اگست 1937میں حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی بغرض علاج لکھنو تشریف لائے اور چالیس روز قیام فرمایا۔ اُن کی تشریف آوری نہ صرف اہلِ لکھنو بلکہ دور و نزدیک کے اضلاع کے لیے بھی ایک نعمت غیر مترقبہ تھی کہ مولا نا عرصے سے سفر ترک فرما چکے تھے اور عقیدت مندوں کے لیے تھانہ بھون جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ، مگر اب کنواں خود پیاسوں کے پاس آ گیا تھا۔ بھائی صاحب نے جو خاندانی طور پر مولانا کے معتقد تھے، ایک طالب علم کی طرح اُن کی محفل میں جو بعد عصر مسجد خواص میں لگتی تھی ، حاضری دینی شروع کر دی۔ مجھے بھی وہ التزاماً ساتھ لے جاتے۔ اس تقریب سے مجھے بھی قرب و حضوری کا موقع ملا۔ ایک روز مولانا خود پیدل چل کر ہمارے مکان پر تشریف لائے اور بھائی صاحب کے مطب میں بھی تھوڑی دیر بیٹھ کر اس خصوصیت کا اظہار فرمایا جو سارے علما و مشائخ دیو بند کو حضرت سید احمد شہیدؒ کے خاندان سے رہی ہے۔
1934-35ء تک میں علامہ اقبال کے صرف پہلے مجموعے ’’بانگ درا‘‘ سے واقف تھا۔ میں نے اُن کی چاند والی نظم کا عربی میں ترجمہ کیا تھا اور انہوں نے مئی 1929ء میں میرے پہلے سفر لاہور کے موقع پر اُسے ملاحظہ بھی فرمایا تھا لیکن جب میری نظر ’’ضربِ کلیم‘‘ پر پڑی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور میں اُن کے کلام کی بلندی اور تاثیر سے مسحور ہو گیا۔ پھر ’’بالِ جبریل‘‘ پڑھ کر اس سے بھی زیادہ متاثر ہوا۔ اس میں خیالات کی رفعت وجدت کے ساتھ ترنم اور حلاوت کہیں زیادہ تھی۔ پھر ’اسرار خودی از موز بے خودی ، مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ، پیام مشرق اور بعد میں ’’جاوید نامہ‘‘ اور ’’زبور عجم‘‘ کا مطالعہ کیا اور ذہن و قلب نے اُن کا وہ اثر قبول کیا جو کسی معاصر شخصیت سے جہاں تک ادب، شعر اور فکر کا تعلق ہے، قبول نہیں کیا تھا۔
حُسنِ اتفاق سے میرے دوست مولانا مسعود عالم ندوی بھی میرے ہم ذوق واقع ہوئے تھے۔ ہم ایک دوسرے کو اقبال کا کلام سناتے اور اُس کا لطف لیتے۔ اس وقت تک مصر کے نوجوان ادیب و ناقد سید قطب تک ٹیگور کے بڑے قائل اور معترف تھے اور اُن کے کلام کو مشرق کی روحانی شاعری کا شاہکار سمجھتے تھے۔ جب ہم عربی کے کسی رسالے میں ٹیگور کا ذکر اچھے الفاظ میں دیکھتے یا ان کی کسی نظم کا ترجمہ نظر سے گزرتا تو ہم لوگوں کے مزاج میں سخت برہمی و آشفتگی پیدا ہوتی اور طبیعت میں جوش اُٹھتا کہ عالمِ عرب سے اقبال کا تعارف کرایا جائے، چنانچہ مسعود صاحب کے بعض مضامین ’’الفتح‘‘ میں شائع ہوئے اور میری کوشش ’’روائع اقبال‘‘ کی شکل میں سامنے آئی۔ کلام اقبال کی مستی اور سرشاری کا یہی زمانہ تھا کہ مجھے پنجاب کا ایک سفر پیش آگیا اور میں مدرستہ البنات جالندھر کی دعوت و تحریک پر وہاں پہنچا۔ وہاں سے فارغ ہو کر لاہور گیا اور 22 نومبر 1937ء کو عم محترم مولاناسید طلحہ صاحب کی معیت میں علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا کئی گھنٹے نشست رہی معلوم نہیں کیا بات تھی کہ علامہ مرحوم نے غیر معمولی طریقے پر بڑا وقت دیا۔ علالت کے باوجود جو آخری علالت ثابت ہوئی، ان کی طبیعت میں اوّل سے آخر تک بڑا انبساط اور شگفتگی رہی۔ ان کے خادم علی بخش چاہتے تھے کہ یہ مجلس برخواست ہو اور وہ آرام کریں۔ انہوں نے کئی مرتبہ آکر اس کا اظہار بھی کیا لیکن ہر مرتبہ علامہ مرحوم نے اسے نظر انداز کیا اور گفتگو میں منہمک رہے۔
اس موقع پر مولانا حسین احمد مدنی کا تذکرہ بھی ہوا میں نے مولانا کی مدافعت اور صفائی میں کچھ عرض کیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ علامہ صاحب، جو متحدہ قومیت کی تردید میں کچھ عرصے پہلے اپنے مشہور اشعار کہہ چکے تھے‘ سُن کر خاموش ہو گئے اور کوئی لفظ تنقید کا نہ فرمایا۔ آخر ہم ہی لوگوں نے مناسب سمجھا کہ اجازت لی جائے اور علامہ کو آرام کا موقع دیا جائے۔ یہ ہماری آخری ملاقات تھی جس کے صرف پانچ ماہ بعد 21 اپریل 1938ء کو انہوں نے رحلت فرمائی۔
میں اس وقت ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ پر اچھا خاصا کام کر چکا تھا اور اس کا مسودہ اپنے ساتھ لے گیا تھا خیال تھا کہ میں علامہ اقبال سے اس پر مقدمہ لکھنے کی درخواست کروں گا۔ لیکن اُن کی علالت کے پیش نظر میں نے یہ خیال ترک کردہ یا اور اُن سے اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ سیرت سید احمد شہید پر مقدمہ لکھنا مولانا سید سلیمان ندوی کے لیے مقدر تھا۔ انہوں نے ایسا شاندار مقدمہ لکھا جو خود اُن کی اپنی تحریروں میں ایک خاص رنگ اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔
1938ء ہی میں شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے صدر مولانا سید سلیمان اشرف کی طرف سے اخبارات میں اشتہار شائع ہوا کہ مسلم یونیورسٹی کی بی اے کلاس کے لیے دینیات کی ایسی کتاب درکار ہے جس میں بنیادی عقائد ضروری مسائل سیرت نبویؐ اور تاریخ اسلام کی وہ سب معلومات ہوں جو اس سطح اور معیار کے نوجوان طلبہ کے لیے ضروری ہیں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر یہ کتاب معیار پر پوری اتری تو پانچ سو روپے معاوضہ بھی پیش کیا جائے گا۔ میں نے دو‘ تین مہینے میں یہ کتاب تیار کر کے بھیج دی۔ مولانا نے اُسے پسند فرمایا لیکن مولانا ابو بکر صاحب ناظمِ دینیات کے توسط سے مجھے یہ پیغام بھجوایا کہ میں کچھ روز کے لیے علی گڑھ آجاؤں تاکہ بعض مضامین کے متعلق اُن سے گفتگو ہو جائے۔
میں علی گڑھ چلا گیا اور مولانا ابوبکر صاحب کا مہمان ہوا۔ شام کو مولانا سلیمان اشرف صاحب کی مجلس میں حاضر ہوتا اور بعض مضامین پر تبادلۂ خیالات کرتا۔ مجھے اُن کے مشوروں اور رہنمائی سے بڑا فائدہ ہوا اور میرا مسودہ منظور ہو گیا۔ پانچ سو روپے کی رقم اُس وقت ارزانی کے پیش نظر میری حیثیت اور یافت کے مقابلے میں بڑی گرانقدر رقم تھی۔ اتنی بڑی رقم بار پا کر مجھے بے حد مسرت و عزت محسوس ہوئی۔
مسلم یونیورسٹی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر میں چند روز مولانا ابوبکر صاحب کے ہاں گزار چکا تھا لیکن اب انہیں اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ میرے نانا کے مرید اور میرے ماموں کے مخلص دوست تھے اور گھر کے بچے بچے سے واقف تھے۔ میں نے اُن جیسی دلآویز اور جامع شخصیت کم دیکھی ہے۔ وہ ہماری پرانی تہذیب اور قدیم نظام تعلیم و تربیت کا دلکش نمونہ تھے۔ پیکر علم وفضل تھے اور فارسی اور اُردو شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور بہ کثرت اشعار انہیں یاد تھے۔ علم مجلسی کے ماہر تھے لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ مسلک توحید، اتباع سنت اور ردِ بدعت میں کوئی مداہنت اُنہیں گوارا نہ تھی۔
1939کے آغاز میں 464 صفحات پر مشتمل میری کتاب ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ لکھنو سے شائع ہوئی جس میں مولانا سید سلیمان ندوی کا فاضلانہ مقدمہ ’’مسافرِ اسلام ہندوستان کے غربت کدے میں‘‘ کے عنوان سے شامل تھا جس میں سید صاحب نے دل کھول کر سید شہید کے کارنامۂ جہاد و اصلاح کا تعارف کرایا تھا اور مجھ نو عمر مصنف کی پوری حوصلہ افزائی بلکہ عزت افزائی فرمائی تھی۔ اُس وقت اس موضوع پر مولانامحمد جعفر تھانیسری کی سوانح ’’احمدی‘‘ دستیاب تھی یا مرزا حیرت دہلوی کی ’’حیاتِ طیبہ‘‘ جو دراصل مولانا اسمعیل شہید کی سوانح حیات ہے۔ ان کے علاوہ اس موضوع پر اردو میں کوئی کتاب نہ تھی اور یہ دونوں کتابیں قدیم طرز پر تھیں۔ سید صاحب کے متعلق عام تصور یہ تھا کہ وہ ایک صاحب جذب و کرامات شیخ طریقت تھے جنہوں نے مجاہدین کی ایک جماعت فراہم کر کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے خلاف اعلان جہاد کیا اور چند معرکوں کے بعد اپنے مخلص رفیقوں کے ساتھ بالاکوٹ کے میدان میں شہید ہو گئے اور اس طرح اُن کی مجاہدانہ سعی کا خاتمہ ہو گیا۔ سید احمد شہید کی سیرت و حالات کے متعلق تحقیق و جستجو کی کوئی سنجیدہ کوشش بالکل نہ کی گئی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلمانانِ ہند کا حافظہ رفتہ رفتہ اس عظیم شخصیت کے کارنامے بالکل فراموش کر دے گا۔
اس ماحول میں سیرت سید احمد شہید پہلی کتاب تھی جو عصر حاضر کے مذاق کے مطابق لکھی گئی اور اس میں بتایا گیا کہ سید صاحب کا مقصود محض پنجاب میں مسلمانوں پر ظلم وستم کا سدباب کرنا نہ تھا بلکہ خلافتِ اسلامیہ کا احیا اور حکومت علی منہاج النبوت کا قیام و تاسیس تھا اور اُن کی کوششوں کا میدان صرف پنجاب کی سکھ حکومت نہ تھی بلکہ وہ ہندوستان بھی تھا جو اس وقت تک انگریز کے اقتدار و تسلط میں آگیا تھا۔ کتاب ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ ہا تھوں ہاتھ لی گئی اور عقیدت و قدر کی نگاہ سے پڑھی گئی۔ بعض لوگوں نے اُسے آٹھ آٹھ اور دس دس مرتبہ پڑھا اور بعض ایسے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں جو اسلام کی حیات بخش قوت اور مسیحائی سے مایوس اور الحاد اور کمیونزم کے خیالات کا شکار ہو گئے تھے، دینی رجحان اور ایمانی شعور بیدار ہونے کی اطلاع ملی۔
میرا مطالعہ جو پہلے تفسیر و حدیث اور تاریخ و ادب کے دائرے میں محدود تھا، اب اپنے خول سے باہر نکل آیا تھا۔ ڈاکٹر احمد امین کی کتابوں ’’فجر الاسلام‘‘، ’’ضحی الاسلام‘‘ اور ’’ظہرالاسلام’’ اور پھر زعما الاصلاح فی العصر الحدیث‘‘ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ امیر شکیب ارسلان کی ’’حاضر العالم الاسلامی’’ عبدالرحمن الکوابی کی ’’مؤتمر اُم القریٰ‘‘ اور ’’الفتح‘‘ کے ولولہ انگیز مضامین نے فکر ونظر میں وسعت پیدا کی اور ہندوستان سے باہر نکل کر عالمِ اسلام اور اُس کے مسائل اور تحریکات میں دلچسپی لینے کا سامان پیدا کیا۔ اُدھر میں نے ہندوستان کی جنگِ آزادی اور سیاسی تحریکات کا اور اس کے ساتھ سیاسیات کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔
اسی زمانے میں خالدہ ادیب خانم کی کتاب ’’ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش‘‘ سامنے آئی جس نے موجودہ ترکی کے مزاج اور اس کی نشوونما کے سمجھنے میں خاصی مدد کی۔ نومسلم فاضل محمد اسد کی معرکۃ الآرا کتاب Islam at the Crossroad تو تقریباً سبقاً سبقاً ہی پڑھ ڈالی تھی اور اُس سے دل و دماغ متاثر ہوئے۔ گاندھی جی کی آپ بیتی ’’تلاش حق‘‘ ، پنڈت جواہر لال نہرو کی سرگزشت ’’میری کہانی‘‘ اور مولانا طفیل احمد کی کتاب ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ بھی دیکھیں جن سے معلومات میں اضافہ ہوا۔
اسی زمانے میں رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں جو اب لاہور سے نکلنے لگا تھا، مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی کا مضمون ’’آنے والا انقلاب پڑھا‘‘ اور ذہن نے اس کا تاثر قبول کیا اور جن خطرات کی اُنہوں نے نشاندہی کی تھی، واقعات کے سیاق و سباق میں اُن کا قریبی امکان نظر آیا۔ پھر ’’ترجمان القرآن‘‘ کے بعض دوسرے مضامین اور مولانا مودودی کی کتابیں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ ، ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘، ’’پردہ‘‘ اور ’’سود‘‘ دیکھنے میں آئیں جن میں ملت کے ایک باشعور طبقے کے دل کی ترجمانی اور وقت کی ضرورت کا امتزاج تھا اور لوگ ان میں بڑی کشش محسوس کرتے تھے۔ اُسی زمانے میں میری مولانا سے مراسلت شروع ہوئی اور خود میرا ایک مضمون ’’دین و سیاست‘‘ مولانا نے ترجمان القرآن میں شائع کیا تھا جس میں دین وسیاست کی تفریق پر تنقید کی گئی تھی اور ثابت کیا گیا تھا کہ ممالک اسلامیہ میں بالعموم اور ہندوستان کے بر صغیر میں بالخصوص علما نے مجاہدانہ تحریکوں اور اجنبی طاقتوں کے مقابلے کی جدوجہد میں ہمیشہ قیادت کی اور جدید طبقے کے برعکس انہوں نے زیادہ حقیقت پسندی اور صلاحیت کا ثبوت دیا۔
1929ء میں ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ شائع ہوئی تو میں نے اُس کا ایک نسخہ مولانا محمد منظور نعمانی ایڈیٹر ’’الفرقان‘‘ لکھنو کو بھی بھیجا تھا۔ اُن کا خط آیا ’’یہاں ڈاک آنے کا وقت وہ ہے جب میں کھانے کے بعد سونے کی تیاری کر تا ہوں لیکن تمہاری کتاب نے مجھے سونے نہیں دیا۔ میں اسے پڑھ کر بہت متاثر ہوا اب تم یہ لکھو کہ یہ کتاب تصنیف برائے تصنیف ہے یا کچھ کرنے کا بھی ارادہ ہے؟‘‘
مولانا کے دل و دماغ پر اس زمانے میں خاکسار تحریک کے متوازی ایک تنظیم قائم کرنے کا خیال چھایا ہوا تھا۔ اُن کے نزدیک اس کے بغیر حوصلہ مند نوجوانوں کو خاکسار تحریک کے مضر اثرات سے بچانے کی کوئی صورت نہیں تھی اور اس کے لیے محض علمی تردید و استدلال کافی نہیں تھا۔ انہوں نے اس مہم کا آغاز کر دیا تھا لیکن انہیں اس امر کا بھی احساس تھا کہ وہ اس کی قیادت کے لیے زیادہ موزوں نہیں۔ انہی دنوں میرا ایک مضمون خاکسار تحریک کے خلاف الفرقان میں شائع ہو چکا تھا، اس لیے مولا نا مجھ سے ملنے رائے بریلی تشریف لائے اور مجھے یہ ذمے داری قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
میں اپنی جسمانی کمزوری اور غیر تحریکی مزاج سے واقف تھا اس لیے صاف الفاظ میں معذرت کر دی اور تجویز کیا کہ ہمارے دوستوں میں حاجی عبدالواحد صاحب ایم اے اس مقصد کے لیے موزوں ہیں کہ انگریزی پر انہیں پوری قدرت ہے اور ایسی تحریک کی قیادت کے لیے اس کی ضرورت بھی ہے۔ وہ ضروری حد تک دین کا علم بھی رکھتے ہیں، صحیح العقیدہ اور صحیح الفکر ہیں اور اُن میں دین و ملت کی خدمت کا جذبہ بھی ہے لیکن اس وقت وہ بلوچستان کے محکمہ تعلیم میں ایک اچھی پوسٹ پر ہیں اور فورٹ سنڈیمن میں اُن کا قیام ہے۔ مولانا پر اپنی اس تحریک کا اتنا غلبہ تھا کہ انہوں نے وہاں جانے کا ارادہ باندھا، مجھے بھی رفاقت پر آمادہ کر لیا اور ہم اگست 1939ء میں فورٹ سنڈیمن روانہ ہو گئے۔
ہمارے سفر کی پہلی منزل لاہور تھی۔ وہاں مولانا احمد علیؒ کے ہاں قیام رہا اور وہیں سے مولانا کے فرزند اکبر مولانا حبیب اللہ کی رہبری میں ہم لوگ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملنے ان کی قیام گاہ مبارک پارک پونچھ روڈ گئے۔ اُس وقت مولا نا ترجمان القرآن کی ادارت کے علاوہ اعزازی طور پر اسلامیہ کالج لاہور کو بھی کچھ وقت دیتے تھے اور اسلامیات پر طلبہ کو مستفید فرماتے تھے۔ مولانا نے ملتے ہی فرمایا ’’آج قرانِ السعدین ہی نہیں قران السعداء ہو گیا۔‘‘ بہرحال مولانا سے ہماری بڑی دلچسپ ملاقات رہی۔
لاہور میں دو‘ تین روز قیام کے بعد ہم لوگ کوئٹہ روانہ ہوگئے۔ ہمارا گزر اُسی درّہ بولان سے ہوا جس سے ایک سو برس پہلے سید صاحب کا سر بکف اور کفن بردوش قافلہ ہزار دشواریوں سے گزرا تھا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ وہ گھوڑوں اور اونٹوں کا قافلہ تھا جس نے دو پہاڑوں کے درمیان کی تنگ گھاٹی جان خطرے میں ڈال کر طے کی تھی اور ہم تیز رفتار ٹرین میں آرام ہے بیٹھے اسے عبور کر رہے تھے۔ ہم کوئٹہ 3 ستمبر کو پہنچے جس دن برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان, جنگ کر کے دوسری جنگ عظیم کا آغاز کیا تھا۔(جاری ہے )