’’ممی ممی! دیکھیں مجھے آج یہ گولڈ میڈل ملا ہے، مباحثے میں پہلی پوزیشن آئی ہے میری۔‘‘ نور نے اٹھلاتے ہوئے اپنی ماں سے کہا۔
’’واہ بھئی! میری بیٹی تو ہے ہی بہت لائق۔‘‘
ماں اپنی بیٹی کو بہت چاہتی تھی۔ نور تھی بھی چاہے جانے کے قابل۔ خوب صورت‘ ماڈرن‘ ذہین۔ تعلیمی میدان ہو یا غیر نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں، نور سب سے آگے، ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہر جگہ ممتاز نظر آتی۔ لباس ہو یا اندازِ گفتگو، ہر چیز میں آگے۔ کلاس کی لڑکیاں نور کے پیچھے نور کو ’’مس پرفیکٹ‘‘ کے نام سے یاد کرتیں۔
اساتذہ اور والدین کی نورِ نظر ’’نور‘‘ کامیابی کی منازل طے کرتے کرتے یونیورسٹی تک پہنچ گئی تھی اورشعبہ ابلاغِ عامہ کی ہونہار طالبہ تھی۔ آج یونیورسٹی میں بہت گہما گہمی تھی، کیوں کہ یونیورسٹی میں مباحثہ تھا جس کی کوریج کے لیے ٹی وی چینلز والے بھی آئے تھے۔
نور کے دل میں بھی بڑی خواہش تھی کہ وہ ٹی وی پر آئے۔ وہ وہیں پروگرام کے میزبان سے ملی، اُن کا کارڈ مانگا جو اس کو دیکھتے ہوئے فوراً ہی مل گیا۔ نور کے پاؤں تو زمین پر نہ ٹکتے تھے، بچپن کا شوق جو اب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔
رات بھر نیند نہ آئی، اگلے ہی دن ٹی وی چینل کے دفتر پہنچی، آڈیشن دیا اور نیوز رپورٹر سلیکٹ ہوگئی۔ اب تعلیم کے ساتھ ساتھ نیوز چینل کی ذمے داری بھی تھی۔ نور سب کچھ نبھانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔ نیوز رپورٹنگ آسان نہ تھی، کبھی کہیں بھاگنا پڑتا تو کبھی کہیں۔ مگر اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کی دھن میں نور نیوز رپورٹنگ جیسا مشکل کام بھی کرنے کے لیے تیار تھی، کیوں کہ اُس کے خواب اس کے لیے بہت اہمیت کے حامل تھے۔
شخصی آزادی، فرد کی انفرادی حیثیت، پردے سے آزادی اس کے ذہن و دماغ پر چھائی ہوئی تھی۔ اس میدانِ عمل میں دوسری لڑکیاں بھی اس کی ہم خیال تھیں۔
آج نور کو ’’حجاب واک‘‘ کی کوریج کرنی تھی جو کہ اسلامی فلاحی تنظیم کی جانب سے رکھی گئی تھی۔ نور وقتِ مقررہ پر اپنی ٹیم کے ساتھ کوریج کے مقام پر پہنچ چکی تھی۔
پروگرام میں نور نے دیکھا کہ مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین موجود تھیں۔ ٹیچر، ڈاکٹر، وکیل، تجارت پیشہ خواتین، سیاست سے وابستہ خواتین سب موجود تھیں۔ ان خواتین میں ایک بات مشترک تھی کہ تمام باحجاب تھیں۔ نور ایک ایک کرکے ہر شعبے سے وابستہ خواتین کا انٹرویو کررہی تھی۔ اب تک نور کا خیال تھا کہ پردہ کرنے والی لڑکیاں اور خواتین عملی زندگی میں صرف ہانڈی چولہے میں اپنے آپ کو جھونک کر زندگی برباد کرتی ہیں، مگر یہاں اتنی بڑی تعداد میں باحجاب خواتین کو دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی۔ دل میں حجاب سے متعلق جو، جو سوال آئے اُس نے ان خواتین سے کیے، اور تمام خواتین نے بھرپور جواب دیے۔ ایک لڑکی جو میڈیکل کی طالبہ تھی‘ نور کو بتانے لگی ’’حجاب میری زندگی میں نہیں، حجاب میں میری زندگی ہے۔ اگر میں باحجاب نہ ہوتی تو اتنی بااعتماد نہ ہوتی۔ یہ مجھے نہ صرف غیروں کی نگاہوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ آخرت کی گرمی سے بچانے کا بھی ضامن ہے۔‘‘
اس پہلو پر تو نور نے آج تک سوچا ہی نہ تھا، دل پر پڑے غفلت کے پردے رفتہ رفتہ سرکنے لگے، اُسے لگا کہ اب تک کی زندگی میں وہ حقیقی نور سے دور تھی۔
’’کیا یہ سب خواتین خلائی مخلوق ہیں جو باپردہ ہوکر بھی ہر کام میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں؟‘‘
شانے پر پڑا دوپٹہ اپنے کھلے بالوں پر ڈالتے ہوئے وہ خود سے سوالات کرتی جا رہی تھی اور آنکھوں سے نکلے دو آنسو اسی دوپٹے میں جذب ہوچکے تھے۔ اتنی گرمی کے باوجود پردہ نہ تو ان کی مجبوری ہے نہ ہی زبردستی، بلکہ وہ سرمایۂ افتخار ہے جس کی بنیاد پر ہم چھپائے ہوئے قیمتی موتی کہلاتے ہیں۔