ان کی باتیں ختم ہونے پر فاطمہ نے کہا کہ میں از خود بھی حیران تھی کہ اچانک صفدر حسین کے جسم سے دو اقسام کی مہکاریں کیسے آنے لگیں اور قیدی نمبر 1103 کے جسم سے بھی ایک کی بجائے دو مہکاریں کیوں آنے لگیں۔ پھر جب میں نعمت خان صاحب کے کمرے میں واپس آئی تو ان بوتلوں سے ویسی ہی بو کیوں محسوس ہونے لگی۔ اب میں سوچ رہی ہوں کہ جس ٹرے میں یہ تمام اشیا لائی گئیں تھیں اگر وہ بھی ہمارے ہاتھ لگ جاتی تو اس میں سے بھی شاید ہمیں ایسی ہی بو آتی محسوس ہوتی۔ بوتلوں سے بے شک ویسی ہی مہک آ رہی تھی اور اب بھی آرہی ہے لیکن نکلنے والی مہک جیسے بہت ہی کم ہو۔ میرے خیال میں یہ لانے والے کے ہاتھوں میں لگی رہ جانے والی کسی دوا یا کسی قسم کے پوڈر کی مقدار سے آ رہی ہوگی۔ جمال نے کہا کہ کہ ان بوتلوں کو اپنے ہمراہ لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کو لیباریٹری سے چیک کرایا جا سکے۔ ایک امکان ہاتھوں کی انگلیوں کے نشانات کا بھی ہو جس کی مدد سے جیل میں موجود اس اہلکار کا علم بھی ہو سکتا ہے جس نے کھانے پینے کی یہ اشیا جیلر کے آفس میں فراہم کی تھی۔
وہ تینوں اسی طرح موجودہ صورتِ حال کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے رہے اور پھر یہ فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو یہ سب باتیں ایک رپورٹ کی شکل میں مرتب کرکے اعلیٰ افسران تک پہچائی جانی چاہئیں اور پھر ایک اور وزٹ کی تیاری کرنی چاہیے جس کا تعلق زمیندار کے فارم ہاؤس میں قیام کے دوران قتل کی تحقیات پر مزید کام کرنے سے ہے۔
فاطمہ تو فی الحال اپنے گھر جا چکی تھی۔ اس کو کہہ دیا گیا تھا کہ وہ دو تین دن قیام کے مطابق اپنے رہنے سہنے کے لیے ضروری اشیا کو تیار رکھے، ہم دونوں بھی تیاری کر لیتے ہیں تاکہ قیام کے دوران کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ بات بہت ضروری ہو گئی تھی کہ فوری طور پر کسی بھی ذمہ دار آفیسر کو آج کی تمام تر رپورٹ بھیجی جائے کیونکہ تاخیر بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔ اب ان کے پاس سوائے ان کے والد کے، کوئی اور ذریعہ نہیں تھا اسی لیے وہ اپنے والد کا شدت سے انتظار کر رہے تھے جن آنے میں بمشکل آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا۔ خدا خدا کرکے یہ وقت گزرا۔ والد صاحب کے سامنے ساری صورت حال رکھی تو انھوں نے بتایا کہ مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ کیس پولیس ہی کے پاس ہے۔ انسپکٹر حیدر علی اس کیس کے انچارج ہیں اور تم لوگوں کی جانب سے کوئی بھی رپورٹ ملے تو وہ حیدر علی سے فوری رابطہ کریں۔
جیسے ہی ان کے والد نے حیدر علی کو جمال اور کمال کے متعلق آگاہ کیا، وہ دیر لگائے بغیر گھر پر آ گئے۔ تمام رپورٹ کو انھوں نے حیرت سے سنا اور پڑھا۔ پانی کی بوتلوں کو نہایت احتیاط کے ساتھ پیک کیا اور اپنے ہمراہ لے گئے۔ جمال اور کمال کی ذمہ داری پوری ہو چکی تھی اور وہ سمجھ چکے تھے کہ وہ کافی حد تک شواہد اکھٹا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ابھی وہ آرام کی غرض سے اپنی اپنی کمریں سیدھی کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ ان کے والد نے ان کو آگاہ کیا کہ وہ زمیندار کے فارم ہاؤس جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ایک اسپیشل گاڑی ان کو لینے کے لیے آنے والی ہے۔ اس گاڑی کا انتظام زمیندار نے ہی کیا ہے۔ اسے خوشی ہے کو اسکول کے طالبعلم ان کی زمینوں پر اپنے اسائیمنٹ کی تیار کے لیے کچھ دن قیام کرنا چاہتے ہیں۔
ابھی سورج غروب ہونے میں کافی دیر باقی تھی۔ زمیندار کی بھیجی ہوئی اعلیٰ گاڑی زمیندار کی وسیع زمینوں سے گزرتی ہوئی اس کی ایک اعلیٰ طرزِ تعمیر کا نمونہ پیش کرتی ہوئی رہائش گاہ کے سامنے رکی۔ عمارت کے چاروں جانب کا منظر دل کو لھبانے والا تھا۔ یا تو عمارت کے چاروں جانب خوبصورت باغیچے تھے یا پھر دور دور تک پھیلے ہوئے کھیت۔ جو زمین آباد نہیں ہو سکی تھی، وہ ابھی تک ریگزار کا نمونہ بنی ہوئی تھی۔ اس قسم کے تمام مناظر دیکھتے اور زمیندار کی زمین سے گزر کر جب وہ گاڑی سے باہر آئے تو زمیندار نے اپنے مزارعوں اور ساتھیوں کے ساتھ ان کا بھر پور استقبال کیا۔ فاطمہ، جمال اور کمال صاف محسوس کر رہے تھے کہ زمیندار صرف تین نو عمر بچوں کو دیکھ کر کچھ حیرت زدہ ضرور ہوا تھا لیکن مضبوط اعصاب د رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی حیرت پر اگلے پل ہی قابو پا چکا تھا۔ شاید اس کا خیال ہو کہ آنے والے طالبعلم اچھی عمر والے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالبِ علم ہوںگے۔ ایک لان میں کرسیاں اور میزیں لگی ہوئی تھیں۔ زمیندار نے ایک نشست سنبھالتے ہوئے مہمان طالبعلوں کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کچھ دیر سوالات و جوابات ہوتے رہے۔ نو عمر طالبعلموں کی گفتگو ان کی اعلیٰ قابلیت کا پتا دے رہی تھی جس کو سن کر زمیندا رچوہدری ایاز علی کا پہلے والا خیال شاید دور ہوتا جا رہا تھا۔ ان سب کے چہرے کے تاثرات کافی حد تک بدل رہے تھے اور اب وہ ان کو کم عمری کے لحاظ سے نہیں، بڑی کلاسوں والے طالبعلموں کے سے انداز میں سنبھل سنبھل کر جواب دے رہے تھے۔(جاری ہے)