اپنے پرائے کا ساتھ دینے والے

200

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین کے اُس خطے پر جلوہ افروز ہوئے جو جہالت میں ڈوبا ہوا تھا، جی ہاں عرب معاشرہ نہ صرف شرک و بت پرستی میں ڈوبا ہوا تھا بلکہ معاشرتی لحاظ سے بھی ہر برائی ان میں موجود تھی، خصوصاً معاشرے کا غریب مفلس طبقہ، عورتیں اور یتیم ذلت کی زندگی گزار رہے تھے، جن کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ جبکہ دینِ اسلام میں مساوات، بھائی چارے کے لیے خاص احکامات ہیں جن کا عملی طریقہ آپؐ کی حیاتِ طیبہ سے ظاہر ہے۔ نبوت سے سرفراز ہونے سے پہلے ہی آپؐ امین، صادق اور رحم دل تھے، غریبوں اور لاچاروں کی مدد کرنے والے تھے۔ پھر اللہ رب العزت نے بھی قرآن پاک میں یہی احکامات نازل فرمائے ہیں۔ سورۃ النساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اللہ کی عبادت میں لگے رہو، کسی کو کسی بات میں ذرا بھی اس کا شریک نہ بنائو، اور ماں باپ کے ساتھ بھی احسان کرتے رہو اور قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ، قرابت دار پڑوسی کے ساتھ، اجنبی پڑوسی کے ساتھ اور ہم نشینوں کے ساتھ اور مسافروں کے ساتھ اور لونڈی غلام کے ساتھ (اب لونڈی غلام کا زمانہ نہیں ہے تو ان کی جگہ نوکر چاکر کو سمجھیے)، یاد رکھو کہ اللہ اترانے والوں اور شیخی بگھارنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

مذکورہ بالا آیات میں اللہ رب العزت نے معاشرے کے ان تمام لوگوں کے حقوق ادا کرنے کو انسانی اور اسلامی فرائض میں شامل کیا ہے۔ آپؐ نے ان تمام احکامات کی ادائی پہلے خود کی پھر دوسروں کو بھی تعلیم دی۔ آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے درخشاں پہلوؤں میں یہ تمام خصوصیات موجود ہیں۔

آپؐ تو غیر مسلم کی مدد سے بھی کبھی پیچھے نہیں رہے، مظلوم چاہے غیر ہی کیوں نہ ہو، اُس کی مدد کے لیے بڑی طاقتوں کے سامنے بھی ڈٹ جاتے، ماشاء اللہ۔

ایک مرتبہ اراشی نامی ایک شخص سے ابوجہل نے اونٹ خریدے لیکن قیمت ادا نہیں کی۔ وہ سب کے پاس مدد مانگنے گیا لیکن کسی نے مدد نہیں کی، کیوں کہ ابوجہل ایک زوردار بدمعاش اور ظالم قسم کا شخص تھا۔ آخرکار اراشی آپؐ کے پاس آیا۔ اُس کی بات سن کر آپؐ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا، فوراً اس کے ساتھ ابوجہل کے دروازے پر پہنچ گئے، فرمایا کہ اس کو اس کا حق دو، اونٹوں کی قیمت ادا کرو۔‘‘

ابوجہل کی ہوائیاں اڑنے لگی، اسی لمحے اس نے اراشی کو اونٹوں کی قیمت ادا کردی۔

غرض کہ آپؐ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک رہتے اور مدد فرماتے، سبحان اللہ۔

ذرا آج ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، کیا کوئی انجانے مظلوم کی مدد کے لیے کسی بڑی طاقت کا سامنا کرسکتا ہے؟ اس کا حق دلوا سکتا ہے؟ نہیں، یہاں تک کہ متعلقہ اداروں کی بھی بولتی بند ہوجاتی ہے کہ مظلوم کو انصاف دلوا سکیں۔ اسی وجہ سے ملک میں بدامنی اور عدم تحفظ کی فضا ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں آپؐ کے اسوۂ حسنہ اور سنت کی پیروی کرنا لازم ہے، اسی سے ملک میں نہ صرف امن و اماں پھیلے گا بلکہ ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔

حصہ