امریکا کے پارلیمانی انتخابات:سینیٹ پر ڈیموکریٹک پارٹی کی بالادستی خطرے میں 

78

امریکا میں انتخابات نومبر میں منعقد ہورہے ہیں جن پر دنیا کی نظر ہے۔ ہم امریکا کے انتخابات، اہم شخصیات ،ایشوز ، وہاں کے نظام اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک خصوصی سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر ہفتے امریکا میں مقیم معروف تجزیہ نگار مسعود ابدالی کے مضامین ”سنڈے میگزین“ میں شایع کیے جارہے ہیں۔ ان مضامین کے ذریعے قارئین کو عالمی تناظر میں امریکی سیاست کو سمجھنے اور اہم معاملات کی تفہیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔آپ کے تبصروں اور آراء کا انتظار رہے گا۔

اس سال 5 نومبر کو جہاں امریکا کے 47 ویں صدر کا انتخاب ہوگا وہیں کانگریس (پارلیمان) کے ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کی جملہ 435 اور ایوانِ بالا (سینیٹ یا راجیہ سبھا) کی 34 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اسی دن امریکا کی 11 ریاستوں میں گورنر کے لیے بھی میدان سجے گا۔

کانگریس یا مقننہ امریکی نظمِ حکومت کی مثلث کا ایک اہم ستون ہے جس کو قانون سازی اور انتظامیہ و عدلیہ کے احتساب کے ساتھ قومی خزانے پر مکمل دسترس حاصل ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قومی بٹوے کی زپ کانگریس کے ہاتھ میں ہے۔ صدر کے صوابدیدی فنڈ پر بھی کانگریس کی نظر رہتی ہے۔ کابینہ کے وزرا، اٹارنی جنرل، سی آئی اے، ایف بی آئی سمیت ایجنسیوں کی قیادت، عدالتِ عظمیٰ اور وفاقی عدالت کے قاضی، فوجی سربراہان، سفیروں اور دوسری اہم تقرریاں سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہیں۔

سینیٹ کے اختیار کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے جج انٹون اسکالیہ 13 فروری 2016ء کو انتقال کرگئے۔ ضابطے کے تحت سابق صدر بارک حسین اوباما نے اپیلٹ کورٹ کے سربراہ میرک گارلینڈ (حالیہ اٹارنی جنرل)کو جسٹس اسکالیہ کا جانشین نامزد کردیا۔ اُس وقت سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کو برتری حاصل تھی۔ سینیٹ کے اکثریتی رہنما سینیٹر مچ مکانل نے اعتراض اٹھادیا کہ گیارہ ماہ بعد صدر اوباما کی مدتِ صدارت ختم ہورہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے جج کا تقرر تاعمر ہوتا ہے، لہٰذا چند ماہ بعد سبک دوش ہونے والے صدر کو اتنی اہم تقرری کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ ریپبلکن کا یہ مؤقف اس اعتبار سے غیر منطقی تھا کہ ایک منتخب صدر کو اپنی مدتِ صدارت مکمل ہونے تک آئین کے اندر رہتے ہوئے تمام فیصلوں کا حق حاصل ہے۔ لیکن مچ مکانل اپنی بات پر اَڑے رہے اور انھوں نے رائے شماری تو دورکی بات ابتدائی سماعت کے لیے سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے انصاف کا اجلاس ہی طلب نہیں کیا۔ حتیٰ کہ صدر اوباما کی مدتِ صدارت ختم ہوگئی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی قدامت پسند جج نیل گورسچ کو اس منصب کے لیے نامزد کیا اور سینیٹ نے توثیق کردی۔

اِس وقت 435 رکنی ایوانِ نمائندگان میں 220 ریپبلکن نمائندوں کے مقابلے میں ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد 212 ہے، جبکہ 3 نشستیں خالی ہیں۔ گویا ٹرمپ صاحب کی ریپبلکن پارٹی کو برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی پر معمولی برتری حاصل ہے۔ امریکا میں ایوانِ نمائندگان کی مدت دو سال ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایوانِ نمائندگان پر بالادستی کے لیے مقابلہ بہت سخت ہے اور کسی بھی جماعت کو پانچ نشستوں سے زیادہ کی برتری حاصل نہیں ہوگی۔ ایک دلچسپ بات کہ حالیہ ایوان کو عوام نے کارکردگی کے اعتبار سے بدترین قرار دیا ہے اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق صرف 13 فیصد امریکی اپنے نمائندوں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

امریکی سینیٹ 100 ارکان پر مشتمل ہے اور ہر ریاست کے لیے سینیٹ کی دونشستیں مختص ہیں، یعنی یہاں تمام کی تمام پچاس ریاستوں کو یکساں نمائندگی حاصل ہے۔ براہِ راست انتخاب کے ذریعے سینیٹر 6 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ پالیسی کا تسلسل برقرار رکھنے کی غرض سے انتخاب کا نظام اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر دوسال بعد سینیٹ کی ایک تہائی نشستیں خالی ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ 5 نومبر کو سینیٹ کی 34 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ جن نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں ان میں سے 20 نشستیں ڈیموکریٹک سینیٹروں کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی ہیں، 10 نشستیں ریپبلکن ارکان خالی کررہے ہیں، جبکہ 4 آزاد ارکان کی مدت بھی پوری ہورہی ہے۔ ان چار آزاد ارکان میں سے سینیٹر برنی سینڈرز اور سینیٹر انگس کنگ نے خود کو ڈیموکریٹک کاکس (گروپ) سے وابستہ کررکھا ہے۔

سینیٹ کے لیے جن ریاستوں میں سخت مقابلے کی توقع ہے وہ کچھ اس طرح ہیں:

٭ایریزونا: اس نشست پر چھ برس پہلے ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر محترمہ کرسٹینا سنیما کامیاب ہوئی تھیں۔ گزشتہ برس پارٹی سے اختلاف کی بنیاد پر انھوں نے آزاد بینچوں پر بیٹھنا شروع کردیا اور اِس سال انھوں نے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق یہاں ڈیموکریٹک پارٹی کا پلڑا بھاری ہے۔

٭ مشی گن میں بھی مقابلہ سخت ہے۔ یہاں سے 2000ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کی محترمہ ڈیبی اسٹبینو منتخب ہوئی تھیں جو اب ریٹائر ہورہی ہیں۔ یہاں عرب و مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔

٭مونٹانا: یہ نشست 2006ء سے ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہے لیکن اِس بار سینیٹر ٹیسٹر کے ستارے گردش میں لگ رہے ہیں۔

٭اوہایو سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر شیر برائون کی نشست خطرے میں ہے۔

٭ پنسلوانیا میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر باب کیسی جونیر کو سخت مقابلہ درپیش ہے۔

٭ٹیکساس میں تیسری مدت کا انتخاب لڑنے والے ریپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز سخت دبائو میں ہیں، اگر ڈیموکریٹک پارٹی سینیٹ کی یہ نشست جیت گئی تو یہ 1994ء کے بعد ٹیکساس سے اس کی پہلی کامیابی ہوگئی۔

٭مغربی ورجینیا سے ڈیموکریٹک پارٹی کے جو مینشن سینیٹر منتخب ہوئے تھے جو اِس سال پارٹی سے الگ ہوگئے، یہ نشست ریپبلکن کے پاس جاتی نظر آرہی ہے۔

جائزوں کے مطابق مستقبل کی سینیٹ میں ڈیموکریٹک کے 47 کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 50 یقینی ہے، جبکہ 3 پر سخت مقابلہ ہے۔ گویا اگر کملا ہیرس صدر منتخب ہوگئیں تو انھیں قانون سازی اور تقرریوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی کامیابی کی صورت میں مقننہ اور عدلیہ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

………٭٭٭………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

حصہ