(دوسرا اور آخری حصہ)
بظاہر یہ ایک معمولی سا جملہ تھا جو حیرت و تعجب کے جذبات لیے ہوئے تھا۔ لیکن اس جملے میں ہلکی سی ہلکی شکایت حضورؐ کے دل نازک کے لیے منافقوں کے بڑے سے بڑے حملے سے زیادہ اذیت وہ تھی۔ یہ اذیت آپ کو اس وقت پہنچی جب آپ بستر مرگ پر بخار کی تیز آنچ میں سے گزر رہے تھے اور درد کی شدت کے باعث اس مقدس سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی جس سر میں سارے جہاں اور رہتی دنیا تک کا بے کراں درد تھا۔ آپؐ نے یہ بات سنی اور بے قرار ہو کر بسترے اٹھے۔ سر پر پٹی تھی کہ بندھی ہوئی تھی اور ضعف میں ڈوبے ہوئے حسین قدم تھے کہ منبر کی طرف اٹھ رہے تھے۔ منبر پر بیٹھ کر آپؐ نے حقائق اور جذبات کے رخ سے اس طرح پر وہ سرکایا کہ محمدؐ کے چاہنے والوں کے کلیجے منہ کو آنے لگے۔ ضعف و کرب کی وہ دو آتشہ آواز اس طرح سنائی دے رہی تھی:
’’اسامہؓ بن زید کے امیر بنائے جانے پر جن لوگوں نے نکتہ چینی کی ہے مجھے اس کی اطلاع پہنچی۔ اسامہؓ کی امارت پر یہ اعتراض کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے تم لوگ اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہو ‘‘۔
رسولؐ اللہ کے لفظ لفظ سے قلبی دکھ ٹپک رہا تھا اور وہ لوگ جنھوں نے ثابت کر دکھایا تھا کہ وہ ہنسی خوشی اپنی گردنیں تو کٹا سکتے ہیں مگر ہر گز اس قیمت پر اپنا سر بچا لینے کے لیے تیار نہیں کہ حضورؐ کے تلوئوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ ہاں وہی لوگ ، اس وقت یہ منظر جاں گداز دیکھ رہے تھے اور ان کی روح شعلوں اور کانٹوں پر تڑپ رہی تھی۔ رہے وہ لوگ جن کے منہ سے یہ بات نکل گئی تھی تو ان کا کرب انفعال تو جان کنی سے بھی آگے نکل گیا ہو گا۔
’’ خدا کی قسم! منبر پر سے آنحضرتؐ کی پر سوز آواز آرہی تھی ’’خدا کی قسم ! وہ افسری کا سزاوار تھا اور اس کے بعد اس کا لڑ کا افسری کا مستحق ہے… ہاں… وہ مجھ کو محبوب تھا اور یہ ہر حسن ظن کے لائق ہے۔ دیکھو! تم لوگ اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا کرو کیونکہ یہ تمہارے بھلے آدمیوں میں سے ایک ہے‘‘۔
اور اس ’’بھلے آدمی‘‘ نے سچ مچ اپنے جذبہ و عمل دونوں سے ثابت کر دیا کہ وہ اعزاز کا بھوکا نہیں۔ ہاں عشق رسول ؐکا پیاسا ضرور ہے۔ آج جب کہ وہ موتہ کے محاذ جنگ پر اپنے باپ کے خون کا انتقام لینے جا رہے تھے تو اس وقت ان کے دل کو وہ زمین اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ جس کے ذروں پر ان کے باپ کا لہو ابل ابل کر ٹپکا تھا۔ بلکہ وہ ’’بستر‘‘ ان کے روح و دل کو اپنی طرف کھینچے لیے جا رہا تھا۔ جس پر حضور بیمار لیٹے ہوئے تھے۔ اس وقت یہ سپہ سالاری کا زرین تاج بھی ان کے لیے تکلیف دہ بوجھ تھا جس میں بڑے بڑے اکابرین امت ان کی ماتحتی میں چل رہے تھے۔ اور سب کچھ تکلیف محض اس لیے تھی کہ وہ بے قرار تھے کہ رسولؐ اللہ کا ضعف و درد سے نڈھال چہرہ اپنی اشک بار آنکھوں سے لگاتے رہیں۔ اس لیے وہ آگے بڑھتے بڑھتے پیچھے کی طرف پلٹتے اور حضورؐ کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتے۔ مدینے کے پاس مقام جرف پر فوج نے پڑاؤ کیا تو اسامہؓ کشاں کشان بارگاہ رسولؐ میں پہنچے۔ دیکھا کہ مرض میں زیادتی ہوتی ہے اور رسول ؐاللہ بے ہوش پڑے ہیں۔ اسامہؓ کا دل ان کے ہاتھوں سے نکل گیا، اور بے اختیار انھوں نے اپنے لرزتے ہوئے خشک ہونٹ آنحضرتؐ کی پیشانی پر رکھ دیئے۔
ہائے وہ ایک والہانہ بوسہ … خدا جانے اس میں جذبات کی کیسی قیامت چھپی تھی!
بے اختیار حضورؐ نے آنکھیں کھول دیں اور اسامہؓ کا یہ عالم دیکھ کر رحمتہ للعالمین کے سینے میں رحمت و شفقت کا سمندر موجزن ہو گیا۔ اس وقت بھی حضورؐ اسامہؓ کو نہیں بھولے۔ آپ اسامہؓ کے لیے اس وقت بھی دعا فرما رہے تھے۔ دست دعا کبھی سوئے فلک اٹھتا تھا تو کبھی اسامہؓ کے بدن کو سہلاتا تھا۔
دوسرے دن حضورؐ کو کچھ افاقہ ہوا تو پھر آپ نے حکم دیا کہ یہ مہم روانہ ہو جائے اور حضورؐ کی جنبش نظر پر تن من دھن کی بازی لگانے والے اپنے سینے پر صبر کی سل رکھ کر جذبہ اطاعت کی راہ میں چل کھڑے ہوئے۔ اسامہؓ اس وقت اس عالم میں روانہ ہوئے کہ ان کے قدم محاذ جنگ کی طرف اٹھ رہے تھے مگر دل تھا کہ مرغ نیم بسمل کی طرح سوئے مدینہ اڑا جا رہا تھا۔ نگاہ نئے محاذ جنگ کی طرف اٹھ رہی تھی مگر دل تھا کہ سینے میں نہیں تھا۔ وہ تو حضورؓ کے پاس ہی پڑا رہ گیا تھا۔
کیسی عجیب تھی یہ سپہ سالاری کہ یہ جتنا بڑا اعزاز تھا اس سے کہیں بڑی قربانی تھی!
یہ مہم کچھ دور ہی پہنچی تھی کہ حضرت اسامہؓ کی والدہ حضرت ام ایمن کا یہ حکم اپنے اطاعت کیش بیٹے کے پاس پہنچا۔
’’رسولؐ اللہ کی حالت آخری ہے… فی الفور مدینے پہنچو…‘‘
یہ اطلاع بجلی بن کر ہوش و حواس پر گری۔ فرمان رسولؐ پر مرمٹنے والے پیارے رسولؐ پر آنکھیں ملنے کے لیے تڑپتے ہوئے پلٹ پڑے۔ اس وقت اسامہؓ کو کچھ بھی یاد نہ رہا تھا۔ ہر حادثہ اور ہر ایک جذبہ اشک آلود نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ اپنے باپ کی خون ٹپکاتی ہوئی لاش، قاتلوں کے خون آشام چہرے اور حضرت زیدؓ کا خون ٹپکاتی ہوئی تلواریں!۔ ہر شے فراموش ہو چکی تھی۔ اب تو انھیں بس اتنا یاد تھا کہ رسولؐ اللہ اس جہان فانی سے کوچ کر رہے ہیں اور میری ماں مجھے بلا رہی ہیں۔’’رسول اللہ‘‘ جو اسامہؓ کو ماں اور باپ سے بھی زیادہ پارے تھے۔…’’ماں‘‘… جس کے چھوٹے سے چھوٹے حکم پر وہ بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے عادی رہے تھے۔ آج اس ماں کے حکم کا سہارا لے کر وہ افتاں خیزاں مدینہ میں داخل ہو رہے تھے اور، آکر دیکھ لیا کہ ساری دنیا کو درد و الم کی گھٹاؤں میں چھوڑ کر رسالت کا آخری سورج سچ سچ غروب ہو رہا ہے۔ حضورؐ کا چہرہ… ہاں وہ چہرہ ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے کہ جس چہرے کو دیکھ کر لوگ چودھویں کے چاند کو دیکھتے۔ چاند کو دیکھ کر پھر حضورؐ کا چہرہ دیکھتے اور عشق کے سوز سے دہکتی ہوئی یہ چیخ ان کے ہونٹوں تک ان کے دل کو کھینچ لاتی کہ:
’’خدا کی قسم !… یہ چہرہ تو چاند سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے!…خدا کی قسم!!‘‘
ہاں… وہ ہستی اس وقت موت کے پردوں میں چھپ رہی تھی جس کے زانو پر اسامہؓ سر رکھ کر کبھی مچلا کرتے تھے۔ وہ آنکھیں بند ہو رہی تھیں جن سے ابلتا ہوا پیغمبرانہ رحمت کا سیل نور ماں کی مامتا کو بھی پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ باپ کی تڑپ کو بھی ماند کر گیا تھا۔
حضرت اسامہؓ کا دل سینے میں بیٹھنے لگا۔ سینہ فرط غم سے پھٹا جاتا تھا۔ خدا کے رسولؐ جس اسامہؓ کو چوکھٹ سے ٹکرا کر زخمی ہوتا ہوا نہ دیکھ سکے تھے اور بے تاب ہو کر اس کی پیشانی کا خون اپنے دست خاص سے پونچھا تھا۔ آج کیسے ممکن تھا کہ محمد مصطفیؐ کے محبوب کے دل و جگر کو خون خون دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں نہ آتی!… خدا کی رحمت میں جوش آیا اور اسامہؓ کے سر پر ایک بہت ہی بڑے اعزاز کا تاج رکھ دیا گیا۔ یہ تاج اسامہؓ کے سر پر اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے رکھا تھا۔ اس نے اسامہؓ کو حضورؐ کی آخری رسوم ادا کرنے والوں میں خاص جگہ عطا فرمائی۔ تجہیز و تکفین میں وہ پیش پیش رہے اور اس جسد اطہر کو قبر میں اتارنے کے لیے قبر کے اندر تک حضورؐ کے ساتھ گئے کہ جس پر اس وقت خدا ہی جانے کتنے فرشتے عقیدت و سپردگی کے عالم میں پر افشانیاں کر رہے ہوں گے۔
سچ کہا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اسامہ سرداری کے سزاوار ہیں۔
14،15سال کی چھوٹی سی عمر تھی۔ جب اسامہؓ نے خدا کی راہ میں تلوار اٹھائی اور تلوار اٹھانے والے مجاہدوں کی کمان سنبھالی۔ یہی تھی وہ تاریخی مہم جہاں ایمانی ولولوں اور کم سنی کی منزلوں۔ جوش و ہوش کے درمیان انھیں توازن قائم رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ جہاں ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا کہ جس کی یاد نے انھیں عمر بھر چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ جنگ کا یہی تو وہ ایک محاذ تھا جہاں انھوں نے ایک دشمن کو زمین پر ڈال کر تلوار چلانی چاہی تو یکایک ایک شخص نے کلمہ پڑھ لیا، مگر اسامہؓ نے یہ سمجھا کہ دشمن جان بچانے کے لیے ایمان کا جھوٹا دعویٰ کر رہا ہے۔ یہ خیال آیا اور… اسامہؓ کی تلوار اپنا کام کر گئی۔
لیکن پھر ؟…
محاذ جنگ سے واپسی پر واقعہ کی اطلاع حضورؐ تک پہنچی تو خوف و غم کے ایک عظیم دو آتشہ احساس نے حضورؐ کے دل کو تڑپا دیا۔ اب اسامہؓ ہیں کہ سراسیمہ اور مضطرب ہو ہو کر ہزار عذر کر رہے ہیں مگر رسول ؐاللہ ہر عذر کے بعد بے تاب ہو کریہی فرماتے ہیں:
’’قیامت کے دن… قیامت کے دن تم اس کے لا الٰہ کا کیا جواب دو گے؟… بتائو… قیامت کے دن اس کے لا الٰہ کا کیا جواب دو گے…؟‘‘
حضورؐ کو اس عالم میں دیکھ دیکھ کر حضرت اسامہؓ کا کرب انفعال نا گفتنی تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے تاسف کے خنجر نے ان کو نصف ذبح کر کے ڈال دیا ہو۔
’’یہ صورت حال تھی ‘‘ انھوں نے خود بتایا کہ’’ میرا دل تڑپ تڑپ اٹھتا تھا کہ کاش! آج سے پہلے میں پیدا نہ ہوا ہوتا تاکہ یہ واقعہ میرے ہاتھ سے سرزد نہ ہوتا‘‘۔
یہ حادثہ ہوا اور گزر گیا۔
بات آئی گئی ہو گئی۔
لوگ بھول گئے کہ کبھی کیا واقعہ ہوا تھا۔
لیکن اسامہؓ ؟… وہ کہاں بھولے؟… وہ کیسے بھول سکتے تھے۔
سالہا سال کے بعد جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں خونریز اختلافات کا دور آیا، جب بڑے بڑے صحابہؓ اپنے اپنے نقطہ نظر سے پورے اخلاص کے ساتھ اٹھے اور حق پسندی کا ایک ہی جذبہ بے قرار انھیں دو مختلف کیمپوں میں لے گیا۔ اسامہؓ اس وقت دل سے یہ سمجھتے تھے کہ حضرت علیؓ حق پر ہیں مگر اس حق کی حمایت میں تلوار اٹھانے کی بات سنتے ہی اس پرانے واقعہ نے ان کے اندر کرب و درد کا طوفان اٹھا دیا اور انہوں نے اپنی تلوار توڑ ڈالی۔ کوئی چیز بظاہر عملی اقدام میں حائل نہ تھی، بس ایک ’’درد بھری یاد‘‘ تھی جو ان کے اٹھتے ہوئے قدموں کی طاقت سلب کر لیتی، ایک تصور تھا جو ایک قدم اٹھانے کے تصور ہی سے سہما دیتا تھا۔ رسولؐ اللہ کا وہ غم ناک و مضطرب چہرہ آنکھوں میں گھومنے لگتا جو سر یہ حرفہ کے اس جانکاہ حادثہ کے بعد زندگی کے کرب ناک ترین لمحوں میں اسامہؓ نے دیکھا تھا۔ وہی آواز ان کے سینے میں گونجنے لگی۔
’’بتائو… بتاؤ تم قیامت کے دن… اس کے لا الٰہ کا کیا جواب دو گے…؟
’’ نہیں … نہیں !‘‘ ان کا دل پکار اٹھتا …’’ نہیں …. میں اب یہ خطرہ مول نہ لے سکوں گا، میں وہاں نہ جا سکوں گا‘‘۔
اصول اور جذبات کے درمیان ایک زبردست کش مکش ہوتی رہی۔ مگر وہ اٹھے اور اپنی تلوار ہی توڑ ڈالی۔ ایک عجیب بے چارگی کے عالم میں وہ حضرت علیؓ کو اس کے سوا کچھ نہ کہلا سکے۔
’’ اگر آپ بھوکے شیروں کے جبڑوں میں گھس رہے ہوتے تو اسامہؓ آپ کے ساتھ وہاں بھی گھس پڑتا۔ لیکن آہ یہ معاملہ ! اس معاملے میں حصہ لینا اسامہؓ کو پسند نہیں ہے‘‘۔
حضرت علیؓ کے مؤقف کے حق ہونے کا احساس انھیں اتنی شدت سے تھا کہ اس واقعہ کے بعد وہ اپنی علیحدگی پر غور کرتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے لیکن کیسا حسین تھا وہ ’’جنون ‘‘ جو رسول اکرمؐ کے ایک دکھ کو یاد کر کے عقل و خرد سے کہہ رہا تھا کہ اس منزل درد میں میرے دل کو تنہا چھوڑ دو!
اُف کتنا درد تھا اس جواب میں جو حضرت اسامہؓ نے حضرت علیؓ کو بھیجا تھا!
صدیاں بیت گئیں مگر اس کی درد انگیزی ختم نہ ہوئی !!
ہاں… خدا کی قسم! یہ وہ درد تھا جس کا حسین ترین نام ’’ ایمان‘‘ ہے۔ وہ ’’درد‘‘ جو خدا ور اس کے رسولؐ کے عشق سے ایک مومن کے سینے میں جاگ اٹھتا ہے تو پھر اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ ایک بل سے دو بار ڈسا جائے۔جس واقعہ سے حضورؐ کو اتنی تکلیف ہوئی تھی۔ اس واقعہ سے بظاہر بھی پھر اسامہؓ کی زندگی میں کیسے ہو سکتا تھا بھلا ؟۔
آہ!… بھولا بھالا مومن جس کے ہوش و حواس اس تصور اس شالے سے اڑنے لگتے تھے کہ کہیں قلب رسولؐ کے لیے یہ بات باعث اذیت نہ ہو!
اور ہائے ہم اس عہد رواں کے مومن ! … جو سمع و اطاعت کے بجائے ’’تاویل‘‘ کا فن ایجاد کر چکے ہیں جو اس فن کی کمان اٹھا کر خدا اور اس کے رسولؐ کے بڑے سے بڑے حکم کو نشانہ بنا لیتے ہیں مگر نہ دل لرزتے ہیں اور نہ ہاتھ ہی کپکپاتے ہیں۔ ہائے یہ بھیانک فن! جس کی نحوست کا زندہ پیکر اس دور کا ’’مسلمان‘‘ ہے۔ خدا اور رسولؐ کے سامنے نڈر اور شیاطین کی زد میں لرزہ براندام! جو ایک ہی بل سے ہزار بار ڈسا جائے تو نہ اندیشہ اس کے دل پر تیشے نہیں چلاتا کہ’’کیا میں واقعی مسلمان ہوں؟… کیا میں…کہ جس کا نام مردم شماری کرنے والوں نے مسلمانوں کی فہرست میں لکھ دیا ہے۔ خدا کی لوح محفوظ پر بھی مسلمانوں ہی کے زمرے میں درج ہوں ؟‘‘
کفن پوش مردوں کے چہرے زندگی کو اس سوال پر سوچنے کے لیے جھنجھوڑ رہے ہیں،لیکن …آہ !… لیکن!