جمعیت الفلاح کراچی ایک اسلامی فلاحی سینٹر ہے جو کہ طویل عرصے سے خدمتِ خلق خدا میں مصروفِ عمل ہے‘ اس ادارے کے اراکین و عہدیداران اسلامی تہذیب و تمدن کے علمبردار ہیں تاہم یہ ادارہ اردو زبان و ادب کی ترویج اشاعت میں بھی بھرپور حصہ دار ہے۔ گزشتہ ہفتے الفلاح ہال کراچی میں جلسۂ سیرت النبیؐ اور نعیتہ مشاعرہ منعقدکیا جس کی صدارت ڈاکٹر عزیز احسن نے کی۔ ظفر محمد خان ظفر مہمان خصوصی تھے۔ ممتاز اسکالر راشد نسیم اس پروگرام میں مہمان اعزازی تھے۔ اقبال یوسف نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ نظر فاطمی نے نعت رسول پیش کی۔ نورالدین نور نے اس پروگرام کے پہلے حصے کی نظامت کے ساتھ ساتھ سیرتِ نبیؐ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ جو زمین و آسمانوں کا رب العالمین ہے‘ ہمارے رسول ان تمام جہانوں کے لیے رحمت العالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آخری پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ اب کسی بھی عنوان کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا۔ قرآن مجید اور سیرتِ رسول ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔
جمعیت الفلاح کے جنرل سیکرٹری قمر محمد خان نے کہا کہ ہماری تنظیم غیر سیاسی ہے‘ ہم لوگ عوام الناس کے خدمت گزار ہیں‘ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم معاشرے کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی ترقی میں بھی اپنا حصہ شامل کریں ہمارے ادارے کے دروازے تمام علم دوست شخصیات کے لیے کھلے ہیں‘ آج ہم نے دنیا کے سب سے بڑے رہبر‘ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر سیمینار رکھا ہے اور نعتیہ مشاعرہ بھی ہوگا جو لوگ نعت رسول کہہ رہے ہیں وہ قابل احترام ہیں کیوں کہ آنحضرت کا ذکر کرنا باعثِ ثواب ہے۔ نعت لکھنا‘ نعت پڑھنا اور نعت سننا اسلامی روایت کا اہم رکن ہے‘ نعت گوئی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ہمارے نبی دنیا میں جلوہ افروز تھے۔ حضرت حسان کے علاوہ بھی اور لوگوں نے اس زمانے میں نعتیں کہی ہیں یہ روحانی سلسلہ آج بھی جاری ہے اور قیامت تک نعت گوئی ہوتی رہے گی۔
راشد نسیم نے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ گفتگو کروں۔ آپؐ کی تعریف اور توصیف میں قرآن نے بہت کچھ کہا ہے‘ آپؐ کو اللہ نے معراج کی دولت سے نوازا ہے‘ آپؐ عرش اعظم پر مہمان خدا تھے جہاں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ آپؐ نے معراج میں بہت سے انبیائے کرام سے ملاقات کیں۔ جس مسجد اقصیٰ سے آپؐ آسمان کی سیر کے لیے گئے تھے آج اس اس مسجد پر یہودیوں کا تسلط ہے۔ غزہ کے مسلمانوں پر گیارہ ماہ سے بم باری ہو رہی ہے اور تمام عالمِ اسلام خاموش تماشائی ہے لیکن جماعت اسلامی نے ہر محاذ پر غزہ کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو تمام انسانوں کے لیے مکمل نمونہ بنا کر مبعوث کیا ہے ان کی پیروی کا حکم بھی دیا ہے۔ آنحضرت تمام انسانیت کے لیے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپؐ نے مکے میں اسلام کی دعوت شروع کی اور جب وہاں کے لوگوں نے آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر ناقابل فراموش ظلم و ستم ڈھائے تو آپؐ نے اللہ کے حکم سے مدینہ ہجرت کی اور وہاں اسلام کو مکمل تحفظ حاصل تھا پھر فتح مکہ ہوا‘ دین اسلام غالب ہوا اور مدینے سے پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی گئی جس نے دنیاوی ترقی کے ساتد اسلام کی ترقی میں بھی اضافہ ہوا۔ خلفائے راشدین کے بعد اسلامی حکومت بھی ملوکیت میں تبدیل ہوگئی۔ آج دنیا بھر میں اسلامی ممالک تو ہیں لیکن ہم متحد نہیں ہیں جس کی وجہ سے ہم نقصان ہو رہا ہے‘ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے دشمن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ہمارے اندر مختلف اقسام کی گروہ بندیاں جنم لے رہی ہیں جس کی وجہ سے ہم دنیا میں ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔
صدر مشاعرہ ڈاکٹر عزیز احسن نے کہا کہ اس وقت ہمارے ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے‘ ہم بے شمار مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں‘ سیاست دان اپنی ذمہ داریاں ایمان داری سے پوری نہیں کر رہے‘ ہمارا معاشی ڈھانچہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم سیرت رسول پر مکمل عمل نہیں کر رہے۔ ہمارے یہاں سودی نظام چل رہا ہے جس کی قرآن میں وعید آئی ہے‘ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی نظام یعنی شریعت محمدی نافذ کریں‘ ہم ہر قسم کی نفرت و تعصب سے باہر نکل کر آئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعتیہ شاعری اب صنفِ سخن کا اہم حصہ ہے‘ ہر مسلمان شاعر نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کو خراج عقیدت پیش کیا ہے لیکن غیر مسلم شعرا نے بھی آنحضرتؐ کی شان میں قصیدے لکھے ہیں۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘ میں یہاں یہ بات کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ نعت گوئی ایک مشکل فن ہے کہ اس میں جھوٹ و غلو کی گنجائش نہیں ہوتی۔ نعت میں اللہ تعالیٰ کی صفات کو شامل نہیں کرنا شمائل رسول اور سیرت رسول کے روّیوں کو نعت کا حصہ بنایا جائے۔
جمعیت الفلاح کے صدر قیصر محمد خان نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسلمان کیا‘ اللہ سے ہمارا تعلق جوڑا‘ ہمیں بتایا کہ ہماری زندگی کا حساب و کتاب ہوگا‘ قیامت برپا ہوگی‘ جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ جنت میں جائیں گے‘ برے اعمال والے جہنم کا حصہ ہوں گے۔ لیکن ہم مغربی افکار کے دلدادہ ہوتے جا رہے ہیں‘ ہمارے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے حبِ رسولؐ نکال دیا جائے اور جہاد کا جذبہ ختم کر دیا جائے۔ اس کام کے لیے انہوں نے مختلف انداز میں فنڈنگ کی ہے اور یہ کام آج بھی جاری ہے۔ ہماری درس گاہوں میں اسلامی تعلیمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس موقع پر قیصر خان نے ایک قرارداد پیش کی کہ اس محفل میں شریک سامعین اور شعرائے کرام حکومت پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ تمام اسکولوں میں سیرت نبیؐ کو شامل کیا جائے‘اس مضمون کو لازمی مضمون قرار دیا جائے‘ اس مضمون میں کامیابی ضروری سمجھی جائے۔ اس قررداد کو حاضرین نے منظور کیا۔
اس موقع ڈاکٹر عزیز احسن‘ ظفر محمد خان ظفر‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ خالد حسن رضوی‘ سعد الدین سعد‘ طاہر سلطانی‘ مقبول زیدی‘ عطا محمد تبسم‘ حنیف عابد‘ عابد فاطمی‘ شجاع الزماں شاد‘ افسر علی افسر‘ اکرم راضی‘ نعیم الدین نعیم‘ نورالدین نور‘ خلیل قریشی ایڈووکیٹ‘ شائق شہاب‘ مظہر مہدی اور محمد زبیر صدیقی نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔ بعدازاں پاکستان کی ترقی کے لیے دعا کی گئی۔