اور استری کرتی۔ صرف اس کی امی ہی نے اس کی ایسی دیکھ بھال اور خدمت کی تھی۔ ادما کا یہ بے لوث سلوک وہ عمر بھر نہ بھول سکتا تھا۔

’’پھر کیا ہوا رونو…؟‘‘

’’ارے تمہیں بتلایا تو تھا یار…‘‘

’’تمہاری امی غریب کسان گھر میں کس طرح خوش رہیں؟‘‘

وہ اداسی سے مسکرادیا۔ ’’مجھے یاد ہے۔ میں چھوٹا سا تھا اور ایک اندھیری رات برآمدے میں چٹائی بچھائے لالٹین سامنے رکھے اسکول کا سبق یاد کرنے میں مصروف تھا۔ جب اندر سے امی کے آہستہ آہستہ رونے کی اور ابا کے چلانے کی آواز آئی۔ میں امی کو بے حد چاہتا تھا۔ ان کے رونے کی آواز سے گھبرا کر میں نے باشا کی دیوار سے کان لگادیئے اور پھر سوراخ میں سے جھانکا۔ امی دن بھر کام کاج کی محنت کے بعد تھک کر رونے لگی تھیں۔ وہ چولہے کے پاس پیڑھی پر سرجھکائے بیٹھی تھیں اور میرے ابا… مجھے وہ منظر اب تک یاد ہے۔ میرے ابا کمرے کے دروازے میں کھڑے اس متانت سے تقریر کررہے تھے گویا جمعہ گھر کے منبر پر وعظ کہتے ہوں۔ وہ کہہ رہے تھے، میں نے تم کو حلیمہ بی بی شادی کے دوسرے دن سمجھا دیا تھا کہ بھول جائو کہ تم نواب فخر الزماں مرحوم کی بیٹی اور نواب نور الزماں چودھری رئیس اعظم فرید پور کی بھتیجی ہوں… اور ہمیشہ یاد رکھو… انہوں نے شہادت کی اُنگلی اُٹھا کر کہا… کہ تم ایک غریب سیّد کی بیوی اور آلِ رسولؐ کی بہو … اور یاد رکھو حلیمہ بی بی کو شہنشاہِ کائناتؐ کی بیٹی مولا علیؑ کے گھر میں چکی پیستی تھیں۔ اور ایران کی بادشاہ زادی شہید کربلاؓ کے گھر میںفاقہ کرتی تھی۔ تم تو ان سب کی خاک پا بھی نہیں ہو۔ توبہ استغفار کرو۔ اور اللہ سے ڈرتی رہو۔ وہ بخشش والا اور مہربان ہے۔ ابا رسولؐ اللہ کا نام لینے کے بعد درود پڑھ کر بار بار داڑھی پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ ان کی سنجیدہ شکل اور ہوا میں لرزتی داڑھی پر میری نظر پڑی تو باشا کی دیوار کے اُدھر مجھے اپنی پریشانی کے باوجود بے اختیار ہنسی آگئی۔ اور میں اپنی شیتل پاٹی پر واپس آن بیٹھا۔ امی ساری کے آنچل سے آنسو پونچھ کر پھر چولہے پر جھک گئیں۔ اور ابا باہر چلے گئے۔

’’اس کے بعد مجھے یاد ہے، امی نے ابا سے پھر کوئی شکایت نہیں کی، اور خاموشی سے شوہر، ساس، سسر، دیور، جیٹھ اور نندوں کی ٹہل میں لگی رہیں۔ انہیں واقعی یہ فخر تھا کہ سیّد کی بیوی ہیں۔ بیحد … ریحان کی آواز بھر آگئی اور اس نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔

’’یہ سب لوگ کون تھے؟‘‘ ادما نے پوچھا۔

’’یہی سب جن کی محنت کشی کی مثال تمہارے ابا نے ان کے سامنے پیش کی‘‘۔

’’پروفٹ محمدؐ کی بیٹی اور ان کے نواسے کی بیوی، وغیرہ… ارے چھوڑو ادما۔ تم کو ان باتوں سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ کیا پرانے قصے لے کر بیٹھ گئیں‘‘۔ وہ کرسی سے اُٹھ کر برآمدے میں اِدھر سے اُدھر ٹہلنے لگا۔

’’تمہارے ابا بڑے بلند کردار انسان معلوم ہوتے ہیں‘‘۔

’’ابا…‘‘ وہ ٹہلتے ٹہلتے ٹھٹھک گیا۔ ’’ابا حیرت انگیز بے مثال شخصیت کے مالک ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے گھر والے ان کو ذرا سا خبطی گردانتے ہیں۔ مگر گائوں والے ان کو اچھا خاصا ولی اللہ بھی سمجھتے ہیں۔ جب امی کی شادی ہوئی تو نواب نور الزماں نے ان کو جہیز دیا۔ نواب زادہ فخر الزماں کا چھوڑا ہوا تھوڑا سا روپیہ موجود تھا اور بہرحال امی نواب نور الزماں کے سگے بھائی کی اولاد تھیں اور وہ ان کی جائیداد قبضے میں کرکے ان کی کافی حق تلفی کرچکے تھے۔ مگر جب ابا کشتیوں پر لدے مولویوں اور کاشتکاروں کا قافلہ بارات میں لے کر پہنچے تو انہوں نے جہیز کا سامان قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ امی بتایا کرتی تھیں کہ کہنے لگے وہ نواب نور الزماں کے ایسے غریب داماد نہیں کہلانا چاہتے جنہوں نے بیوی کے روپے سے اپنا گھر بھر لیا۔ لہٰذا وہ صرف امی کے کپڑوں کے صندوق اُٹھوا کر امی کو رُخصت کرالے گئے۔ امی کے زیور البتہ جب میری دلہن رابعہ پیدا ہوئی تو نواب صاحب نے اس کے نام سے بینک میں محفوظ کردیئے تھے۔ ابا بہرحال اسی طرح دھان اُگاتے اور جمعہ گھر میں نماز پڑھاتے رہے…‘‘

’’سچے کمیونسٹ…‘‘ اُدما نے کہا۔

ریحان ہنسنے لگا۔

’’اصل قصہ تو تم نے اب تک بتایا نہیں‘‘۔

’’لاحول ولاقوۃ‘‘۔ وہ عاجز آکر پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’جب میں گائوں کے اسکول میں داخل ہوا اور بقول شخصے میری ذہانت کی دھوم مچنے لگی تو نواب قمر الزماں امی ابا سے مصر ہو کر مجھے ڈھاکے لے آئے۔ میں جب چھ سات سال کا تھا تب نواب نور الزماں کا جنہیں میں بڑے نانا کہتا تھا انتقال ہوچکا تھا۔ وہ مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ بالکل پرانے فیشن کے، کار چوبی چوغہ پہنے ہوئے چغادری زمیندار۔ جیسے پرانی کتابوں کی تصویروں میں ہوتے ہیں۔ بہرحال۔ اب قمر الزماں ریاست کے مالک تھے۔ وہ مجھے ڈھاکے لے آئے اور اسکول میں داخل کردیا۔ میں اس وقت بارہ تیرہ سال کا تھا۔ میں ارجمند منزل رہ رہا تھا۔ اور نیئر الزماں کے ساتھ کار میں بیٹھ کر اسکول جایا کرتا تھا۔ ابا کو ماموں جان نے یقین دلایا تھا کہ امی کا روپیہ جو ابا نے شادی کے وقت لینے سے انکار کیا تھا میری تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود بیس روپیہ مہینہ باضابطہ ہر مہینے ابا گائوں سے میرے نام منی آرڈر کرتے۔ ماموں جان مسکرا کر وہ روپیہ وصول کرتے اور میرے نام ڈاک خانے میں جمع کرتے رہتے۔ اصلیت یہ تھی کہ میں ارجمند منزل میں ماموں جان کے لاڈلے نور نظر کی حیثیت سے پروان چڑھایا جارہا تھا۔ ان کا بیٹا نیئر خاصا کوڑھ مغز تھا۔ ماموں جان اس کی طرف سے بہت مایوس تھے۔ اور مجھے آئیڈیلایز کررہے تھے۔ اور اصل بات ساری یہ تھی کہ وہ جہاں آرا سے میری شادی کرنا چاہتے تھے۔ ماموں جان علی گڑھ کے معتقد تھے۔ انہوں نے ایف اے کے لیے علی گڑھ بھیج دیا۔ وہاں میں مزید لائق اور ہونہار ثابت ہوا۔ ماموں جان بے چارے کے سارے خاندان میں واحد معقول اور ہونہار نوجوان صرف میں تھا۔ ماموں جان میرے لیے طرح طرح کے خواب دیکھنے لگے۔ بیرسٹری، آئی سی ایس کا مقابلہ، ان کے پٹ سن کے کاروبار کی دیکھ بھال۔

’’جہاں آراء چھوٹی سی تھی۔ مجھ سے پانچ چھ سال چھوٹی ہوگی۔ وہ مجھے بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ بڑی ہوئی اور پتا چلا کہ ماموں جان اس سے میری شادی کرنا چاہتے ہیں، تو میں بے حد خوش ہوا۔ میرا خیال تھا میں کالج سے نکل کر کسی اخبار میں کام کروں گا۔ میں انگریز سرکار کی ملازمت کے سخت خلاف ہوگیا تھا۔ کسی یونی ورسٹی میں پڑھائوں گا۔ اور جہاں آرا کو لے کر اپنا گھر الگ بنائوں گا۔

(جاری ہے)

حصہ