پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کا ستائیسواں دو سالہ ملک گیر کنونشن 21 اور 22 ستمبر 2024ء کو کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے ماہرینِ صحت، ڈاکٹروں اور ماہرینِ تعلیم نے شرکت کی۔ اس کنونشن کا مقصد صحت کے مسائل اور عوام میں بیماریوں کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی پھیلانا تھا۔
پیما ملک بھر کے ڈاکٹروں، میڈیکل پروفیشنلز، اور طلبہ کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ اس تنظیم کا مقصد طبی پیشہ ور افراد کے مابین اسلامی اقدار کو فروغ دینا، صحت کے مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا، اور انسانیت کی خدمت کے لیے ایک جامع اور اسلامی نقطہ نظر کے تحت کام کرنا ہے۔
پیما نہ صرف طبی ماہرین کو اخلاقی اور اسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے بلکہ عام لوگوں میں بھی صحت کے مسائل کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے مختلف سیمینارز، ورکشاپس اور مفت میڈیکل کیمپس کا انعقاد کرتی ہے۔
تنظیم کا اہم مقصد پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ اسلامی اخوت، بھائی چارے اور خدمتِ خلق کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔ پیما نے ملک کے مختلف حصوں میں صحت کے حوالے سے کامیاب پروگرام منعقد کیے ہیں، جن میں صحتِ عامہ کی بہتری کے لیے تجاویز، بیماریوں کی روک تھام اور اخلاقی طبی تحقیق کے اصولوں کی ترویج شامل ہے۔
کنونشن کے دوران مختلف ماہرین نے صحت کی صورتِ حال پر روشنی ڈالی، جس میں بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح اور عوام کی علاج کی استطاعت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ ماہرین نے زور دیا کہ پاکستان جیسے ملک میں بیماریوں سے بچاؤ کے لیے آگاہی اور روک تھام کا نظام بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
کنونشن سے سابق وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن، پروفیسر ٹیپو صدیق، سندھ ہائر ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سی ای او ڈاکٹر عاصم رئوف، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی، کراچی کے صدر ڈاکٹر عبداللہ متقی، دوا ساز ادارے فارمیو کے ایم ڈی ہارون قاسم، ڈائریکٹر رفاہ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر ذکی الدین احمد، معروف اسلامی اسکالر خلیل الرحمٰن چشتی، معروف ماہر امراضِ سینہ ڈاکٹر جاوید اے خان، ڈاکٹر سہیل اختر، ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی، اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کے صدر ڈاکٹر محسن انصاری اور برطانیہ میں مقیم تجزیہ کار سمیع حامدی، صدر الخدمت فاؤنڈیشن ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن، یقین انسٹی ٹیوٹ فار اسلامک ریسرچ امریکا کے شیخ عمر سلیمان اور ڈاکٹر بابر سعید سمیت دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا۔
امریکی نژاد پاکستانی نیورولوجسٹ پروفیسر ٹیپو صدیق کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بیماریوں کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان کے وسائل ایسے نہیں کہ تمام لوگوں کا علاج کیا جا سکے۔ بڑھتی بیماریوں کے دبائو اور اخراجات کو حکومت برداشت کر سکتی ہے نہ پرائیویٹ ادارے اور عوام اس کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بیماریوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے اور لوگوں کی علاج کی استطاعت ختم ہونے کے قریب ہے، بیماریوں کا بڑھتا ہوا دباؤ ملکی معیشت کو بھی متاثر کررہا ہے، ان حالات میں صرف ایک ہی آپشن ہے کہ ہم لوگوں کو بیماریوں سے بچائو اور روک تھام کے لیے آگہی دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ بیماریوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے، لوگوں کو سبزی کھانے اور گوشت، تیل، چینی اور نمک ترک کرنے کی ترغیب دینی ہوگی، انہیں بتانا ہوگا کہ ان کی صحت کے لیے ورزش کو معمول بنانا کتنا اہم ہے۔
سابق وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحت کا شعبہ کبھی بھی کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہا، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اسے بڑھا کر 5 فیصد کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری جامعات میں ہیلتھ سسٹم پڑھایا ہی نہیں جاتا، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو ڈاکٹر ان جامعات سے پڑھ کر آئے گا وہ ہیلتھ سسٹم کو سمجھتا ہوگا اور اسے پتا ہوگا کہ یہ سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سسٹم میں کئی فالٹس ہوتے ہیں، ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم میں بھی فالٹس ہیں۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سی ای او ڈاکٹر عاصم رئوف کا کہنا تھا کہ فزیشن فارما تعلقات کے نتیجے میں ایسی دوائیں مارکیٹ میں آرہی ہیں جن کے عوام متحمل نہیں ہوسکتے، جو عوام کی جیب پر بوجھ بن رہی ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اس سے آگاہ ہے۔ ہم نے اخلاقی مارکیٹنگ کے لیے سفارشات تیار کی ہیں، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان سفارشات کو فائنل کیا ہے، اس پر عمل درآمد کرائیں گے اور کمپنیوں کو پابند کریں گے کہ وہ اپنے اخراجات سے آگاہ کریں گے کہ انہوں نے کانفرنسوں اور فزیشنز پر کتنے اخراجات کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی گٹھ جوڑ عوام کی جیب پر بھاری ثابت ہورہا ہوگا تو اس کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کریں گے، اور اگر کوئی خلاف ورزی کرے گا تو اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی مدد حاصل کریں گے۔
مقامی دوا ساز ادارے فارمیو کے ایم ڈی ہارون قاسم نے کہا کہ آج پیما کنونشن میں ایک اچھی گفتگو ہوئی ہے، اس کو جاری رہنا چاہیے۔ جو ریگولیٹری اتھارٹیز ہیں ڈریپ اور پی پی ایم اے اور پی ایم ڈی سی، انہیں مل کر اس پر بات چیت جاری رکھنی چاہیے اور کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔ ہماری مشترکہ کوشش ہے کہ مریض کو معیاری اور اچھی دوا ملے جس سے وہ صحت یاب ہو اور صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں آئے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع کا کہنا تھا کہ ہمیں میڈیکل ایجوکیشن کا نصاب ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ میڈیکل تعلیم اچھا ڈاکٹر تو بنا رہی ہے لیکن اچھا انسان نہیں بن رہا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں میں اچھائی، انسانی ہمدردی اور معاشرے کی بہتری کے لیے جذبات نظر نہیں آتے۔ اسکولوں میں، میڈکل کالجوں میں بائیو ایتھکس اور لٹریچر پڑھانا چاہیے تاکہ طلبہ کو انسانی احساسات، جذبات اور تکالیف کا احساس ہوسکے۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے صدر ڈاکٹر عبداللہ متقی کا کہنا تھا کہ اس کنونشن میں ملک بھر سے ڈاکٹرز شریک ہیں، کنونشن میں سائنٹفک، پلینری سیشنز، بیماریوں کی شرح میں اضافے، خواتین ڈاکٹروں کے مسائل اور صحت کے شعبے میں ہونے والی جدت پر بات چیت ہورہی ہے۔
اگلے روز اتوار کو ذیابیطس، آرتھوپیڈکس، اعصابی امراض اور دیگر موضوعات کو شاملِ گفتگو کیا گیا۔
کنونشن کے آخری روز امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے خطاب میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کرپشن اور ناقص حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی۔ انہوں نے زور دیا کہ عوامی شعور کو بیدار کرنے اور صحت و تعلیم کے مسائل حل کرنے کے لیے تمام طبقوں کو متحد ہونا ہوگا۔
حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’’عوام کو امن، تعلیم اور صحت کی سہولیات سمیت تمام چیزیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر سارا کام ہی فلاحی تنظیموں کو کرنا ہے تو عوام حکومت کو ٹیکس کیوں ادا کریں؟ سندھ میں تعلیم کا454 ارب روپے کا بجٹ ہے، تمام صوبہ جات میں صرف تعلیم کی مد میں 15ہزار ارب سے زائد کے بجٹ ہیں۔ اگر تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کرپشن نہ ہو توپاکستان میں تعلیم اور صحت کا نظام بہتر ہوسکتا ہے۔ صحت کے بجٹ میں بھی اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر صحت کے شعبے میں جن چیزوں پر کام کرنا چاہیے ان پر بجٹ کا پیسہ خرچ نہیں کیا جاتا۔ سندھ اور بلوچستان میں تعلیم اور صحت کا برا حال ہے۔ جب سرکاری محکمے ایمان داری سے کام نہ کریں تو پرائیویٹ سیکٹرز کو فائدہ ہوتا ہے۔ غریب اور مڈل کلاس طبقے سے وابستہ افراد اپنے بچوں کو تعلیم اور صحت فراہم نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی 25 کروڑ آبادی میں سے صرف ڈھائی کروڑ افراد ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو انٹر میڈیٹ کے بعد پڑھا سکتے ہیں۔ 3 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔‘‘
کیونکہ حافظ نعیم کو فلسطین کی صورتِ حال پر بھی ڈاکٹروں سے گفتگو کرنی تھی تو اس ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’امتِ مسلمہ کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے اسرائیل کو تقویت حاصل ہورہی ہے۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے فلسطین کا ساتھ دیا تو ہماری جرنیلی، عیاشی اور حکومت کو خطرہ ہوجائے گا۔ بحیثیت امتِ مسلمہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ یو این او اور ملکی سطح پر فلسطین کی آواز بنیں‘‘۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے مزید کہا کہ ’’پاکستان میں موجود ڈاکٹرز پاکستان میں نہیں رکتے اور باہر ملازمت کے لیے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کا بھی برا حال ہے۔ اندرون سندھ کے لوگ بھی اپنا علاج کروانے کے لیے کراچی آتے ہیں۔ سندھ حکومت این جی اوز کی آڑ میں ہیلتھ سیکٹر کو چلارہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹرز نے تعلیم اور صحت کو کاروبار بنالیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے قیام کا مقصد کاروبار نہیں تھا بلکہ سرکاری اداروں کے ساتھ پارٹنرشپ پر کام کرنا تھا۔ حکومت و ریاست کے پاس عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے، اور یہی پیسہ عوام پر خرچ نہیں کیا جارہا ہے۔ ملک پر ایسا طبقہ قابض ہے جو عوام کو سہولیات سے محروم کررہا ہے۔ ہمیں ایسے نااہل حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘
کنونشن کے دوسرے روز ایک رپورٹ سلائیڈ کے ذریعے پیش کرتے ہوئے ڈاکٹرحفیظ الرحمٰن نے جو الخدمت فائونڈیشن کے صدر بھی ہیں اور فلسطینیوں کی امداد، اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے بحیثیت پاکستانی خاصے متحرک بھی ہیں، کہاکہ 45کروڑ مسلمان غزہ کی پٹی کے اطراف موجود ہیں، جو 7لاکھ یہودیوں سے غزہ کو بچا نہیں پارہے، غزہ کو جیل بنا رکھا ہے،41 ہزار شہدا ہیں، 10ہزار ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں،94 ہزار زخمی ہیں، 11 ہزار کے زخم خراب ہوچکے، بے ہوشی کی دوا کے بغیر آپریشن کیے جارہے ہیں، ایک ہزار سے زائد لوگ رینل ٹرانسپلانٹ کے منتظر ہیں، 10ہزار کینسر کے مریض دوا کے منتظر ہیں۔انہوں نے کہاکہ الخدمت 8 اکتوبر سے مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے،8 اکتوبر 2023ء کو فنڈز ٹرانسفر کیے اور کام شروع ہوگیا۔ کچن قائم کیے، جہاں سے کھانا تقسیم ہورہا ہے، خواتین کے لیے 20 ہزار ہائی جین کٹس بھجوائیں،20 ہزار سے زائد بچوں کی ولادت ہوئی ہے، نومولود بچوں کی غذا بھجوائی گئی، صاف پانی سپلائی کیا جارہا ہے، ایک ٹینٹ اسکول شروع کیا گیا ہے،کھانے کی اور زندگی گزارنے کی ضروری اشیاء بھیجی گئیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ایک گودام لیا گیا ہے اور قاہرہ سے سامان وہاں بھجوایا جارہا ہے۔ قاہرہ میں عید پر جانور قربان کرکے گوشت غزہ بھیجا گیا،20 ایمبولینس جا رہی ہیں، دو ایمبولینس غزہ پہنچ چکی ہیں، مزید تین ایمبولینس بارڈر پر تیار کھڑی ہیں، پاکستان سے پانچ چارٹر طیارے مصر بھیجے گئے تھے، پاکستان سے ایک چارٹر طیارے سے دوائیں بھیجی گئیں جو غزہ میں تقسیم کی گئیں،کراچی میں 1700 گائے اور ایک ہزار بکرے ذبح کیے گئے، ایک لاکھ ٹن پیک تیار کرلیے ہیں جو چارٹر طیارے کے ذریعے اور این ڈی ایم اے کے تعاون سے بھیجے جارہے ہیں۔
بلاشبہ یہ پیما کا ایک منفرد اور اہم پروگرام تھا۔ کنونشن میں ڈاکٹروں اور عوام کو صحت کے مسائل سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں اور یہ پیغام دیا گیا کہ صحت کے حوالے سے آگاہی اور تربیت ہی مستقبل میں بہتر زندگی کا ضامن ہے۔ عوامی آگاہی کے ایسے پروگراموں کا تسلسل سے انعقاد ضروری ہے تاکہ صحت کے مسائل کے بارے میں شعور پھیلایا جا سکے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ کنونشن امید اور آگاہی کا پیغام لے کر آیا، جس میں ڈاکٹروں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس طرح کے پروگرام صحت کے مسائل سے نمٹنے اور عوامی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے مسلسل منعقد ہونے چاہئیں تاکہ عوام کو بیماریوں سے محفوظ رکھا جا سکے اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔